پاکستان میں آج تک انتخابات کا
ایساحقیقی اور منصفانہ نظام قائم نہیں ہو سکا جو عوام کی آرزوﺅں اور
خواہشات کا نمائندہ ہو۔ وطن عزیز کے انتخابی عمل کو ان ہی قوتوں نے یرغمال
بنا رکھا ہے جنہوں نے ملک پر جبرواستبداد مسلط کیا ہوا ہے۔کسی بھی جمہوری
ملک میں شفاف انتخابی عمل کی بنیاد اس ملک کی درست انتخابی فہرستیں ہوا
کرتی ہیںلیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ابھی تک درست انتخابی فہرست قائم کرنے
کا کوئی نظام رائج نہیں ہو پایا ہے، اور اس وقت تک رائج ہوتا نظر بھی نہیں
آتا جب تک کہ ایک آزاد و خو د مختار الیکشن کمیشن موجود نہ ہو۔پاکستان کے
مقتدر طبقات نے انتخابی عمل کو سرمایہ داروں ، جاگیرداروںاور افسر شاہی کے
گٹھ جوڑ کا کھیل بنا کے رکھ دیا ہے ساتھ ہی انتخابات کے نظام کی نگرانی
کرنے والا ادارہ یعنی الیکشن کمیشن بھی اپنی زمہ داریاں بحسن و خوبی سر
انجام دینے سے یکسر قاصر رہا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے حصے میں جتنے بھی
سال آئے ، ان میں ہونے والے انتخابی عمل کے غیر جانبدار ، منصفانہ اور شفاف
ہونے کے حوالے سے ہمیشہ ہی شبہات اور اعتراضات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ
موجود ہے۔ ہمارے ملک کے اکثر انتخابی حلقے جاگیرداروں کی گرفت میں ہیں جہا
ں کسی طور آزاد سیاسی انتخابی عمل ممکن نہیں ہے،تقریبا 60سے70 فیصد نشستیں
جاگیرداروں کی مقبوضہ ہیں جہاں کوئی قومی مسئلہ یا کسی جماعت کا منشور یا
اس کی کارکردگی انتخابات کے نتائج پر کوئی اثر مرتب نہیں کرتی ۔الیکشن
کمیشن نے 2008ءکی انتخابی فہرستوں میں 3 کروڑ 71 لاکھ غیرمصدقہ رائے
دہندگان کے نام خارج کردیئے ہیں ، الیکشن کمیشن نے 2008ءکی8 کروڑ 10لاکھ
ووٹروں پر مشتمل انتخابی فہرستیںقومی شناختی کارڈ کے ریکارڈ سے تصدیق کے
لئے نادرا کے سپرد کی تھیں جس میں سے نادرا صرف 4کروڑ 40 لاکھ ووٹروں کی
تصدیق کرسکابعد ازاں الیکشن کمیشن نے تصدیق شدہ انتخابی فہرستوں کی تفصیلات
پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی جس سے معلوم ہوا کہ 50فیصد کے قریب رائے دہندگان
کے ناموں کی تصدیق ان کے قومی شناختی کارڈ کے ریکارڈ سے مماثلت نہیں رکھتی،
یوں 3کروڑ 71 لاکھ ووٹ جعلی قرار پائے۔انتخابی فہرستوں میں اتنے وسیع
پیمانے پر گورکھ دھندہ سابق حکمران جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور اقتدار
میں اس وقت دیکھنے میں آیاجب غیر حتمی انتخابی فہرستیں ڈسپلے مراکز پر
آویزاں کی گئیں تو ان کے خلاف تمام سیاسی جاعتوں نے شدید احتجاج اور تحفظات
کا اظہار کیاکیونکہ آبادی کے اندر اضافے کے مقابلے میں تقریبا پونے چارکروڑ
ووٹر کم درج ہوئے، نئے ووٹروں کے اندراج اور غلط اندراجات کی تصحیح کے لئے
جو مہلت دی گئی وہ انتہائی قلیل اور طریق کار انتہائی پیچیدہ و صبر آزما
تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے تو سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی
