الطاف حسین کی تازہ گزارش

ایسا آدمی پاگل ، دیوانہ یا مینٹل ہی کہلائے گا جو اپنی آمدنی کے سب سے بڑے ذریعہ کے خلاف باتیں کرے۔! آمدنی اور شہرت کا باعث بننے والے ملک کے نظام کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کرے اور اپنے آپ کو عقل ِ کل سمجھے۔چلے ابھی اس ذکر کو یہیں پر روک دیتے ہیں پہلے کچھ اور باتیں کرتے ہیں۔

عام انتخابات قریب ہیں ہر لیڈر اپنی پارٹی اور اس کے عہدیداروں اور کارکنوں کی حوصلہ افزائی اور عام ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے لوگوں کے درمیان جاکر انتخابات کی مہم چلانے میں مصروف ہے۔ان انتخابات کی کشش نے سابق صدر پرویز مشرف کو گرفتاری کے ڈر اور جان سے ماردینے کی دھمکیوں کے باوجود ملک واپس لوٹنے پر مجبور کردیا ہے۔یہ وہ موقع ہے کہ ملک کے صدرآصف زراداری بھی بیرون ملک کے دورے کے بجائے اپنے ہی ملک میں اپنے لوگوں کے درمیان رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اپنے والد آصف زرداری اور دیگر رشتے داروںسے ناراض ہونے کے باوجود دبئی سے واپس آکر انتخابات کی مہم میں حصہ رہے ہیں۔اسی طرح میاں نوازشریف ، شہباز شریف ،اور چوہدری برادران بھی اپنے طبی معائنہ کے لیے بھی ملک سے باہر جانے سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ کسی بھی طرح انتخابات میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں اور کامیابی کی امید نا ہونے کے باوجود بھی بعض شخصیات اپنے مخالفین کے لیے میدان کھلا نہیں چھوڑنا چاہتی ۔لیکن ایک لیڈر ایسے بھی ہیں جو اس اہم موقع پر بھی چند روز کے لیے وطن واپس نہیں آنا چاہتے کیونکہ انہیں خطرہ ہے، انہیں ڈر ہے کہ کوئی انہیں جان سے ماردے گا۔انہیں پارٹی ، تحریک کی ساکھ اور لوگوں کی جان و مال سے زیادہ اپنی ہی فکر رہی ۔یہ اور بات ہے کہ وہ ہمیشہ یہ ہی تاثر دیتے رہے کہ ان کا جینا مرنا تحریک اور تحریک کے کارکنوں کے لیے ہے ۔ ان کو کارکنوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم اوران کی گرفتاریوں کی بھی صرف بیان کی حد تک تشویش ہوتی ہے ۔کارکن سمجھنے لگے ہیں کہ وہ اپنی ذات کے لیے سب کو بیوقوف بنارہے ہیں ۔جس خوف کی وجہ سے لوگ ان کی آواز پر ہر جمع ہوجاتے ہیں اب اسی طرح کا خوف انہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہا ہے ۔مذکورہ لیڈر کی کوشش ہوتی ہے کہ وطن سے باہر رہ کر سیاست کرنے والوں کو واپس جانے سے روکیں۔ انہوں نے ماضی میں بے نظیر بھٹو کو بھی ملک واپس نا جانے کا مشورہ دیا تھا مگر بی بی نے مشورہ نہیں مانا اور یہ کہا تھا کہ موت تو اگر میرے وطن میں ہی آجائے تو زیادہ اچھی بات ،کم از کم اپنے لوگوں کے درمیان تو موت آئے گی ۔اسی طرح موصوف جنرل مشرف کو بھی پاکستان جانے سے منع کرتے رہے مگر ان کو ناکامی ہوئی۔ان کی خواہش رہی کہ کوئی اور دوسرا بھی ان کی طرح ملک سے باہر رہ کر ملک کی سیاست کرے تاکہ ” ڈر پوک“ کا اعزاز کسی دوسرے کو بھی ملے۔

الطاف حسین کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ جب بھی خطاب کرتے ہیں۔ایسا کرتے ہیں کہ گلی کوچوں میں ان کی باتوں پر تبصرے شروع ہوجاتے ہیں۔نامورصحافی اور دانشور تک ان کے تازہ ”فرمودات“پر کالم لکھنا شروع کردیتے ہیں۔گزشتہ روز لندن سے براہ راست ٹیلی فونک پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھی انہوں نے ایسا کچھ مثالی کہا کہ مجھ جیسا غیر نامور بندہ بھی کچھ نا کچھ لکھنے پر مجبور ہوگیا۔ان کی تقریر کا دائرہ انتخابات اور انتخابی عمل کی خامیوں کو اجاگر کرنے تک محدود رہی ۔تاہم انہوں نے اس بار بھی بنیادی اسلامی نکات اور نظریہ پاکستان پر تنقید کرنے کی کوشش کی۔الطاف حسین کے اٹھائے گئے سوالات پر نامور صحافی انصار عباسی فوری طور پر کالم تحریر کرچکے ہیں۔انصار عباسی کا کالم، نظریہ پاکستان اور دین کے بارے میں بنیادی سوالات پر تنقید کرنے والوں کے ”منہ پر طمانچہ “ ہے۔اس لیے مزید تھپڑ وں کی ضرورت تو نہیں رہی۔۔۔۔۔لیکن کیا کریں خیال آتا ہے کہ ” ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے“۔

