عالمی سطح پر اسلام کے خلاف زہر
افشانیوں کے بظاہر ایک نہ ختم ہونے والے سلسلہ کو دیکھ کر اسلام کے نام
لیوا ﺅں پر طاری اضطراب کا منظر نہ صرف قابلِ دید ہوتا ہے بلکہ اطمینان کی
ایک لہر سی ہمارے احساس کو چھو کر گزر جاتی ہے کہ ابھی وہ دل سینوں میں
موجود ہیں جو ناموسِ دین کے لیے دھڑکنا جانتے ہیں اور وہ کاسہ ہائے سر
سلامت ہیں جن میں موجود بے پناہ صلاحیتوں کے حامل دماغ، دانشورانہ سطح پر
سوچنے اور غور و فکر کی ابھی کچھ نہ کچھ سکت رکھتے ہیں۔ لیکن گہرائی سے
صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔ نہ
وہ اضطراب آگیں دھڑکنوں کی فرحت ہی میںپائداری ہے، نہ وہ دانش وریاں ہی کچھ
کر پارہی ہیں کہ ذہنِ جدید کو مطمئن کر نے کا سامان فراہم ہو سکے۔وہی ذہنِ
جدید جس کی آج دنیا پر حکمرانی ہے، جس کی پیدا کردہ تہذیب کا سکہ کسی اور
تہذیبی سکے کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیتا،جس کی فکری و ذہنی آوارگیوں کو
نئی نسلوں میں قبولِ عام حاصل ہو گیا ہے۔ فواحش کے ریلوں کے آگے بند
باندھنے والے،اس کے مخالف سمت تیرنے کی خاطر ہاتھ پیر تو کیا مارتے، خود
سوچ کے ان دھاروں میں طوعاً و کرہاً بہے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے نہایت ہی
اعلیٰ دماغوں نے دلائل کے کس قدر انبارلگا دیے( اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے
) اور پکار پکار کر کہتے رہے کہ” اے مخالفین اسلام! جس دین کو بیخ و بن سے
اُکھاڑ پھینکنے کی جدو جہد میں تم زمین سے اُبلنے والی اپنی بے پناہ دولت
کو لٹا نے میں ہمہ تن مصروف ہو گئے ہووہ دین تو خود تمہاری ہی اپنی فلاح کے
لیے آیا تھا، جسے خود تمہارے ہی رب نے تمہیں اپنے اُن نبیوں کے ذریعہ دنیا
میں بھیجا تھاجنہیں خود تم بھی مانتے ہو۔کیوں کہ بروز ازل تمہارے خالق نے
تم سے اطاعت شعاری کا میثاق لیا تھا اور اسی میثاق کی گرمی اب بھی تمہارے
رگ وپے میںسرایت کیے ہوئے ہے۔ اِس حقیقت کی گواہی خود تمہارے دل دیں گے کہ
تمہارے مالک نے وفا شعاری کا عہد تم سے لیا تھا۔“ لیکن طاغوت ہے کہ محض ایک
تجاہلِ عارفانہ سے ان دلائل کو روندتاچلاجارہا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے
مذکورہ کاوشوں کی تما م تر انقلاب آفرینیاںکہیں نہ کہیں دم توڑ دیتی ہیں
یاکہیںکوئی خلا ءچھوڑ جاتی ہیں جسے پُر کرنے کی طرف اذہان و قلوب متوجہ
نہیں ہوتے۔اس نکتہ پر سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے سے غور و
فکر آج ہماری اس تحریر کاموضوع ہے ۔
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے
حقیقی تعارف سے محروم ہو کر رہ گئی ہے یا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ سلم کا
تعارف کرایا بھی گیا ہے تو یہ تعارف مکمل نہیں یا ہماری کم نصیبیوں نے اس
تعارف کو مکمل ہونے نہیں دیا ہے۔ ممکن ہے مخالفین اسلام کے برپا کردہ
