ملک میں عام انتخابات کے انعقاد
کے سلسلہ میں تیاریاں جاری ہیں۔ ماضی کے انتخابات کی نسبت یہ الیکشن کچھ
مختلف ہیں۔ کیونکہ ماضی میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں۔ اور وہ الیکشن جس
طرح بھی ہوئے ہیں وہ سب کے علم میں ہے۔ تاہم موجودہ الیکشن اور ماضی کے
الیکشن میں فرق دکھائی دیتا ہے۔ ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا
انعقاد ہر پاکستانی کی خواہش ہے۔ ان انتخابات کے آزادنہ اور منصفانہ ہونے
کا آغاز اس وقت سے ہی ہو گیا تھا جس وقت چیف الیکشن کمشنر کا چناؤ عمل میں
لایا جارہا تھا۔ الیکشن آف پاکستان نے منصفانہ انتخابات کے انعقاد کیلئے
بہت سی اصلاحات کی ہیں۔ اخبارات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جو
جو اصلاحات اب تک شائع ہوئی ہیں۔ ان کو ہم اس تحریر میں لکھ رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے قانون سازی کیلئے وزارت قانون کو بھجوائے گئے
اصلاحات کے بل میں تجویز دی گئی ہے کہ کسی بھی امیدوار کیلئے اپنی ضمانت
بچانے کیلئے ڈالے گئے ووٹوں کا پچیس فیصد لینا لازمی ہوگا جبکہ اس سے پہلے
یہ حد ساڑھے بارہ فیصد ہے۔ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کیلئے فیس چار ہزار
سے بڑھا کر پچاس ہزار اورصوبائی اسمبلی کیلئے دو ہزار سے بڑھاکر پچیس ہزار
کرنے کی تجویز دی۔ اس پر اب عمل بھی ہو رہا ہے۔ ووٹرکو چیلنج کرنے فیس دو
روپے سے بڑھا کر دس روپے کرنے کی تجویز دی۔ الیکشن آف پاکستان کی طرف سے کی
گئی اصلاحات میں یہ بھی شامل ہے کہ غیر قانونی طور پر پولنگ پر اثر انداز
ہونے پرایک سال قید اور ایک لاکھ جرمانہ ہوسکے گا۔ جعلی ووٹ ڈالنے اور بیلٹ
پیپرپھاڑنے پر ایک لاکھ جرمانہ ہو گااور پانچ سال قید کی سزا دی جائے گی۔
ووٹروں کو رشوت دے کر ووٹ لینے پر آمادہ کرنا، برادری کی بنیاد پر ووٹ
مانگنے اور ووٹروں کوٹرانسپورٹ مہیا کرنے پر امیدوار کو پچاس ہزار جرمانہ
اور تین سال قید کی سزا تجویز کی گئی ۔ الیکشن کیلئے الیکشن کمیشن کی طرف
سے متعین اخراجات کی حد سے تجاوز کرنے والے امیدار کوایک لاکھ جرمانہ کرنے
کی تجویز دی۔ ڈائریکٹر جنرل (الیکشن کمیشن) شیر افگن نے پریس کانفرنس سے
خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن سے ایک ہفتہ قبل ملک کے بارہ کروڑ ووٹروں کو
فری میسج کے ذریعے ووٹ نمبر اور پولنگ اسٹیشن کی تفصیلات فراہم کر دی جائیں
گی۔ وفاقی ٹیکس محتسب شعیب سڈل نے انکشاف کیا کہ ملک میں سالانہ پانچ ہزار
ارب ٹیکس چوری ہو رہی ہے۔ ستر فیصد ارکان اسمبلی گوشوارے جمع نہیں کراتے۔
انہوں ن نے الیکشن کمیشن کوتجویز دی کہ امیدواروں کے بیان حلفی میں ترمیم
کی جائے۔ جس کے مطابق الیکشن میں صرف ان امیدواروں کو حصہ لینے دیا جائے جو
امیدوارُُُُٓٓپانچ سال کا ٹیکس جمع کرائے۔ انتخابی قوانین میں اصلاحات
کیلئے قائم پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی نے حکومت اور طاہر القادری کے درمیان
معاہدے کے مطابق امیدوار کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پرتال کی مدت تیس روز
مقرر کرنے کو مسترد کر دیا ۔ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اسحاق ڈار کا کہنا تھا
کہ تیس روزسکروٹنی میں لگ گئے تو الیکشن کی تیاری کیلئے امیدوار کے پاس
