تحریر: محمد بشیر خان
پاکستان اس وقت انتہائی اہم دور سے گزر رہا ہے۔ نام نہاد جمہوری اور عوامی
حکومت اپنی مدت پوری کرچکی ہے اور اب ملک کی باگیں نگران حکومت کے پاس ہیں۔
سابق حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ ہی مدت کو پورا کرنا تھا اس کے علاوہ ان
کی کوئی کامیابی نہیں۔ اس مدت کے دوران تو عوام کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔
گزشتہ حکومت کے جعلی ڈگری ہولڈرز کابینہ نے ملکی تاریخ کی وہ لوٹ کھسوٹ کی
کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور نہ آئندہ ملے گی۔ ایسے ایسے لوگوں پر وزارت کا
تاج سجا جس کی ”شہرت “ اور ”نیک نامی“ کی اصل حقیقت سب کو معلوم ہے۔ اب
جبکہ نگران حکومت معاملات چلا رہی ہے اور انتخابات میں بھی صرف پانچ ہفتے
باقی ہیں میں کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں شاید یہ اس مظلوم قوم کی
بہتری کا ذریعہ بن جائے۔
پہلی بات کہ انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی میں کم از کم تعلیمی قابلیت کی
شرط ہونی چاہئے تاکہ پڑھی لکھی قیادت قوم کو میسر آسکے اور سیاست دان بھی
اپنے بچوں کی تعلیم پر توجہ دے سکیں۔ جس طرح 2008ءمیں ڈگری کی شرط نے بہت
سے پردہ نشینوں کی اصل حقیقت کو بے نقاب کیا تھا اور وہ سیاست دان جو تعلیم
بارے بے توجہی کا شکارتھے اور اسے محض نوکری لینے کا ذریعہ سمجھتے تھے،
انہیں یا ان کی نسلوں کو بھی اس جانب توجہ دینا پڑیعام قائدے کے مطابق
بھرتی سے پہلے ایک قاصد نائب قاصد کے لئے بھی کچھ نہ کچھ تعلیمی قابلیت
ضروری ہوتی ہے۔ مگر ان لاءمیکرز اور پالیسی میکرز کا تعلیمی قابلیت سے
مستثنیٰ ہونا عقل سے بالا تر ہے۔ذرا تصور کیجئے کہ جس ادارے کا سارا ماتحت
عملہ تو تعلیم یافتہ ہو اوراس کا سربراہ تعلیم سے بے بہرہ ہو، اس کا تو
اللہ ہی حافظ ہوگا۔ دوم یہ کہ قومی تشخص کو ابھارنے کے لئے قوم کے محسنوں
کی تصویروں جلسوں میں آویزاں کرانے کے ساتھ ساتھ قومی پرچم بھی لہرانا
چاہئے جسے لازمی قرار دیاجائے۔ تیسرا نقطہ بھی اسی سلسلے میں ہے کہ تمام
سرکاری اداروں، املاک اور شاہروں کو ایسی قومی شخصیات سے منسوب کیا جائے
جنہوں نے خالصتاََ ملکی وقار اور آزادی کے لئے بے لوث خدمات انجام دی ہوں۔
ایسے معیارات سے ان قائدین کو بھی خراج تحسین پیش کیا جاسکے گا تو دوسری
جانب کرپٹ سیاستدانوں کے نام سے ان اداروں کا تشخص بچانا ممکن ہوسکے گا۔
اسی طرح تمام سرکاری دفاتر میں قائد اعظم کی تصویر اور قومی پرچم کو لہرانے
کو لازمی قراردیا جائے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے
ممبران کا باقاعدہ انٹرویو کرے جس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ ،
قوانین اور دیگر اہم باتوں کے بارے میں ان سے سوالات اور ان کا نقطہ نظر
پوچھا جائے۔
اسی طرح قومی اداروں میں قوانین اور ضابطوں کا خیال رکھا جائے۔ اپنی مرضی
کے افسروں کی تعیناتی، ان کی مدت ملازمت میں کمی بیشی اور کنٹرکٹ پر
بھرتیوں کی روش ختم ہونی چاہئے۔ نوجوانوں اور قابل امیدواروں جو اس وقت
بیروزگاری کی زندگی گزاررہے ہیں انہیں بھی ملک کی خدمت کا موقع ملنا چاہئے۔
آخر یہ سیاستدان اور بیوروکریٹس اپنی نوجوان نسل پر اتنا بھروسہ کیوں نہیں
کرتے۔ نوجوان ہمارا اثاثہ اور مستقبل ہیں اور آج کے نوجوان ویسے بھی تعلیم
یافتہ ہیں اگر انہیں موقع ملے تو اس ملک کی تقدیر سنور سکتی ہے۔
ایک اہم بات پاکستان میں موجود غیر قانونی افراد کی ہے۔ یہ غیر ملکی اور
غیرقانونی نقل مکانی کرنے والے ہمارے پڑوسی ممالک سے سرحد پار کر کے آئے
ہوئے ہیں۔ان کا بلاروک ٹوک کسی بھی شہرچلے جانا اور کہیں پر بھی بس جانا
ہماری سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ اسلام آباد کے قرب و جوار (سبزی منڈی)
میں ان غیرقانونی تارکین وطن کی سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دوسری
مثال کراچی کے موجودہ حالات ہیں۔ان لوگوں کی موجودگی سے امن امان کی
صورتحال مخدوش ہوگئی ہے۔ ان کی اکثریت اب پوش علاقوں میں ٹھاٹھ باٹھ سے رہ
رہی ہے اوریہ لوگ اعلیٰ درجے کی گاڑیوں میں گھومتے نظر آتے ہیں۔ان لوگوں نے
اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں قیمتی جائیدادیں بھی بنا رکھی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے لوگوں کو کو قانونی شکنجے میں لایاجائے اور
جائز حقدار مہاجرین کو سرحدی علاقوں میں کیمپوں تک محدود کیاجائے تاکہ ملک
میں لاءاینڈ آرڈر قائم ہوسکے۔جتنے بھی موجودہ اور سابقہ ہوئے جنہیں دیر
ابھی نہیں ہوئی خاص کر بلوچستان ، سارے ممبر سارے ہی وزیر مشیروں کو اور
پارسائی کے پیکر ، سینٹرز ، سپیکرز صاحبان جنہوں نے کروڑوں کے ترقیاتی فنڈز
حاصل کئے۔ ان سب پر ملک سے باہر جانے کی پابندی لگا کر ان سے پائی پائی کا
حساب لیا جائے اور جوڈیشنل کمیشن بنا کر ان کے تمام ترقیاتی منصوبوں کو چیک
کرایاجائے۔ اس اتھارٹی جس نے پے در پے فنڈز جاری کئے بغیر چھان بین کے ان
کو شکنجے میں کسا جائے۔
ایک اور اہم بات تجاوزات سے متعلق ہے۔ یہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کی
جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہماری شاہراہوں، سڑکوں، گلیوں، محلوں میں
ناجائز تجاوزات کی بھرمار سے بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے اس جانب نگران
حکومت کی توجہ ایک بڑا مستحسن اقدام ہوگا۔
محمدبشیر خان، ذیشان کالونی ڈھوک چوہدریاں راولپنڈی کینٹ |