پاکستان کی سپریم کورٹ نے سابق
آمرپرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی درخواست کی ابتدائی سماعت میں
درخواست گزاروں کی جانب سے سابق آمر کو حراست میں لینے کی استدعا مسترد
کردی ہے۔منگل کوسابق صدر پرویزمشرف کے وکیل احمد رضا قصوری پیش ہوئے، جنہوں
کہا کہ میرے مﺅ کل کو عدالت پر اعتماد ہے، تاہم کچھ ججوں کے حوالے سے
تحفظات ہیں ،جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ بتائیں کس جج پر
تحفظات ہیں وہ بنچ سے علیحدہ ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کی پی سی او کیس میں
جنرل اشفاق پرویز کیانی کا نام بھی آیا تھا لیکن انہیں نوٹس کیوں جاری نہیں
کیا؟۔ جسٹس جواد نے کہا کہ درخواست میں جو فریق تھے انہیں نوٹس بھجوایا ہے۔
جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ اس کیس میں بہت سے لوگوں کے نام آئیں گے۔
جسٹس جواد نے جواب دیا کہ پنڈورا بکس کھلتا ہے تو کھلے ہمیں اس کی پروا
نہیں۔ ہم نے آئین اور قانون کو دیکھنا ہے۔ احمد رضا قصوری نے عدالت سے
استدعا کی کہ درخواستوں کا جواب دینے کے لیے ان کو وقت درکار ہے اور
انتخابات بھی قریب ہیں اس لیے سماعت کو بیس مئی تک ملتوی کیا جائے۔ عدالت
نے ان کی استدعا رد کرتے ہوئے سماعت کو پندرہ اپریل تک ملتوی کردیاہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جمعے کوپرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے
تحت غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواست ابتدائی سماعت کے لیے منظور کی تھی۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے سابق آمرپرویز مشرف کے خلاف ملکی آئین توڑنے
سے متعلق دائر پانچ درخواستوں کی سماعت کی۔ابتدائی طور پر تین رکنی بنچ کا
اعلان کیا گیا تھا جس کی سربراہی چیف جسٹس کو کرنی تھی، تاہم اتوار کو وہ
اس سے دستبردار ہوگئے۔یہ بھی یاد رہے کہ پرویز مشرف کی تین نومبر کے اقدمات
کے تحت عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف ا ±ٹھانے والے اعلیٰ عدالتوں کے
ججز کو توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کیے گئے تھے جبکہ ایمرجنسی کے نفاذ میں
کورکمانڈرز کو نوٹس جاری کرنے کا معاملہ ابھی بھی چیف جسٹس افتخار محمد
چودھری کے پاس ہے۔خلجی جسٹس عارف حسین نے کہا کہ حکومت ہی نے مقدمہ چلانا
ہے اور جس کے خلاف مقدمہ ہے اس نے دفاع کرنا ہے، عدالت پراسیکیوٹر کا کردار
ادا نہیں کر سکتی۔درخواست گزار مولوی اقبال حیدر نے کہا کہ عدالت
پراسیکیوٹر کا کردار ادا نہیں کر سکتی لیکن وفاق کو ہدایت دے سکتی ہے۔جسٹس
خلجی عارف حسین نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ءکے آئین میں آرٹیکل چھ
کا اطلاق 1956ءسے کردیا تھا جس کے تحت جو بھی آئین کو معطل کرے گا اس کے
خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلا جائے گا۔
لاہور ہائی کورٹ بار راولپنڈی بینچ کے صدر توفیق آصف سمیت پانچ افراد نے
سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کیں جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ 23 جنوری
2012ءکو سینیٹ میں متفقہ قرارداد منظور کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ
جنرل پرویزمشرف نے نہ صرف دو مرتبہ آئین توڑا بلکہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں
کی توہین کی، اس لیےپر مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی جائے۔اس
ضمن میں ابتدائی درخواست مولوی اقبال حیدر نے سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی
تھی جس پر عدالت نے پرویز مشرف کو ’غدار‘ قرار دیتے ہوئے درخواست گ ±زار کو
سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔سندھ ہائی کورٹ نے سابق فوجی صدر
کے خلاف فیصلہ سپریم کورٹ کے اکتیس جولائی سنہ دوہزار نو کے فیصلے کی روشنی
میں دیا جس میں عدالت عظمیٰ نے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے تین نومبر سنہ
دوہزار سات کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔یاد رہے کہ پرویز مشرف
سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو، سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اکبر ب ±گٹی،
