صرف شاعروں اور ادیبوں ہی نے نہیں
بلکہ ہر دردمند شخص نے غریب پاکستانی بھائیوں کی اس محرومی کو محسوس کیا
ہے۔احمدندیم قاسمی سے لے کر حبیب جالب تک اور فیض احمد فیض سے احمد فراز تک
پاکستانی عوام کی حالت ِزار پر نوحہ کناں رہے ہیں۔ لیکن پاکستانی
بیوروکریسی کو کبھی عوام کا خیال آیا اورنہ فوجی جنرلزنے کبھی عوام کے بارے
میں سوچنے کی زحمت کی۔ہمارے رہنما عوام کے ہمدرد تھے اور سادگی سے زندگی
گذارتے تھے۔ انہوں نے کبھی جاتی عمرا محل بنایا تھا اور نہ بلاول پیلیس
تعمیر کیا تھا۔ جن پر اربوں روپیئے جھونکے گئے ہیں اِس عالم میں جب عوام
نان ِ شبینہ سے محروم ہیں ‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوںکے رہنما اپنی
مراعات پر اربوں روپیئے اُڑا رہے ہیں۔ان کی بھاری سیکوریٹی اور گراں لائف
اسٹائل عوام کی محرومی اور حسرت میں اضافہ کررہی ہے۔ان کا پانی تک باہر سے
آتاہے۔ کپڑے فرانس سے سل کر آتے ہیںاور امریکہ اور برطانیہ ان کے لیے گھر
آنگن ہے۔ جب دل چاہا چکر لگالیا۔ پھر بھی یہ ظالم باربار عوام سے ووٹ
مانگنے آجاتے ہیں۔لوگ سوچتے ہیں کہ بارہ بارہ گھنٹے کام کرکے انہیںاتنا بھی
معاوضہ نہیں ملتا کہ دو وقت پیٹ بھر کرکھاسکیں۔
ان دمکتے ہوئے شہروں کی فراواں مخلوق
کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جیاکرتی ہے؟
یہ حسین کھیت پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا
کس لیے ان میںفقط بھوک اُگا کرتی ہے؟
دراصل دنیاپرایک عالمی شیطانی حکومت مسلط ہے۔ جس کا معاشی نظام امیروں کو
امیر تر اور غریبوں کو غریب تر بناتاہے۔ضروریاتِ زندگی گراں سے گراں تر
بنائی جارہی ہیںاور عیش وعشرت اور نمود ونمائش کی اشیاءرائج کی جارہی ہیں۔
پچاس سال سے دیکھ رہے ہیں کہ شادی بیاہ کی تقریبات بھی بڑھ رہی ہیں اور ان
پر کیے جانے والے اسراف میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ہندوﺅں کے پاس کوئی لائحہ
حیات نہیں ہے۔ اس لیے ان کی شادی بیاہ کی رسومات گلیمرائز ہورہی ہیں اور
خرچ ہے کہ بڑھتاجا رہا ہے۔لیکن مسلمانوں کے پاس تو مکمل ضابطہ ئِ حیات
موجود ہے ۔پھر وہ کیوں نکاح کو سادہ اور آسان نہیں بناتے؟پہلے متمول
خاندانوں میں بھی شادی پر اتنے اخراجات نہیں ہوتے تھے جتنے اخراجات آج کل
عام خاندانوں میں کیے جاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس نمود ونمائش کے لیے قرض
لیا جاتا ہے جسے ادا کرتے کرتے لوگوں کی زندگی تمام ہوجاتی ہے۔آج ہی طارق
جمیل کی کتاب سے ایک اقتباس دیکھا جس میںایک شخص کے ڈاڑھی رکھنے کوتبلیغی
جماعت کی کرامت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ نہ معاملات ‘ نہ خیر خواہی نہ
سادگی اور نہ اخلاص فقط ڈاڑھی یہ ہے تبلیغی اسلام۔
پہلے ایک عام محنت کش ‘ کلرک اور دکاندار بھی کسی نہ کسی طرح رہائش بنالیا
کرتاتھا۔ اب وہ اس قدر مہنگی ہوگئی ہیں کہ ایک کامیاب پروفیشنل کے لیے بھی
ایک فلیٹ کاحصول مشکل ہوگیا ہے۔نہ اسلامی دانشور نہ میڈیا ہماری زندگی کے
حقیقی مسائل پر توجہ دینے کے لیے نہ آمادہ ہیںاور نہ وہ اس کے اہل ہیں۔اگر
قران کریم ہماری رہنمائی کے لیے نہیںآیا تو کیا اسے اللہ تعالیٰ نے جُزدان
میں سجاکر اگر بتی کی دھونی دینے کے لیے نازل کیاہے۔ ہم قران میںغور کیوں
نہیںکرتے تاکہ عبدالدنیا (دنیا کے بندے) ہمارا استحصال نہ کرسکیں؟ہم اپنے
بچوں کا تعلیمی نصاب کیوں نہیں بناسکتے؟ ہم اپنی نئی نسل کو میڈیا کی فحاشی
‘ بے راہ روی اور بے حیائی سے کیوںمحفوظ نہیںکرسکتے۔ آج اسلامی غیرت کے لیے
جان دینے والے کتنے ہیں لیکن خاندانی شان کے لیے مرمٹنے والے بے شمار لوگ
مل جاتے ہیں۔ یہ کس کا قصور ہے؟ محمد جاوید اقبال |