پشاور کے علاقے ڈبگری (شاہ
قبول)کی ایک نہایت معتبر ہستی حاجی رشید نے مجھے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ"
میں سوتے ہوئے بچے کو پیار کرنے کا قائل نہیں"۔ان کی بات میں وزن تھاکہ آپ
جتنی بھی محنت کرلیں،جتنی بھی محبت و خدمت کرلیں لیکن جب تک فریق مخالف کو
آپ کے جذبات سے آگاہی نہ ہو ، اُس کا واضح مطلب سوتے ہوئے بچے کو پیار کرنے
کے مترادف ہوا ، یعنی جب بچہ نیند سے بیدار ہو تو اُیسے علم ہی نہ ہو کہ
اُس پر واری کون گیا تھا ؟۔حاجی رشید ایک جہاندیدہ ،سیاسی و سماجی معروف ہر
دلعزیز شخصیت ہیں ، بلا کی بذلہ سنجی اور شفقت ان میں پائی جاتی ہے۔مہمان
نوازی اور اپنے پرائیوں سے محبت کے ایسے حسین امتزاج کو پشاور جیسے شہر میں
دیکھ کر حیران ہوجاتا ہوں کہ کیا واقعی اس پر آشوب دور میں ، اپنی قوم سے
محبت سے سرشار عمر رفتہ پر رواں لیکن ، عزم جواں کا یہ شاہکار آج بھی اپنے
ہاتھوں و پیروں میں ایسی قوت رکھتا ہے کہ نوجوان ان کے آگے پانی
بھریں،علاقے اور شہر پشاور کی اس پر اثرشخصیت نے پاکستانی سیاست سے تنگ آکر
خود کو حجرے اور مخصوص حلقے تک محدود کرلیا ہے۔اُن کے حجرے میں کون سے ایسی
سیاسی شخصیت تھی جو براجمان نہ ہوتی رہی ہو ، لیکن زوالِ زمانہ کے ساتھ ،
انھوں نے اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے اصولوں پر قائم رہنے کے عزم کو مقدم
رہنے کو ترجیح دی۔دور آمریت میں جیل کی سلاخوں میں متعدد بار جانے والا اُس
وقت کا نوجوان ، موجودہ سیاسی انصرام و انتظام سے اس قدر دل برداشتہ اور
مایوس ہوا کہ اپنے گھر سے ، سر پر باندھنے والے سرخ کفن کو اتار کر، گھر کے
کونے کدرے میں رکھے صندوق میں رکھنے پر مجبور ہوگیا۔سیاسی بارش میں گرنے
والے قطرے ، کبھی کسی صحن ، تو کبھی کسی آنگن میں جا گررہے ہیں ، موسمی
پرندوں نے پاکستانی عوام سے سلیوٹ لینے کےلئے خود ساختہ جلا وطنی کو ترک
کرکے ، میدان انتخاب میں آزمانے کا تہہ کرلیا ہے ، عوام کبھی اپنا اظہار ،
غصے ، تمسخر تو کبھی جوتے سے کر رہے ہیں ، لیکن اس بات پر تقریبا تمام
تجزیہ نگار متفق ہیں کہ اس بار خاموش اکثریت کو باہر نکل کر اپنا حق رائے
دہی استعمال کرنا ہوگا ، مملکت میں روایتی سیاست میں تیس فیصد سے زیادہ
عوام ہی ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں جبکہ ستر فیصد عوام گھروں میں بیٹھ کر
انتخابی نتائج پر تبصرہ کرنے کو ہی ملک کی خدمت سمجھ لیتے ہیں۔الیکشن کمیشن
کی جانب سے " سی ایس ایس" امتحانات پرمبنی صخیم صفحات پر مشتمل کاغذات نا
مزدگی ، پہلے ہی درد ِ سر تھے کہ ریٹرنگ آفیسرز نے زبانی امتحانات کاانوکھا
سلسلہ شروع کردیا ، اگر زبانی امتحانات ہی لینا تھے تو پھر نو صفحات پر
مشتمل طویل نامزدگی فارم کی ضرورت کیا تھی ، اسکروٹنی کےلئے فارم میں دئےے
گئے کوائف ،دستاویزات اور بیان حلفی ہی کافی تھا ، لیکن اس کے باوجود میڈیا
کے کیمروں کے سامنے ، متوسط امیدواران سے بے ہنگم سوالات نے پوری دنیا میں
پاکستانی انتخابی نظام کا تمسخر اڑایا ہے۔ابھی تک کسی ریٹرنگ آفیسر کی جرات
نہیں ہوئی کہ نواز شریف ے دعائے قنوت ، یا عمران خان کونماز جنازہ پڑھنے کا
حکم دے ، کسی ریٹرنگ آفیسر کی جرات نہیں ہوئی کہ وہ کسی وڈیرے ، جاگیر دار
، صنعتکار یا معروف سیاست دان سے تیسرا کلمہ پڑھنے کو کہے ۔بلکہ ان کےلئے
تو اٹھ کر تعظیم بجا لاتے ہوئے ، مسکرا مسکرا کر کیمروں کے سامنے تصویریں
اس طرح بنواتے ہیں جیسے یہ سر خرو ہوگئے ، ریٹرنگ آفیسر زمکمل طور پر
جانبدارانہ طرز عمل اختیار رکھے ہوئے ہیں ،جس نے ان کے عمل نے شکوک پیدا
کردئےے ہیں ، پاکستان میں فرشتوں کی تلاش جاری ہے اور کمال حیرت یہ ہے کہ
ضیاالحق کو بُرا بھلا بولنے والے ، اُسی باقیات پر ہی منتخب ہو رہے ہیں ،
جیسے یوں کہا جاسکتا ہے کہ جنرل ضیا الحق مرحوم ، جس قسم کے نمائندے
