عمران خان کے خواب اور سیاسی حقیقتیں

تحریر : محمد اسلم لودھی

سوات میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ چند ہفتوں بعد میں وزیر اعظم پاکستان بن جاﺅں گا ۔ جہاں تک اس خواب کا تعلق ہے خواب دیکھنے پر کوئی پابندی تو نہیں لگائی جاسکتی۔ نہ جانے کتنے ہی لوگ رات کو سونے سے پہلے خود کو وزیر اعظم پاکستان تصور کرکے سوتے ہیں لیکن صبح بیدار ہوتے ہی ان کے خواب تنکوں کی طرح بکھر جاتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ عمران خان ایک مقبول عوامی لیڈر بن چکے ہیں انہوں نے نئے پاکستان کی تشکیل کے حوالے سے جو دعوی کیے ہیں ان کی تکمیل پر مجھ سمیت کسی کو بھی شک نہیں ہے لیکن پاکستان کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ بڑے بڑے جلسے کرنے کی بنا پر عمران خان ہی آنے والے الیکشن میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلیں گے کیونکہ جتنے لوگ عمران کے جلسے میں شریک ہوتے ہیں اس سے زیادہ لوگ تو مولانا فضل الرحمان ، ڈاکٹر طاہر القادری ، جماعت اسلامی کے جلسوں میں ہوتے ہیں لیکن پاکستانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ نہ کبھی مولانا فضل الرحمان اکثریت حاصل کرکے وزیر اعظم پاکستان بن سکتے ہیں اور نہ ہی جماعت اسلامی کے نصیب میں وزارت عظمی ہے ۔ان کے مذہبی حلقوں کے ووٹ ہمیشہ ایک ہی جیسے رہتے ہیں ہاں اگر یہ کسی بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ الحاق کرلیتے ہیں تو چند نشستوں میں کامیابی یقینی ہوجاتی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان تو سیاسی طور پر اپنے قلا بازیوں کی وجہ سے ناقابل اعتماد ہوچکے ہیں وہ اپنی انہی قلا بازیوں کی بنا پر وزیر اعظم بن سکتے ہیں لیکن الیکشن میں کامیاب ہوکر وزیر اعظم بننا ان کے نصیب میں نہیں ہے ۔میں سمجھتا ہوں عمران خان کے ساتھ بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے وہ نوجوان نسل کو متاثر کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں لیکن بطور خاص پنجاب میں گزشتہ پانچ سالوں میں میاں محمد شہباز شریف نے لیپ ٹاپ سکیم ، اجالا سکیم ، دانش سکولوں کے ساتھ ساتھ ہونہار طلبہ و طالبات کی جس طرح حوصلہ افزائی کی ہے اس کو فراموش کرنا کم ازکم پنجاب کی نوجوان نسل کے لیے بہت مشکل ہے ۔عمران تو ابھی وعدے ہی کررہا ہے لیکن میاں شہباز شریف نے حقیقت کا روپ دے کر ثابت کردیا ہے کہ اگر انہیں مرکزی حکومت میں کلیدی عہدہ ملتا ہے تو وہ اپنی مقبول عام پالیسیوں اور اقدامات کو ملک گیر سطح پر متعارف کروانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے ۔اس کے باوجود کہ پیپلز پارٹی ایک بار پھر روٹی کپڑا مکان کا پرفریب نعرہ لگا کر پنجاب کے لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے میدان میں اترنے کی تیاری کررہی ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید اب ان کی اس بات پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں ہے اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بطور خاص پنجاب کے ساتھ ہر سطح پر جو پے درپے زیادتیاں کی جاتی رہی ہیں پنجاب کے لوگوں کے ذہنوں سے وہ کبھی محو نہیں ہوسکتیں ۔ جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے ان کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ وہ دو مرتبہ وزیر اعظم پاکستان اور ایک مرتبہ وزیر اعلی پنجاب بھی رہ چکے ہیں اور اس وقت جبکہ پاکستان پر ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے لیے امریکہ سمیت بین الاقوامی طاقتوں کا شدید ترین دباﺅ تھا اس وقت بھی نواز شریف نے غیر معمولی دباﺅ کا مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان کے مفادمیں فیصلہ کرکے ایٹمی دھماکے کیے تھے ۔پھر آج جس موٹروے پر سفر کرنے کا اعزاز اور خواب ہر پاکستانی دیکھتا ہے وہ بھی بے نظیر کی شدید ترین مخالفت کے باوجود نواز شریف کا ہی بنایا ہوا ہے اسی موٹر وے کی بدولت لاہور سے پشاور تک بارہ گھنٹے کا سفر صرف چھ گھنٹے میں باآسانی طے کیا جاسکتا ہے عوام کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ اگر مزید موقع ملا تو نواز شریف لاہور سے کراچی اور گوادر تک موٹروے بنانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کریں گے پیپلز پارٹی کی حکومت نے ریلوے کو جس تباہی سے ہمکنار کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے نواز شریف کی اس بات پر یقین کرنا ہی پڑے گا کہ وہ بلٹ ٹرین چلا کر تیز رفتار مواصلات کی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرسکتے ہیں ۔ ماضی اس بات کا شاہد ہے کہ پنجاب کے لوگ اپنے محسن کو کبھی فراموش نہیں کرتے پہلے اسی پنجاب سے ذوالفقار علی بھٹو نے واضح اکثریت حاصل کی تھی لیکن پیپلز پارٹی کے چار وں ادوار میں پنجاب کے ساتھ جو بدترین سلوک کیاگیا ہے اسے دیکھتے ہوئے امید نہیں کی جاسکتی کہ پنجاب کے غیور عوام پیپلز پارٹی یا اس کی کسی اتحادی جماعت( ق لیگ ،ایم کیو ایم ) کو ووٹ دے کر پاکستان کو معاشی اعتبار سے زندہ درگور کرنے کا موقعہ ایک بار پھرفراہم کریں گے۔ مجھے تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ اس مرتبہ سند ھ میں بھی پیپلز پارٹی کو پہلے والی کامیابی نہیں مل سکتی کیونکہ مرکزی اور صوبائی دونوں حکومتوں نے جس طرح سیلاب زدگان کو بے یار و مدگار چھوڑدیا تھا اس کا ردعمل یقینا الیکشن والے دن سامنے آسکتا ہے وہاں بھی پیپلز پارٹی مخالف اتحاد کی کامیابی کے امکانا ت زیادہ ہیں ۔ بلوچستان میں بے شک ابھی زیادہ ورکنگ نہیں کی جاسکی لیکن محب وطن بلوچ سیاست دانوں کے نواز شریف کے ساتھ رابطے اور مسلم لیگ ن سے الحاق وہاں بھی صورت حال کو تبدیل کرسکتا ہے جبکہ خیبر پی کے میں پہلے ہی نوازشریف مقبولیت کی بلندیوں پر ہے اگر جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمان کے ساتھ اشتراک عمل طے پا جاتا ہے تو یہ بات دعوی سے کہی جاسکتی ہے کہ پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں مسلم لیگ ن واضح اکثریت حاصل کرسکتی ہے ۔عمران خان سنہرے خواب تو دیکھ سکتے ہیں لیکن خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے انہیں شاید ایک اور الیکشن کا انتظار کرنا پڑے گا ۔جلسوں میں لوگ اکٹھے تو ہوجاتے ہیں لیکن بات ووٹ دینے والوں سے بنتی ہے کہ انہیں ہر قومی اور صوبائی حلقے میں کتنے ووٹ ملتے ہیں۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126888 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.