الطاف بھائی نے نظریہ پاکستان کے بارے میں اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ ” میری کم علمی ہے لہذا مجھے بتایا جائے کہ آئینی و قانونی طور پر نظریہ پاکستان کیا ہے؟ “۔

چونکہ اس پر کالمز لکھے جاچکے ہیں اس لیے میں صرف اتنا ہی لکھوں گا کہ الطاف بھائی، آئینی اور قانونی طور پر نظریہ پاکستان نہیں ہے بلکہ پاکستان کا قیام دو قومی نظریئے کی بنیاد پر عمل میں آیا ہے اور قیام پاکستان کے بعد اس کانظام چلانے کے لیے آئین اور قانون بنایا گیا ہے۔وہ آئین جس کے تحت دوہری شہریت کا حامل شخص ،ایسا شخص جو نظریہ پاکستان پر یقین نہیں رکھتا ، ایسا شخص جو اسلام کے بنیادی اصولوں اور ارکان پر عمل نا کرتا ہو اور جو سنگین جرائم میں ملوث ہو ممبر پارلیمنٹ ، ممبر کابینہ ، اور صدر نہیں بن سکتا ۔

الطاف حسین نے اپنی تقریر میں الیکشن کمیشن کے اراکین کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات پر سخت تنقید کی اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے چیف کو چاہیے کہ وہ ٹی پر آکر نماز جنازہ کا طریقہ کار بتادیں تاکہ لوگ نماز جنازہ سیکھ لیں۔مجھے نہیں معلوم کہ اچانک نماز جنازہ کا ذکر الطاف بھائی کو کیوں یاد آگیا۔ہوسکتا ہے کہ انہیں خیال آگیا ہو کہ انہیں بھی مرنا ہے۔یا پھر دنیا کو یہ بتانا چاہ رہے ہوں کہ پاکستان میں مسلمانوں کو نماز جنازہ بھی نہیں آتی۔اگر پہلی بات ہے تو وہ اطمینان بخش ہے اور اگر دوسری بات ہے تو وہ ہم سب کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ جس معاملے پر انہوں نے پریس کانفرنس کی اور جس ایشو پر اعتراضات کیے ۔ یعنی انتخابات، اس کی تیاری توان کی پارٹی کررہی ہے۔اس کے باوجود الطاف حسین نے انتخابات کی تاریخ میں توسیع کی اپیل کردی ہے ۔ اس طرح وہ پہلے لیڈر ہوگئے جنہوں نے انتخابات کے انعقاد کو التوا میں ڈالنے کی خواہش ظاہر کی۔الطاف حسین کا مﺅقف یہ ہے کہ انتخابات کی گہما گہمی نظر نہیں آرہی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی دور رہ کر ان کو ساری جماعتوں اورپوری قوم کا جوش کس طرح نظر آتا ہے؟۔یقینا یہ ناممکن ہے وہ گہما گہمی زیادہ سے زیادہ متحدہ کی صفوں میںنہیں دیکھ پاررہے ہونگے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پوری قوم اس بار انتخابات کے ذریعے ملک میں انقلاب برپا کرنے کی تیاری کررہی ہے۔کیونکہ لوگوں کو اب یقین ہورہا ہے کہ اس بار ہونے والے انتخابات (اگر ہوئے تو) انتہائی شفاف ،آزادانہ اور منصفانہ ہونگے۔اس لیے ان انتخابات سے ان تمام پارٹیوں میں خوف پایا جاتا ہے جو اب تک ووٹ کے بجائے کسی اور طاقت کے بل پر کامیاب ہوتی رہیں ہیں۔متحدہ انتخابی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ہائی کورٹ اور اقوامِ متحدہ تک جا پہنچی لیکن شائد وہاں سے توقعات کے مطابق نتائج حاصل نا ہونے پر اب انتخابات کے التوا پر زور دینے میں لگ گئی۔

قوم کو اس بات پر حیرت ہے کہ ایک ایسا شخص جو پاکستان کے آئین کے مطابق پارلیمنٹ کا رکن تک بننے کی اہلیت نہیں رکھتا وہ بیرون ملک بیٹھ کر کس طرح ملک کے آئینی ، قانونی اور انتخابی معاملات پر مداخلت کرسکتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کے مساوی  اس طرح کے بیانات پر سپریم کورٹ کوئی کارروائی کرسکتی ہے ؟ کیا کوئی غیرملک کا وفادار پاک وطن کی کسی جماعت کا لیڈر ہوسکتا ہے؟ متحدہ اور اس کے قائد الطاف حسین کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ان کے اپنے کارکن اور یہ ملک ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے کارکن انہیں چندہ دیتے ہیں۔ وہ کارکن یقینا قابل تعریف ہیں جو اپنے ذاتی اخراجات سے زیادہ آمدنی اپنے لیڈراور اپنی پارٹی کو دے دیا کرتے ہیں۔؟کیا اس آمدنی اور اخراجات کی جانچ پڑتال کرنے کا اختیار ملک کے کسی ادارے کے پاس ہے؟
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165900 views I'm Journalist. .. View More