کتنا وقت بچے گا۔ رکن کمیٹی ریاض فتیانہ نے کہا کہ خواتین کی نشستوں کے
حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ دس فیصد نشستوں ن
پر خواتین کو ٹکٹ دیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ اب اتنا وقت نہیں کہ اس تجویز
پر عمل کرایا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ پابندی لگانے سے خواتین کو ان
حلقوں میں ٹکٹ دیے جائیں جہاں سیاسی جماعتوں کے جیتنے کا امکان نہ ہو۔ ریاض
فتیانہ نے کہا کہ حکومت سیاسی جماعتوں کو الیکشن لڑنے کیلئے فنڈز دے جیسے
جرمنی میں حکومت سپورٹ کرتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے نیب سے
سزا یافتہ شخص کو الیکشن میں حصہ نہ لینے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ پلی
بارگین کرنے والے کا راستہ روکنے پر بھی غور کرنے کی بات کی گئی ۔ قرضہ
معاف کرانے والے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ اہل خانہ میں سے کسی کے
نام پر قرضہ معاف کرانے والا اور بیس لاکھ روپے یااس سے زیادہ قرضہ مقررہ
مدت سے ایک سال کے اندر واپس نہ کرنے والا بھی نااہل ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے
دس ہزار سے زائد بجلی اور گیس کے نادہندہ کوبھی نااہل قرار دینے کا فیصلہ
کیا۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایسے لوگ آئین کے آرٹیکل 63کے تحت انتخابات
میں حصہ نہیں لے سکتے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق آرٹیکل 62اور 63کے تحت
امیدواروں کی سکروٹنی کا عمل سخت کرنے کے حوالے سے الیکشن کمیشن، ایف بی آر،
نادرا اور سٹیٹ بینک کے نمائندوں کا اجلاس الیکشن کمیشن کے سیکرٹریٹ میں
ہوا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے سیکرٹری الیکشن کمیشن اور تین ممبران نے شرکت
کی۔ اجلاس میں ایف بی آر اور سٹیٹ بینک نے سکروٹنی کے عمل میں الیکشن کمیشن
کے ساتھ مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ایف بی آر کی جانب سے الیکشن کمیشن
کو بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن امیدواروں کے نیشنل ٹیکس نمبر (این ٹی این )
فراہم کرے گا تو الیکشن کمیشن سے ایف بی آر مکمل تعاون کرے گا۔ ایف بی آر
کی تجویز پر الیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی میں این ٹی این نمبر کا خانہ
متعارف کرانے کا فیصلہ کیا۔ این ٹی این نمبر کی بنیاد پر ایف بی آر تصدیق
کرے گا کہ امیدوار ٹیکس جمع کرا رہا ہے یا نہیں۔ ایف بی آر ایسے تمام افراد
کی فہرست الیکشن کمیشن کو فراہم کرے گا جو اپنے ریٹرن فائل اور نہ ہی ٹیکس
ادا کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق ملک میں اسلحہ لائسنس
پر پابندی غیر معینہ مدت کیلئے لگائی گئی ہے اور تمام اضلاع کے ڈی سی اوز
کو اسلحہ لائسنس کے فارم کی وصول فوری طور پر بند کرنے کی ہدایت کی گئی۔
ایک رپورٹ کے مطابق آزاد الیکشن کمیشن کے تحت دوہزار تیرہ کے انتخابات میں
عائد ہونے والی شرائط نے بڑے بڑے امیدواروں ہی کو نہیں چکرادیا بلکہ سیاسی
جماعتیں بھی سر جو ڑ کر بیٹھ گئی ہیں۔ امیدوار کی شرائط کیلئے آئین کی شق62
اور 63ہی پریشان کن نہیں تھی اب یہ شرط بھی زیر غور ہے کہ قرضہ معاف کرانے
والے اور نیب سے سزا یافتہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ الیکشن کمیشن