پروپیگنڈے کا جواب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حقیقی تعارف میں تلاش کیا
جائے تونہ صرف ہماری عقیدتمندیوں کا بھرم رہ جائے گا بلکہ ہماری دانشوریاں
بھی جدید ذہن کے دامنِ اطمینان میں کچھ نہ کچھ ڈالنے کے قابل ہو جائیں گی
اور کسی حد تک یہ طوفانِ بد تمیزی تھم جائے گا۔
پہلی بات یہ کہ جس دین کے خلاف ساری دنیا صف آراءہوگئی ہے وہ دین ایک ایسے
نبی پر مکمل ہوا ہے،جس کی ذاتِ اقدس کو چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود بھی
ہم دنیا کو اُس کی زندگی کے ایک ایک خط و خال کوکامل Accuracyکے ساتھ
دکھانے کی پوزیشن میں ہیں کہ وہ کون تھے، کیا تھے ، کیسے تھے اور اُن کی
جملہ سرگرمیاں کیا رہیں ۔سوال یہ ہے کہ پھر ایساکیوں ہوا کہ اُن کی ذاتِ
اقدس، باخبر اور روشن خیال دنیا سے چھپی رہ گئی۔وہی روشن خیال دنیا جو
تحقیق کے نام پر کیڑے مکوڑوں کے شِجرے تلاش کرتی پھرتی ہے۔کون ہیں اس کے
ذمہ دار کہ ٹھیک طرح سے حبیبِ کبریا صلی اللہ علیہ سلم کا تعارف دنیا سے
نہیں کرا سکے جس کا یہ نتیجہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ بے لگام دنیاکا ہر
ایرہ غیرہ جو جی میں آیا حکم لگا تا پھرتا ہے کہ وہ کیا تھے، کیسے تھے اور
اس طرح اُن کی پیروی کرنے والی ایک عظیم قوم ذلیل و رسوا کرکے رکھ دی جاتی
ہے۔!پھر اُن کے لائے ہوئے دین کی باری آتی ہے اور اس دین کی تعلیمات پربے
جا ترجمانیوں کی گرد و غبار اُڑائی جاتی ہے، جبکہ تاریخ آپ صلی اللہ علیہ
سلم کی زندگی کا پورا رکارڈ محفوظ رکھے ہوئے ہے ۔یہ صحیح ہے کہ اسلام کی
مخالفت کرنے والی دُنیا اپنے پروپیگنڈے میں Fairنہیں ہے کہ ایک ایسی شخصیت
کے لائے ہوئے دین کو داغدار کرنے کی کوشش کرتی ہے ،جس کی زندگی کی ایک ایک
تفصیل کمال احتیاط کے ساتھ محفوظ بھی ہے اور Accurateبھی۔لیکن ذمہ داری بہر
حال اُن ہی پر آتی ہے جو اُن کے پیرو ہونے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے اور
انہیں ذمہ دار ٹہرایا بھی جانا چاہیے۔یا تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم
نے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نہیں سمجھا، یا اُنہیں دنیا سے متعارف
کرانے کے سلسلے میں ہم نے مجرمانہ کوتاہی برتی۔سچی بات تو یہ ہے کہ دین کی
دعوت کے کام میں مصروف نفوس اُس کتاب کی Originalزبان سے نا واقف ہیں جسے
”آسمانی عربی “ کہا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے مشرقِ وسطیٰ کے عربوں کی عربی
جاننے والے ساری دنیا میں موجود ہوں ، لیکن یہ المیہ ہے کہ جو عربی زبان
آسمان سے آئی تھی، اُس سے خال خال ہی واقف ہیں۔ باقی سب اُس کو اپنی اپنی
زبانوں کے ترجموں کی مدد سے سمجھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اس طرز عمل
نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا ہے۔ چنانچہ داعیانِ دین کی پوری پوری زندگیاں
دعوتِ دین میں گزر رہی ہیں، الٰہی عربی زبان سے واقفیت کے بغیر۔یہ ایک بڑی
