سیاست کے ٹھیکیدار

موجودہ دور میں اسلام کے خلاف ہر دن اور ہر سمت نئے نئے فتنے اُٹھ رہے ہیں۔ اسلام اور اسلامی تعلیمات کا مذاق اُڑانا معمول بن گیا ہے۔ بات صرف مذاق اُڑانے تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ جس کو دیکھو اپنے دلائل کو صحیح ثابت کرنے کے لئے فتوی بھی جیب میں لئے پھرتا ہے۔ یوں خود تو گمراہ ہوتے ہی ہیں، دوسروں کو بھی گُمراہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی ان عناصر کے خلاف بولتا ہے تو اُسے انتہا پسندی یا اسلام کے ٹھیکیدار کی گالی دی جاتی ہے۔ اس کار خیر میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جن کو سرے سے مذہب کے بارے میں نہ کچھ معلومات ہوتی ہیں، نہ اُن کی زندگی میں مذہب کا کوئی دخل ہوتا ہے۔

موجودہ دور سپیشلایئزیشن کا ہے ۔ فزکس کا جاننے والا ، کیمسٹری نہیں جانتا، اور کیمسٹری کا جاننے والا فزکس نہیں جانتا، میتھس جاننے والا لٹریچر سے واقف نہیں ہوتا جبکہ لٹریچرکا ماسٹر ،میتھس نہیں جانتا ڈاکٹری جاننے والا، انجینئرنگ سے واقف نہیں تو انجینئرنگ سے واقف شخص ڈاکٹری کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب جو کیمسٹری کا سپیشلسٹ ہے۔ اُس کو کبھی بھی گورنمنٹ فزکس کے لیکچرر کے طور پر منتخب نہیں کرے گی اُسے کیمسٹری کی لیکچرر شپ ہی سونپی جائے گی۔ اسی طرح میتھس جاننے والے کو لٹریچر کی لیکچرر شپ نہیں سونپی جائے گی اور نہ ہی لٹریچر کے ماسٹر کو میتھس کے لیکچرر کے طو ر پر منتخب کیا جائے گا۔ یہی حال دوسرے سبجکٹ کا ہوگا۔ اب اگر کبھی کوئی اس کے بر عکس کرے گا تو نتیجہ لازمی طلباء کی تباہی ہوگا۔ عام زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جو بھی سبجکٹ سپیشلسٹ ہوتا ہے ہم اُسی سے پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ اُس کی عزت بھی کر تے ہیں اور پیسہ بھی خرچ کرتے ہیں۔ کبھی ہم نے کسی کو کیمسٹری کا ٹھیکیدار، فزکس کا ٹھیکیدار ، میتھس کا ٹھیکیدار ، لٹریچر کا ٹھیکیدار، ڈاکٹری کا ٹھیکیدار، انجینئرنگ کا ٹھیکیدار کہتے نہیں سُنا۔ اگر دنیاوی علوم کے بارے میں ہمارا یہ رویہ ہے تو علماء جن کی ذمہ داری قرآن و سنت کی تشریح ہے تاکہ مسلمان اسے سمجھ کر اُس صراط مستقیم پر گامزن ہوں جس پر چل کر وہ دونوں جہانوں کی کامیابی حاصل کرسکیں ۔۔اُن کو انتہا پسند یا اسلام کے ٹھیکیدار کہنا اسلامی تعلیمات کا مذاق اُ ڑانے کے مترادف ہے کہ نہیں؟

دوسری بات جو میں کہنا چاہوں گا وہ یہ کہ جب بھی ہمیں کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے یا کوئی عزیز،رشتے دار بیمار ہوتا ہے ۔تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔ اور اگر ایک ڈاکٹر پسند نہ ہو تو دوسرے کے پاس لے جاتے ہیں۔ غرض اچھا سے اچھا ڈاکٹر ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ مریض کو شفا مل جائے۔۔ لیکن کبھی بھی یہ نہیں کہتے کہ ڈاکٹر کے پاس تو لے گئے تھے اب شفا نہیں ملتی تو دوسرے ڈاکٹر کو دکھانا فضول ہے۔ یہی حال دنیاوی علوم کے حصول کا ہے ہم بہتر سے بہتر اُستاد کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن کبھی یہ کر کہ سارے اُستاد صحیح پڑھاتے نہیں اس لئے پڑھنا ہی بے کار ہے۔

دنیاوی امور کے بارے میں اگر ہم اتنی احتیاط سے کام لیتے ہیں تو پھر علماء کے بارے میں ہمارا رویہ کیوں تعصبانہ ہے۔ علماء کرام بھی انسان ہیں۔مانتے ہیں کہ اُن سے بھی غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں لیکن کسی ایک کی غلطی کا بہانہ کر کے سب سے لا تعلق ہونا اور اسلامی تعلیمات کو پس پشت چھوڑ دینا بہت بڑی نا انصافی ہے۔

دراصل کچھ سیکولر عناصر اسلام اور عالم اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ میں مصروف ہیں۔ تاکہ امت مسلمہ کو اسلام کی تعلیمات سے متنفر کر کے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جا سکے۔ نوجوانوں کو اسلامی تعلیمات سے نا آشنا رکھ کر مغربی افکار و نظریات کی ترویج کی جائے تاکہ وہ برائے نام مسلمان تو رہیں لیکن اسلام کی روح سمجھنے سے قاصر ہوں۔ یہ سیکولر لو گ ایسا اسلام چاہتے ہیں۔ جس میں سود ، رشوت خوری، لوٹ مار، شراب ،زنا، سب جائز ہوں، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں مل کر ناچ ،گا سکیں۔ جہاں عورت برہنہ جسم کے ساتھ ہر شعبہء زندگی میں نظر آئے۔ تاکہ اُن کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور بینائی برقرار رہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو مذہب و سیاست کو الگ کرنے کی کوششوں میں مصروف ملیں گے۔ حالانکہ سرور انبیاء حضرت محمدّ نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریا ست کی بنیاد رکھ کر مذہب اور سیاست کو باہم کر دیا تھا۔ اور ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی جس کی آج تک کوئی مثال نہیں ملتی۔

آج صرف اور صرف سیاست اور کھوکھلے نعروں کے ٹھیکیدار لوٹ مار، فحاشی،عریانی،لادینیت کے جس نظام کو رائج کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کے عوام اس سے اچھی طر ح آگاہ ہیں۔
F-Rehman
About the Author: F-Rehman Read More Articles by F-Rehman: 8 Articles with 7408 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.