کی طرف سے انتخابی اصلاحات کی سفارش میں یہ شرط بھی شامل ہے کہ کوئی
امیدوار ڈالے گئے ووٹوں کا پچاس فیصد لینے میں کامیاب نہ ہوسکے تو اس حلقہ
میں دوبارہ الیکشن ہو سکتا ہے۔ یوں امیدواروں کی بڑی تعداد کو مہنگی ترین
انتخابی مہم سے ایک بار پھر گزرنا پڑے گا۔ الیکشن کمیشن نے ڈالے گئے ووٹوں
سے اکیاون فیصد اور ضمانت بچانے کیلئے امیدوار کو پچیس فیصد کی سفارش وزارت
قانون کو بھجوادی۔ رپورٹ کے مطابق سابقہ الیکشن میں بلوچستان میں قومی
اسمبلی کی چودہ نشستوں میں سے صرف تین ایم این اے تھے جو ڈالے گئے ووٹوں کا
پچاس فیصد لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔ صوبہ سندھ میں اکسٹھ ممبران قومی
اسمبلی میں سے ستاون ارکان ایسے تھے جنہوں نے پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل
کیے اور تین نے اس سے کم حاصل کیے۔ خیبر پختونخواہ کی 35قومی نشستوں میں سے
چار ایم این ایز ایسے تھے جو پچاس فیصدسے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے
تھے۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کے 148حلقوں میں سے 66 حلقے ایسے تھے جہاں ٹرن
آوٹ پچاس فیصد سے زیادہ رہا۔ اور 82 حلقوں میں ٹرن آؤٹ پچاس فیصد سے کم رہا۔
پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی نے آئندہ عام انتخابات میں انتخابی امور
اور نئے ضابطہ اخلاق کوحتمی شکل دے دی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی سفارش کی گئی
ہے کہ امیدواروں کو پولنگ کے دن ووٹر کو ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کی اجازت
ہوگی ۔ جہانگیر بدر کی زیر صدارت ہونے والے اس خصوصی کمیٹی کے اس اجلاس میں
کمیٹی نے جن سفارشات کی کثرت رائے سے منظوری دی وہ یہ ہیں۔اس کے مطابق
الیکشن کے دوران اسلحہ کی نمائش پر سات سال قید کی سزا ہوگی۔ الیکشن کمیشن
انتخابی عمل کی شفافیت کو بڑھائے پولنگ اسٹیشن پر نتیجہ کا اعلان فوری طور
پر کیا جائے۔ ووٹر کا ٹرن آؤٹ پولنگ اسٹیشن پر آویزاں ہوگا۔ کمیٹی نے پولنگ
اسٹیشن کی تعداد بڑھانے کی بھی سفارش کی۔ قومی اسمبلی کیلئے امیدوار کی فیس
پچاس ہزار سے کم کرکے آٹھ ہزار اورصوبائی اسمبلی کے امیدوار چار ہزار کی
جائے۔ کمیٹی نے بھی کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کیلئے چودہ دن کا وقت
مقرر کرنے کی منظوری دے دی۔ کمیشن کے فیصلے خلاف امیدوار تیس دن میں ہائی
کورٹ میں اپیل دائر کر سکے گا۔ پولنگ سٹاف سے لڑائی کی صورت میں امیدار کے
حامی کو فوری گرفتار کیا جائے گا۔ پولنگ اسٹیشن پر قبضے کی صورت میں ایک
لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تک جرمانے کی سفارش کی گئی ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب
سے مقررکردہ سائز سے بڑا کوئی پاسٹر چسپاں نہیں کیا جائے گا۔ عوامی مقامات
پر پارٹی جھنڈے بغیر اجازت نہیں لگائے جائیں گے۔ جھوٹی اور بدنیتی پر مبنی
شکایت کرنے کی صورت میں تین سال تک کی سزا ہوگی۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں پندرہ ترامیم
کی منظوری دے دی۔ اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اہم اجلاس چیف
الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین ابراہیم کی سربراہی میں ہوا۔ جس میں