تکلیف دہ حقیقت ہے۔حالانکہ یہ اُسی کتاب کی زبان ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم اپنی تیئس سالہ پیغمبرانہ زندگی میں اپنے مخاطبین کو سناتے رہے
اور وہ مطلوبہ انسان تیار کیے جن کا نام زبان سے ادا کرتے وقت دنیا کو
انتہائی ادب کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔
دوسری بات یہ کہ جو کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوئی وہ
خود بھی Accuracyکے اعتبار سے اتنی معتبر ہے کہ کوئی عقل کا اندھا ہی اسے
وہ کتاب نہیں کہے گا جو فی الواقع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل
ہوئی تھی۔آج بھی اس کے دو نسخے دنیا میں موجود ہیں ، جنہیں چودہ سو سال
پہلے مرتب کیاگیا تھا جنہیں ماسکو اور قاہرہ کے میوزیم میں محفوظ کیا گیا
ہے جن میں سے ایک کاپی تو وہ ہے جسے حضرت عثمان ؓ اپنی شہادت کے وقت تلاوت
فر مارہے تھے۔ دنیا میں موجود کسی بھی قرآن کی کاپی کو ان دو قدیم ترین
نسخوں کے ساتھ موازنہ کرکے دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جو نبی صلی
اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوئی تھی اور یہ کہ ایک حرف تک کا ان میں فرق نہیں
آیا۔روشن خیال دنیا جو آج اسلام ، قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کے
خلاف جھوٹے پروپیگنڈے میں مصروف ہے کیا اسے یہ حقیقت دکھائی نہیں دیتی یا
یہ کہ دنیا کو اس حقیقت کی جانب کیوں نہیں متوجہ کیا گیا اوراُس سے یہ
پوچھا گیا کہ جس کتاب کی تعلیمات کو دہشت گردی کی تعلیمات سے تم تعبیر کر
رہے ہو وہ اپنی مبینہ منفی تعلیمات کے ساتھ چودہ سو سالوں تک کبھی محفوظ
نہیں رہ سکتی۔کیونکہ انسان مخالف Anti Humanتعلیمات کو کائنات میں قرار و
ثبات حاصل نہیں ہو سکتا۔تاریخ اس پر گواہ ہے۔جب جب بھی کسی ’انسان مخالف
نظریہ‘ کو اُبھارنے کی کوشش کی گئی، وہ نظریہ اُبھرنے سے پہلے ہی نیست و
نابود ہو کر رہ گیا۔
تیسری بات یہ کہ ہو سکتا ہے نبی صلی اللہ علیہ سلم کی زندگی کی تفصیلات کے
ذخیرے تک مخالفین اسلام کی رسائی نہ ہو لیکن دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے
جہاںقرآنِ حکیم کی کاپی موجود نہیں ہے۔ ہر مسلمان کے گھر میں قرآن کی کم از
کم ایک کاپی تو بہر حال موجود رہتی ہے، چاہے احادیث کی کتابیں موجود ہوں کہ
نہ ہوں۔دنیا کی اس انتہائی معتبر و مستندAuthenticateکتاب میں آج بھی وہ
آیتیں موجود ہیں جنہیں کوئی غیر متعصب شخص پڑھ لے تو بادی انظر میں اُسے یہ
اندازہ ہو جائے گا کہ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ سلم کی شخصیت ہر گز
اُس فرد کی شخصیت نہیں ہو سکتی جو دنیا میں دہشت گردی کو فروغ دینے والی
تعلیمات کی علمبردار رہی ہو۔پھر اِس قدر آسانی سے دستیاب ہونے والی ان آیات
کو پیش کرنے میں اسلام کے نام لیواﺅںکے لیے کون سی رکاوٹ مانع بنی رہی۔ظاہر