لال مسجد میں کئی بے گناہ بچوں کے قتل اور اعلیٰ عدالتوں کے ججز کو حبس بے
جا میں رکھنے کے مقدمات میں اشتہاری ہیں اور ان دنوں سندھ ہائی کورٹ کی طرف
سے دی جانے والی حفاظتی ضمانت پر ہیں۔درخواست گزار احسن الدین شیخ نے کہا
کہ سپریم کورٹ 31 جولائی 2009ءکو اپنے فیصلے میں جنرل مشرف کو غاصب اور
غداری کا مرتب قرار دے چکی ہے، اب صرف اس کے خلاف عدالتی حکم کی روشنی میں
کارروائی ہونا باقی ہے۔پیر کو مقدمہ کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ اگر
غداری کے حوالے سے ملک کا آئین واضح ہے تو عدالت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ
وفاق نے ابھی تک کوئی اقدام کیوں نہیں اٹھایا۔درخواست گ ±زار مولوی اقبال
حیدر کے وکیل اے کے ڈوگر نے کہا کہ مشرف آئین توڑنے کے مقدمے میں ملزم نہیں
بلکہ مجرم ہیں، اس لیے عدالت وفاقی حکومت کو ہدایات جاری کرے کہ وہ پرویز
مشرف کو تحویل میں لے لے۔ تین نومبر سنہ دو ہزار سات کے اقدامات کے بارے
میں سپریم کورٹ کا اکتیس جولائی کا فیصلہ واضح تھا لیکن وفاقی حکومت نے اس
ضمن میں کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔
یاد رہے کہ دو روز قبل ہی سابق آرمی چیف پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں
ڈالنے کے احکامات وزارت داخلہ نے جاری کیے تھے۔جس کے بعد پرویز مشرف کا نام
ای سی ایل میں شامل کردیا گیا تھا۔ ایف آئی اے نے سرکلر تمام
ائیرپورٹس،بندرگاہوں اور دیگر بارڈر پوسٹوں کو بھجوا دیاتھا۔ سرکلر کے
مطابق پرویز مشرف اپنی سفری دستاویزات پر بیرون ملک سفر نہیں کرسکتے۔ لاہور
ہائیکورٹ بار پنڈی بنچ کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق
آئین سے غداری کی سزا موت یا عمر قید ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا یہ بات
جان لیں کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا ٹرائل ہونا ہے۔ آئین توڑنا ایک
ایسا عمل ہے جس پر سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ
وفاقی حکومت نے مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کی کارروائی کرنی تھی۔جسٹس خلجی
عارف حسین کا کہنا تھا کہ عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا آئین کو توڑا
گیا۔آخر وفاقی حکومت نے کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا؟جسٹس ایس خواجہ نے
ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ اگر مشرف بیرون ملک فرار ہوئے تو اس کی ذمہ داری
تمام اداروں پر ہوگی۔
معروف وکیل اعتزاز احسن نے سابق صدر مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کے سیاسی
مضمرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف گزشتہ کل کا اخبار ہے، جسے
کوئی نہیں پڑھتا، لیکن سپریم کورٹ نے اب ایکشن لیا ہے تو اب اس طرح ہی
ایکشن لینا چاہیے، جس طرح انہوں نے مستعدی کے ساتھ دو وزرائے اعظم کے خلاف
ایکشن لیا۔معروف تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا یہ بات اچھی ہوئی
ہے کہ چیف جسٹس افتخار چودھری بنچ سے دستبردار ہو گئے ،یہ مقدمہ اتنا اہم
ہے کہ اسے فل کورٹ کو سننا چاہیے۔ دستور توڑا جائے تو آرٹیکل 6 کا اطلاق ہو
جاتا ہے ، آرمی چیف جب ٹیک اوور کر لیتا ہے تو سارا حکم آرمی چیف کا چلتا
ہے ،ایوب خان نے جب دستور تناول فرمایا تو اس وقت دستور میں دستور توڑنے کی
سزا موجود نہیں تھی ،جنرل یحیی نے نیا دستور بنانے کے لیے الیکشن کر وائے
لیکن دستور کیا بنتا ،ملک ہی ٹوٹ گیا ،جنرل یحیٰ ٰخان کو سپریم کورٹ نے
غاصب قرار دیا تھا ، ضیاالحق نے بھی سیلوٹ کر کے رخصت کیا ،پرویز مشرف کا
مارشل لا دنیا کا پہلا مارشل لا ہے جو ایک جرنیل نے اپنی نوکری بچانے کے
لیے لگایا ،3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف پھنس گئے ،اب پرویز مشرف کو بھگتنا
پڑے گا ،سپریم کورٹ کو ہی کرنا ہے جو بھی کرنا ہے۔بعض علماءکرام کا کہنا
تھا کہ مشرف کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے ،آئین کو بارہاپامال کرنے
،سانحہ لال مسجد، اکبربگٹی اورعدلیہ کے قاتل کوقوم کسی صورت معاف نہیں کرے
گی۔ سیاسی جما عتیںپرویز مشرف کے خلاف صرف بیان بازی کرکے قوم کودھوکادیتی
رہیںلیکن اب ان تمام جماعتوں کوسانپ سونگھ گیاہے۔ |