سیکرٹری الیکشن کمشنر اشتیاق احمد خان اور تمام صوبائی ممبر الیکشن کمشن نے
شرکت کی۔ اجلاس کے بعد ڈی جی الیکشن کمیشن شیر افگن نے میڈیا کو اجلاس میں
کئے گئے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اہم اجلاس کا ایجنڈا امیدواروں
کے کاغذات نامزدگی کے حوالے سے تبدیلیوں اورترامیم کی منظوری تھا۔ انہوں نے
بتایا کہ اجلاس میں کل پندرہ ترامیم کی منظوری دی گئی ۔ ان ترامیم کی روشنی
میں امیدواروں کو کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت اپنے تمام اثاثوں بینک
اکاؤنٹس، اپنی بیوی اور بچوں کے اثاثہ جات اور گزشتہ تین سالوں کی مجموعی
آمدنی اور ٹیکس کی تفصیلات دینا ہوں گی۔ امیدواروں کو کاغذات نامزدگی کے
ساتھ ساتھ ٹیکس ریٹرن کی رسیدیں بھی لف کرنا ہوں گی۔ امیدواروں کو ذریعہ
آمدنی اگر ایک سے زیادہ آمدنی کے ذرائع ہوں تو اس کی تفصیلات سے بھی آگاہ
کرنا ہوگا۔ڈی جی الیکشن کمیشن شیر افگن کا میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے یہ
بھی کہنا تھا کہ امیدواروں کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ انہوں نے بیرون ملک
کتنے سفر کیے ہیں۔ اور کیا ان کے بچے باہر پڑھ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو ان
کی تمام تفصیلات سے آگاہ کرنا ہوگا۔ امیدواروں نے زرعی ٹیکس جمع کرایا ہوگا
تو اس کی تفصیلات بھی بتانا ہوں گی۔ اگر سیاسی پارٹی سے ٹکٹ لیتے ہوئے
انہوں نے کوئی پیسے لیے تو وہ بھی بتائیں اور اگر پارٹی ٹکٹ لینے کیلئے ان
کو کسی نے پیسے دیے تو وہ بھی بتائیں۔ امیدواروں کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ
انہوں نے خیراتی ادارے میں رقم خرچ کی ہے یا عطیہ کی ہے تو اس کی تفصیل سے
بھی آگاہ کرنا ہوگا۔ امیدواروں کو اپنے اہل خانہ کی تفصیلات، گھر کی مالیت
اور کسی غیر ملک کا پاسپورٹ ہے تواس کی تفصیلات بھی دینا ہوں گی۔ ڈائریکٹر
جنرل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ جعلی ڈگریوں اور دہری شہریت کے حوالے سے
جن ممبران کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا تھا وہ الیکشن میں حصہ نہیں
لے سکیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا وہ ممبران جن کو سپریم کورٹ نے نااہل
قرار نہیں دیا اور وہ مبینہ طور پر جعلی ڈگری یادہری شہریت رکھتے ہیں ان کے
حوالے سے کیسز متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کو بھجوادیے تھے اگر وہ وہاں سے
نااہل ہو گئے تو وہ بھی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ ایک رپورٹ میں
یہ بھی کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے
والے تمام امیدواروں اثاثہ جات ، ٹیکسوں اور قرضوں سمیت کاغذات نامزدگی میں
دی گئی دیگر تفصیل عوام کیلئے عام کرنے کا فیصلہ کیا۔ آئین کے آرٹیکل 62اور
63پر پورا اترنے والے امیدوار ہی الیکشن میں حصہ لے سکیں گے۔امیدواروں کی
سکروٹنی کا طریقہ کار طے کرنے کیلئے پانچ رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے ۔ جو
امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کیلئے مشترکہ میکنزم تیار کرے
گی۔ نیب نے سزا یافتہ افراد سے متعلق معلومات الیکشن کمیشن کو فراہم کرنے
کی یقین دہانی کرا دی۔ جبکہ مالی معاملات اثاثوں اور دہری شہریت کی چھان