ہے کتاب اللہ سے ناواقفیت کے سوا اسے کیا نام دیا جا سکتا ہے ۔مثال کہ طور
پر سورہ نون کی چوتھی آیت میں ربِّ کائنات کا یہ بے لاگ اور صاف صاف
Statementدیکھیے:”۔۔ اور اے محمدصلی اللہ علیہ سلم ، آپ اخلاق کے بڑے عظیم
مقام پر فائز ہیں۔“
رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کس مزاج کے حامل تھے اُس کے اعتراف میں سورہ ¿
آل عمران کی ایک سو اُنساٹھویں آیت میں ربِّ کائنات کا یہ اعلان
دیکھیے:”یہ(خالصتاً) رحمتِ الٰہی ہے کہ آپ اپنے اِن رفقاءکے لیے نر م خو
ہیں، ورنہ اگرآپ زبان کے تیزاور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے اطراف سے چھٹ کر
جدا ہو گئے ہوتے۔“
اور پھرسورہ توبہ کی ایک سو اٹھائیسویں آیت توآپ کی رقت انگیز شخصیت
پرتصدیق کی الٰہی مہر ثبت کردیتی ہے:”Indeedتمہارے پاس خود تم میں سے ایک
ایسا رسول آیا ہے جسے ہر وہ چیز شاق گزرتی ہے جو تمہیں نقصان پہنچانے والی
ہو، جو تمہاری فلاح کی طمع میںجیتا ہے اور مومنین کے لیے اُس کا رویہ شفقت
و رحمت والا ہے۔“
اسی طرح قرآن کے اور کئی مقامات پر حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم
کا ایک انتہائی شفیق اور دردمند انسان کی حیثیت سے خود خدا کی جانب سے
تعارف کرایا گیا ہے اور دنیا ان سے حیرت انگیز طور پر بے خبر ہے۔رہی
نظریاتی سطح پر اسلامی تعلیمات کے خلاف غلط سلط الزامات کی بوچھاڑ کی بات
تو نئے سرے سے ہم اپنےapproachکا جائزہ لے کر دیکھیں کہ کیا ہم عصر حاضر کے
ذہن کو سمجھتے ہیں، کیاہم عصر حاضر کے انسان کے مسائل سے فی الواقع واقف
ہیں، کیا ہم اُسوہ رسول کودعوتِ دین کی ان کاوشوں کے دوران اپنے پیشِ نظر
رکھتے ہیں۔ ایمانداری کے ساتھ ہم ان کے جواب تلاش کرلیں اور کامیاب ہو
جائیں تو پتہ چلے گا کہ عصر حاضر کا انسان دورِ جاہلیت کے انسان سے برا
نہیں ہے۔ ہماری دنیا مکہ ّ کے ستمگروں سے گئی گزری نہیں ہے۔ صرف اتنا کرنا
ہے کہ اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ سلم کو مکہ کے تناظر سے عصر حاضر کے تناظر
میں کچھ اس حکمت سے شفٹ کریں کہ وہ فطری کشمکش پھر برپا ہو جائے جو نوعیت
کے اعتبار سے مکہ کے مخصوص حالا ت سے چاہے ہو بہو نہ ملتی ہو لیکن اُس کی
اسپرٹ پوری پوری ہماری تگ و دو میں سمٹ کر آجائے اور ایک بار پھر ظالم دنیا
اور نادان مخالفینِ اسلام، اسلام کی چوکھٹ پر اپنے آپ کو اُسی طرح لا کر
ڈال دےں جس کا منظر چشم فلک نے فتح مکہ کے موقع پر دیکھا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی میلادکی محافل کا موسم آتا ہے تو چہار
دانگ ِ عالم، احمد مجتبےٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ اقدس و
سیر ت مطہرہ پر پربولنے، لکھنے اور پڑھنے اور سر دھننے کا ایک شور سا برپا
ہو جاتا ہے۔کیااِس نقار خانے میں طوطی عزیزکی آواز پھر بھی سنائی دیتی ہے۔
اگر ہے تو یہ بڑی سعادت کی بات متصور ہوگی ۔اللہ تعالےٰ ہم سب پر رحم
فرمائے۔آمین۔ |