تھی اور کہا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن نے انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنے کے
لئے قابل اعتماد اقدامات نہ کئے تو وہ الیکشن کا بائیکاٹ کردیں گی۔جنرل
پرویز مشرف کی حکومت نے نئی انتخابی فہرستیں تیار کرنے کے لئے جو اقدامات
کئے وہ انتہائی غیر شفاف اور پراسرار تھے ۔ الیکشن کمیشن کو یوایس ایڈ کی
طرف سے اس پراجیکٹ کے لئے ایک ارب روپے فراہم کئے گئے اور عالمی ٹینڈر کے
ذریعے اس کا کنٹریکٹ کیل سوفٹ (Kal Soft) نامی کنسورشیم کو دیا گیا جس کی
جملہ تفصیلات صیغہ راز میں رکھی گئیں ۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ
نادرا کو اس کنٹریکٹ میں حصہ لینے سے حکومت نے منع کردیا تھا حالانکہ نادرا
اس کام کے لئے موزوں ترین ادارہ تھا کیونکہ نادرا کے پاس کمپیوٹرائزڈ قومی
شناختی کارڈ حاصل کرنے والے افراد کا مکمل ڈیٹا بیس موجود تھامگر محسوس یہ
ہوا کہ مستند انتخابی فہرستیں حکومت کو مطلوب ہی نہیں تھیںنتیجہ یہ نکلا کہ
جو حقائق سامنے آئے ان کے مطابق شمار کنندگان کی تربیت میں زرا بھی دلچسپی
نہیں لی گئی، جن اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئیں وہ قلیل معاوضوں کی وجہ سے
گھر گھر جانے کی زحمت نہ کرسکے۔ انتخابی اندراجات کے فارم بالعموم دکانوں
اور مسجدوں میں رکھا دیئے گئے اور انہیں بھرنے کے لئے شہریوں کو کوئی اعانت
بھی فراہم نہیں کی گئی۔ عملے میںخواتین اساتذہ کی عدم شمولیت کے باعث
خواتین ووٹروں کا بہت بڑا حصہ انتخابی فہرستوں میں درج ہونے سے رہ گیا۔
بدقسمتی سے اس وقت الیکشن کمیشن سے یہ وضاحت ہی نہیں طلب کی گئی کہ جب
2006ءکے آخر میں فارم جمع ہوچکے تھے اور ووٹروں کی تعداد میں بھی غیر
معمولی کمی واقع ہوئی تھی تو اس نے اتنے بڑے خلاءکو پر کرنے کے لئے کوئی
عملی اقدامات کیوں نہیں کئے۔اس سنگین غفلت اور سہل انگاری نے آگے چل کر
کتنے بڑے بحران کو جنم دیا ، چاروں طرف ہاہا کار مچی اور الیکشن کمیشن کی
ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ماضی کے تلخ تجربات کے پیش نظر قومی عدالتی
پالیسی ساز کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک میں آئندہ عام انتخابات
عدلیہ کی نگرانی میں کرانے کی درخواست منظور کرکے شفاف اور غیرجانبدار
انتخابات کے خواہشمند کروڑوں پاکستانیوں کے لئے بلاشبہ اطمینان کا سامان
کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے عدالتی افسران کی بطور ریٹرننگ افسر خدمات حاصل
کرنے کی درخواست کی تھی جسے قومی عدالتی کمیشن نے غوروخوض کے بعد قبول
کرلیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت ڈسٹرکٹ و سیشن ججوں اور ایڈیشنل سیشن ججوں کو
الیکشن کے دوران ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹنگ افسران (ڈی سی اوز ) کے اختیارات حاصل
ہونگے جبکہ ان کے ماتحت انتخابی عملے کی فہرست ہائی کورٹس کے چیف جسٹس
صاحبان فراہم کرینگے۔ یہ اہم فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی صدارت