بین کے حوالے سے ایف بی آر اور نادرا بھی الیکشن کمیشن کی معاونت کریں گے۔
قومی احتساب بیورو کے حکام نے الیکشن کمیشن کو یقین دہانی کرائی کہ وہ نیب
سے سزا یافتہ اور پلی بارگین کرنے والے افراد کی فہرست ریٹرننگ افسروں کو
فراہم کرے گا۔ اور اس حوالے سے اپنا تمام تر تعاون فراہم کرے گا۔ اس سلسلہ
میں منعقدہ اجلاس میں شامل ذرائع کاغذات نامزدگی کی تفصیلات عام کرنے سے
جانچ پڑتال میں آسانی ہوگی۔ کاغذات نامزدگی کی تفصیلات الیکشن کمیشن کی ویب
سائٹ پر جاری کی جائیں گی تاکہ عوام اور متعلقہ ادارے ڈیفالٹر کی نشاندہی
کر سکیں۔ فیصلہ کا مقصد سکروٹنی کا عمل فول پروف بنانا اور امیدواروں کی
تفصیلات عوام تک پہنچانا ہے۔ دہری شہریت والوں کو انتخابات میں حصہ لینے
کیلئے نادرا ڈیٹا فراہم کرے گا۔ امیدواروں کی سکروٹنی کا عمل تین مراحل پر
مشتمل ہوگا۔ پہلے مرحلے میں سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ جن
امیدواروں کو ٹکٹ جاری کررہی ہیں وہ آئین کے آرٹیکل62اور 63 پر پورا اترتے
ہوں۔ دسرے مرحلے میں ریٹرننگ افسر امیدواروں کی سکروٹنی کا عمل نیب، سٹیٹ
بینک اور ایف بی آر کے تعاون سے کرے گا۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں عوام کی
ذمہ داری ہوگی کہ اگر ان کے پاس امیدوار کے خلاف ایسے ثبوت ہیں جن کے تحت
وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ تو وہ ریٹرننگ افسروں کو معلومات فراہم
کریں گے۔ ا نتخابات میں امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال آن لائن ہوگی۔
یوٹیلٹی بلز کے نادہندہ امیدواروں کوبھی انتخابات میں حصہ لینے سے روکا
جائے گا۔ اشتیاق احمد نے کہا کہ الیکشن کمیشن صرف ان امیدواروں کو الیکشن
لڑنے کی اجازت دے گا جو آئین کے آرٹیکل 62اور 63کے تقاضے پورے کریں گے۔
الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں تقرر وتبادلوں صدر، گورنرز، نگران وزیراعظم
اور وزراء کے انتخابی مہم میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی۔ حکومتی
عہدیدار انتخابی حلقوں کا دورہ کریں گے نہ کسی امیدوار کوفائدہ دینے کیلئے
ریاستی وسائل استعمال کر سکیں گے۔ پابندی کا اطلاق چیئر میں ڈپٹی چیئر مین
سینیٹ نگران وزراء اعلیٰ اور مشیروں پربھی ہوگا۔ امیدوار مقررہ مقامات پر
جلسے اور کارنر میٹنگز کر سکیں گے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد نے
صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ووٹرز کو امیدواروں کے کوائف جاننے کا
حق ہے۔ ریٹرننگ افسر بھی ووٹرز کو معلومات فراہم کرنے کا پابند ہو گا۔
الیکشن کمیشن نے بھرتیوں پر عائدپابندی ختم کردی ہے۔ الیکشن کمیشن کیب
مطابق قومی اسمبلی کے امیدوار کے اخراجات کی حد پندرہ لاکھ اور صوبائی
اسمبلی کے امیدوار کی حد دس لاکھ روپے ہوگی۔ امیدوار روزانہ کی بنیادپر
انتخابی اخراجات کی اپنی رقم ترتیب دے گا۔ ہر جمعرات کوڈسٹرکٹ ریٹرننگ
آفیسر کو انتخابی اخراجات کی تفصیل جمع کرائے گا۔ جو اس نے ہفتہ بھر کے
دوران آئین کے آرٹیکل 50 کے تحت خرچ کیے۔ امیدوار کو جلسہ سے ایک ہفتہ قبل
مقامی انتظامیہ کو آگاہ کرنا ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے نئے ضابطہ اخلاق کا
نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے۔ جس کے مطابق امیدواروں کو اخراجات ایک ہی بینک