ایوانوں میں لانا چاہتے تھے ، آج تمام جماعتیں ، اُس عمل سے کسیانی بلی کی
طرح کھمبا نوچتے ہوئے ، خود کو منتخب کرا رہی ہیں۔الیکن کمیشن کا کردار
متنازعہ ہوچکا ہے ، حکومت سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار
علی بھٹو مرحوم کی برسی کے موقع پر سرکاری تعطیل نے واضح کردیا ہے کہ سندھ
نگراں حکومت کارجحان ، کس جانب ہے ؟۔مرکزی الیکشن کمیشن کی جانب سے انوکھے
احکامات کے تحت بیلٹ پیپر میں خالی خانے کے اندراج میں ووٹر کی جانب سے
استعمال کے حق نے اب پورے انتخابی عمل کو ڈنوال ڈول کر کے ان خدشات کی
تصدیق کردی ہے کہ جو قوتیں ، چور دروازے سے اقتدار حاصل نہیں کرسکیں ، اور
طاہر القادری جیسے لوگوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ،وہ اب جنرل ایوب خان
کی طرح سیاست دانوں میں فرشتہ تلاش کرنے کےلئے اور سیاسی جماعتوں سے اعتماد
ختم کرنے کےلئے خطرناک اقدام کرنے جارہی ہے اور فرشتوں کو منتخب کرانے والے
، "فرشتوں" کی جانب سے کابینہ کی منظوری کے بغیر بیلٹ پیپر میں اگر فرشتوں
نے ووٹ ڈال دیا تو یقینی طور پر ، مملکت میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں
کا مستقبل فرشتوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوجائے گا۔بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ
الیکشن کمیشن خفیہ بیرونی ہدایات پر کام کر رہا ہے ۔الیکشن کی براہ راست
نگرانی اگر کسی ادارے نے کرنی تھی تو پھریہ الیکشن کرانے کی کیا ضرورت
ہے۔کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال ، بجلی اور ٹیلی فون کی ادائیگی تک محدود
ہوگئی ہے ۔ عدلیہ نے یکایک جعلی ڈگری والوں کےخلاف ایکشن لیکر انھیں سزائیں
دینا کا سلسلہ شروع کردیا ہے ،اصغر خان کیس فیصلے پر عملدرآمد پر کوئی عمل
کرلیا جاتا تو یقینی طور پر پاکستان میں ایسی نمائندوں سے نجات حاصل کرنے
میں کسی کو تکلیف نہیں ہوتی ، جو خفیہ فنڈز کے ذریعے منتخب ہوئے اور ان پر
الزامات بھی ثابت ہوئے ، بلکہ بعض نے تو میڈیا میں اقرار بھی کیا کہ انھوں
نے مخالف فریق کو ہرانے کےلئے رقم وصول کی۔نادہندہ افراد کےخلاف مہم میں
اربوں روپے کی اطلاعات میڈیا کے سامنے تو لائی جا رہی ہیں۔ لیکن جنھوں نے
کھربوں روپے بنکوں سے سیاسی بنیادوں پر معاف کراکر ، ملک و قوم کو نقصان
پہنچایا ، اس کا کوئی ذکر تک نہیں اور وہ سب لوگ با آسانی کلیئر ہوتے جا
رہے ہیں ۔نہ جانے کس قسم کی اسکروٹنی ہے ؟۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے من پسند
افراد کو لانے کےلئے پری پول ریکنگ شروع ہوچکی ہے ۔ کیونکہ اس بات کو توقعت
مل رہی ہے کہ جب جمشید دستی کو جعلی ڈگری کیس میں اپنی نشست سے استعفی دینا
پڑا اور دوبارہ جب ضمنی انتخابات میں حصہ لیکر کامیاب ہوئے تو اس الیکشن
کمیشن نے ان کی کامیابی کا نوٹیکفیشن کیوں جاری کیا ؟ جعلی ڈگری والوں سے
ہمیں کوئی ہمدردی نہیں ہے ، لیکن کیا اس کی مکمل ذمے داری الیکشن کمیشن پر
عائد نہیں ہوتی تھی کہ وہ گریجویٹ امیدواران کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کرتا
، یہ قانون تو اُس وقت بھی موجود تھا ، لیکن الیکشن کمیشن کی نا اہلی کی
وجہ سے ایسے افراد کو اسمبلیوں میں پہنچنے کا موقع ملا ، بھلا کوئی عدلیہ ،
ان الیکشن کمیشن کے اراکان کے خلاف ایکشن لینے کی جرات کرےگا ؟۔جن کی وجہ
سے جعلی ڈگری والے قومی خزانے سے مراعات حاصل کرتے رہے۔جرم کرنے اور اس کا
ساتھ دینے ولا دونوں مجرم ہوتے ہیں ۔الیکشن کمیشن فرشتوںکو تلاش کر رہا ہے
، فرشتے تو ہر انتخابی عمل میں ہیں کیونکہ وہ کبھی کسی کو نظر نہیں آئے۔اصل
فرشتہ تو حاجی رشید جیسے زیرک سیاست دان ہیں ، جو فکس الیکشن سے باہر پہلے
ہی پاکستانی سیاست کی بھیڑ چال کو سمجھ کر خود کو باسٹھ ترسٹھ کا اہل ثابت
کردیا۔واقعی سوتے بچے کو پیار نہیں کرنا چاہیے ۔تسی سمجھ گئے او ناں !! |