میں ہونے والے قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا ۔ چیف
جسٹس نے یہ بھی کہا کہ انتخابات قانون کے مطابق اور پوری ایمانداری سے ہونے
چاہیئںساتھ ہی الیکشن کمیشن پر بھی واضح کیا کہ وہ شفاف انتخابات کے انعقاد
کے لئے تمام ممکن طریقے استعمال کرے اور ملک میں جمہوریت کو مضبوط بنانے
میں اپنا فعال کردار ادا کرے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں دیانتدارانہ
انتخابات کی روایت اب تک مستحکم نہیں ہو سکی ہے جس کی بڑی وجہ انتخابات میں
بڑے پیمانے پر ہر قسم کی دھاندلی کا رواج ہے۔ طاقتور افراد اور حلقے
انتخابی عمل میں ہر سطح پر مداخلت کر کے نتائج پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔
حسب منشاء نتائج کے لئے سرکاری افسروں کو ڈرانا دھمکانا یا انھیں بھاری
معاوضوں کے عوض خرید لینا ہر انتخابات میں ہونے والے ایسے گورکھ دھندے ہیں
جو اس ملک میں جمہوریت کا چہرہ مسخ کئے دے رہے ہیں۔ آئندہ متوقع انتخابات
ایسے وقت میں ہونے جارہے ہیں جب ملک داخلی اور خارجی محاذوں پر اپنی تاریخ
کے سنگین ترین بحرانوں سے دوچار ہے۔ خطے میں بین الاقوامی طاقتوں کی
کارروائیوں کے سبب ملک میں دہشت گردی کا عفریت بے قابو ہوچکا ہے، اس حوالے
سے حالات کی بہتری کے لئے عام انتخابات کے نتیجے میں عوام کی حقیقی
نمائندگی رکھنے والی مضبوط ، دیانت دار، باصلاحیت اور جرات مند حکومت تشکیل
پانا انتہائی ناگزیر ہے۔ جبکہ داخلی سطح پر بھی ایک مستحکم اور مقبول حکومت
کے قیام کے بغیر مسائل کا حل ہونا محال ہے۔ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ پوری
سرکاری مشینری کرپشن اور نااہلی کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے، اعلی ترین
حکومتی شخصیات پر بدترین مالی بدعنوانیوں کے الزامات ہیں ۔ ملک میں جمہوریت
کا چرچا تو ہے ، لیکن منتخب حکومت عوام کے مسائل کے حل میں تقریبا اپنی
پوری مدت مکمل کرلینے کے باوجود قطعی ناکام ہے۔ ملک کی معاشی حالت روز بروز
خراب ہوتی جارہی ہے، مہنگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کے لئے جسم و جان
کا رشتہ برقرار رکھنا پہلے سے کہیں زیادہ مشکل بنا دیا ہے ۔ دہشت گردی اور
ٹارگٹ کلنگ وغیرہ جیسے مسائل کے حل کے لئے کوئی نتیجہ خیز کارروائی اس
ریکارڈ طویل مدت میں دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ ایسے نازک دور سے گزر تے عوام
کو بھی یاد رکھنا ہوگا کہ آئندہ انتخابات میں قومی اور عوامی مسائل کو پیش
نظر رکھتے ہوئے اپنا ووٹ اپنے ضمیر کے مطابق استعمال کریں ۔ مہذب معاشرے
میں ووٹ کے استعمال کو حب الوطنی کے تنا ظر میں دیکھا جاتا ہے اور اسے قومی
فریضے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔پاکستان میں جمہوریت اور عوامی مسائل
اسی صورت حل ہو سکتے ہیں انتخابی عمل شفاف اور حقیقی ہو اور پاکستان کے
ووٹروں کی حقیقی رائے سامنے آئے چاہے وہ کسی کے بھی حق میں ہو۔ |