سے کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ امیدواروں کو گیارہ اور پندرہ اپریل کو بھی
ریٹرننگ افسران کے پاس اخراجات کی تفصیل جمع کرانے کا کہا گیا ہے۔ مقررہ
سائزسے بڑے پاسٹرز، بینرزاور ہوڈنگ بورڈز کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی۔
وال چاکنگ اور پبلک مقامات پر پارٹی جھنڈا لگانا بھی ممنوع قرار دے دیا گیا
ہے۔ کار ریلی بھی نہیں نکالی جا سکے گی۔ پولنگ اسٹیشن کی حدود سے چار سوگز
کے اندر پولنگ کیمپ لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ الیکشن کمیشن ان تمام
پابندیوں اور ضابطہ اخلاق پر ویڈیو کیمروں سے لیس ٹیموں کے ذریعے مانیٹرنگ
کرے گا۔ کوئی شخص یا سیاسی پارٹی دو سے تین فٹ کے پوسٹرز، تین سے پانچ فٹ
کے ہوڈنگز، تین سے آٹھ فٹ بینرز، چھ سے نو انچ کے ہینڈبل اور چھوٹی کتاب سے
زائد چسپاں نہیں کرسکتے۔ کوئی بھی شخص یا جماعت تحریری اجازت، فیس کی
ادائیگی یا متعلقہ مقامی حکومت یا حکام کو ادائیگی کے بغیر سرکاری جگہ یا
سرکاری املاک پر پارٹی کے جھنڈے نہیں لہرائے جا سکیں گے۔ انتخابی اجلاسوں
کے علاوہ انتخابی مہم کیلئے لاؤڈ سپیکر استعمال نہیں ہوگا۔ کوئی سیاسی
جماعت، امیدوار یا حامیوں کو پرچیوں جن پر نام ، گھرانہ، سیریل نمبر کی
تفصیلات درج ہوں تقسیم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ نہ وہ اپنے خاندان کے
علاوہ کسی کو پولنگ اسٹیشن سے لانے لے جانے کیلئے گاڑی استعمال کر سکیں گے۔
ان احکامات کی خلاف ورزی پر آئین کی دفعہ 78کے تحت قید کی سزا بھگتنا ہوگی
جو تین سال پانچ ہزار روپے جرمانہ یا دونوں ہوسکتی ہیں۔ سرکاری عہدیدار
اپنی سرکاری حیثیت میں انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں گے
تو ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔الیکشن کمیشن نے سیاسی
جماعتوں اوررہنماؤں کے اخراجات کی مانیڑنگ کیلئے تمام ٹی وی چینلز
اوراخبارات سے سترہ مارچ کے بعد نشر ،شائع ہونے والے اشتہارات کا مکمل
ریکارڈ اور ادائیگیوں کی تفصیلات طلب کر لیں۔ تشہیری مہم میں الیکشن کمیشن
کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف آپریشن کیا جارہا ہے۔
دوبارہ خلاف ورزی پر امیدوار الیکشن سے باہر ہوگا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے
یہ ضابطہ اخلاق اور ہدایات وقتاً فوقتاً جاری کی جاتی رہی ہیں۔ ان ہدایات
اور ضابطہ اخلاق پر عمل ہو جائے تو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے میں
بہت حد تک مدد مل جائے گی۔ امیدواروں، سیاسی جماعتوں اور ان کے حامیوں کو
سرکاری املاک ، سرکاری عمارات اور سرکاری جگہوں پر اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں
اور امیدواروں کے جھنڈے بینرز، پوسٹرز اور ہوڈنگ بوڈز لگانے کی کسی بھی
صورت میں اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہر حلقہ میں مختلف دنوں میں چار ووٹرز
کانفرنسز کرائی جائیں جس کا اہتمام ضلعی انتظامیہ اور مقامی الیکشن کمیشن
کرے ۔ اس میں حلقہ میں الیکشن میں حصہ لینے والے تمام امیدوار شرکت کریں
اور ہر امیدوار اپنے مخصوص وقت میں اسم حلقہ کے ووٹرز کو بتائیں کہ وہ
منتخب ہوجانے کی صورت میں حلقہ کی تعمیر وترقی، تعلیم ، صحت، روزگار، زراعت،
صنعت اور دیگر شعبوں کیلئے کیا کیا کام کریں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی طرف
سے منشور جاری کیا جاتا ہے تاہم یہ مجموعی ملکی صورتحال پر ہوتا ہے۔ ان
کانفرنسز کی میڈیا کوریج کے ساتھ ساتھ اس کی ریکارڈنگ بھی محفوظ رکھی جائے۔
اس میں کم سے کم بیس ہزار ووٹرز موجود ہو۔ امیدواروں کیلئے ایک سے زیادہ
حلقوں پر بھی انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ہونی چاہیے۔ کیونکہ ایک سے
زیادہ حلقوں سے منتخب ہونے کی صورت میں انہیں ایک نشست چھوڑنا ہوتی ہے۔ جس
سے ضمنی الیکشن پر قوم کا سرمایہ ضائع ہوتا ہے۔ اور امیدوار جس حلقہ سے
انتخابات میں حصہ لے رہا ہو اس کا شناختی کارڈ اسی حلقہ کا ہو اور ووٹ بھی
اسی حلقہ میں درج ہو۔ اس سے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو الیکشن میں حصہ
لینے کا موقع مل سکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ
اداروں کا قیمتی وقت بھی بچایا جا سکے گا۔ جس حلقہ میں ٹرن آؤٹ ساٹھ فیصد
سے کم ہو تو اس حلقہ سے تمام امیداروں کو آئندہ پانچ سال کیلئے نااہل قرار
دیا جائے کہ وہ عوامی نمائندگی کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ ویسے بھی اس الیکشن
میں پہلے کی نسبت زیادہ امیدار حصہ لے رہے ہیں۔ رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی
تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔اب جو امیدوار بھی جس حلقہ سے بھی منتخب
ہوگا اگر چہ وہ ڈالے گئے ووٹوں میں سے سب سے زیادہ ووٹ لے کر منتخب ہوا
ہوگا تاہم حقیقت میں وہ اکثریت کا نہیں اقلیت کا نمائندہ کہلانے کا حق دار
ہوگا۔ یقین نہ آئے تو اس کے حاصل کردہ ووٹ بھی گن لیں اور جو اس کے مخالف
امیدواروں نے لیے ہیں ان سب کو ملاکر شمار کرلیں تو جیتے ہوئے ممبر اسمبلی
کے ووٹ کم ہو جائیں گے۔ یوں وہ اکثریت کا انہیں اقلیت کا نمائندہ کہلانے کا
حق دار ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپر میں خالی خانہ شامل کرنے کا فیصلہ
کیا ہے۔ جو ووٹر اپنے حلقہ کے امیدواروں میں سے کسی کو بھی ووٹ نہیں دینا
چاہے گا وہ اس خالی خانہ میں مہر لگائے گا۔ جس حلقہ میں سب سے زیادہ ووٹ
خالی خانہ کو ملے اس میں انتخابات پھر کرائے جائیں گے۔ سیاستدانوں کی طرف
سے اس خانہ کی مخالفت کی جارہی ہے۔ کسی کو اس میں جمہوریت کے خلاف سازش نظر
آتی ہے تو کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ جس نے ووٹ نہیں دینا وہ گھر سے ہی کیوں
آئے گا۔ شیخ الاسلام طاہرالقادری کا مطالبہ تھا کہ بیلٹ پیپر میں خالی خانہ
بھی ہو نا چاہیے ۔ جو اب شامل کیا جارہا ہے۔ انہوں نے پولنگ کے دن دھرنے
دینے کا اعلان کر رکھا ہے ۔اس خانہ کی شمولیت کے بعد ان کو دھرنے دینے کا
پروگرام ختم کردینا چاہیے۔ اب تو ان ووٹرز کیلئے بھی ووٹ دینے کا آپشن
موجود ہے جو کسی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے۔ شیخ الاسلام اپنے کارکنوں کوپولنگ
کے دن اب پولنگ اسٹیشن جانے کا حکم دے دیں۔ ان کے کارکن چاہیں تو کسی نشان
پر مہر لگائیں اور چاہیں تو خالی خانہ پر ۔ اب ان کے کارکن خالی خانہ پر
مہر لگا کر سب کو مسترد کرنے کا مکمل اختیاررکھتے ہیں۔ اس لیے اب اس الیکشن
کو دھرنے دے کر نہیں بیلٹ پیپر پر مہر لگا کر بھی مسترد کیا جاسکتا ہے۔ |