بھاجپا؛بلند دعوے، مشکل راہیں

جیسے جیسے سنہ 2014ءکے عام چناﺅقریب آرہے ہیں، بھاجپا میں بیچینی بڑھتی جاتی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ پارٹی کے سامنے یہ ہے کہ کونسا چہرہ چھپائے، کونسا دکھائے اور اس سوال پر خود کو انتشار سے کیسے بچائے؟ ایک طرف پارٹی کی فطری خواہش یہ ہے نریندر مودی کو پارٹی کا چہرہ بناکر پیش کیا جائے، دوسری طرف پارٹی کے مرکزی لیڈروں کو یہ بات پسند نہیں آسکتی ہے مودی جیسے آمرکو گجرات سے لاکر ان پر مسلط کردیا جائے۔ خصوصاً آڈوانی کی آرزو ہزار رسوائیوں کے باوجود ابھی تک زندہ ہے اور اس کو پانی دینے والے بھی کم نہیں۔

میں نے مودی کو آگے بڑھانے کی خواہش کوپارٹی کی ’فطری خواہش‘ اس لئے کہا کہ مودی کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے سنہ 2002ءمیں ریاست میں مسلم کش فسادکی سرپرستی کی اورسہراب الدین، کوثر بی ،عشرت جہاں اور پرجاپتی کے قتل جیسے سفاکانہ گناہوں کی پردہ پوشی کی۔ان کی ان سفاکیوں کو بھاجپا ئی ذہن باعث فخر سمجھتا ہے۔فخر تو اس کو بابری مسجد کے انہدام پر بھی ہے، مگراس معاملے میں مودی یقینا آڈوانی سے بازی مارلے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالیوں کے یہ واقعات سنگھ پریوار کے دلوں کو ٹھنڈک بخشتے ہیں، اس لئے راج ناتھ سنگھ سے لے کر معمولی ورکر تک کی دلی خواہش یہی ہے کسی طرح مودی کو وزیر اعظم بنادیا جائے تاکہ وہ پورے ہندستان کو گجرات کے نقشہ میں ڈھال دیں۔آڈوانی سے وہ اس لئے مایوس ہیں کہ ان کو جناح کا سیکولر چہرہ یاد آگیا تھا اور ایک آدھ مرتبہ اس بات پر بھی افسوس ظاہر کیا تھا کہ بابری مسجدیوںتوڑ دی گئی۔ حالانکہ اگر نہ توڑی گئی ہوتی تویقینا ان کو فرقہ ورانہ زہر پھیلانے کا اور موقع مل گیا ہوتا۔

گجرات میں ترقی کی کہانیاں بہت چلائی جارہی ہیں،مگر ایسے اعداد شمار بھی آرہے ہیں جو ان دعووں کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتے ہیں۔ترقی کے چند پیمانے ہوا کرتے ہیں۔جیسے تغذیہ، تعلیم، تحفظ نسواں،تحفظ صحت اور انسانی حقوق کی پاسداری۔ ان سب میں گجرات کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے اور یہ بات خودمودی بھی تسلیم کرچکے ہیں۔ فی الحال ریاست میں پانی کا بحران شدید ہورہا ہے، جو ریاستی حکومت کی ناکامی کو بیان کرتا ہے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ وہاں یوپی کی سماجوادی سرکار کی طرح اقتدار کے کئی مرکز نہیں، جو کچھ ہیں مودی ہی ہیں، اس لئے فیصلے جلدی ہوجاتے ہیں، جس کو وہ اچھی حکمرانی سے تعبیر کرتے ہیں۔ جہاں تک صنعتی ترقی کی بات ہے تو سی اے جی کی حالیہ رپورٹ نے صاف کردیا ہے کہ مودی نے صرف صنعتکاروں کی جیبیں بھری ہیں، کوڑیوں کے مول ان کو زمینیں دی ہیں، رقم فراہم کرائی ہے، جب کہ اس کی بدولت ریاست پر قرض کا بوجھ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔اس ترقی کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچا ہے اور عوام کو دوقت کا ڈھنگ کا کھانا بھی نصیب نہیں ۔ دعوا یہ کیاجاتا ہے ریاست کی ترقی کا فائدہ اقلیت کو بھی پہنچ رہا ہے مگر ایسے واقعات بھی چھن چھن کر آرہے ہیں کہ مسلمان کے لئے اپنی شناخت کے ساتھ روزگار یا رہنے کے لئے مکان پانا دشوار ہے۔انتظامیہ اور عوام میںمسلم دشمنی کی ذہنیت اس طرح بسادی گئی ہے کہ ان کے ساتھ ہرسطح پرناانصافی اور زیادتی ہورہی ہے۔ بھاجپاکا نظریہ یہی کہتا ہے کہ پورے ہندستان میں ایسا ہی ہونا چاہئے۔ اسی کو وہ ہندو راشٹرا کہتے ہیں۔ وہ اندرون ملک ہی مسلمانوںکو زیر کرنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ پڑوسی ممالک کو بھی زچ کیا جائے۔ چنانچہ مودی جدھر سے گزر جاتے ہیں بھاجپا کارکنوں کی دلوں کی کلیاں کھل اٹھتی ہیں۔ ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس سپنے کو سچ کردکھائیںگے جو سنگھ کے بانی ڈاکٹر ہیڈگوائر نے دیکھا تھا۔اب اپنا قد بڑھانے کی ملک گیر مہم میں لگے ہیں جس کو صنعتکاروں اور تاجروں کی سرپرستی حاصل ہے۔ لیکن شاید ان کی ’سب سے بڑا‘ بن جانے کی کوشش آر ایس ایس کو بھی پسند نہیں آرہی ہے ۔چنانچہ حال ہی میں سنگھ نے اپنے دو اخباروں ’پنچ جنیہ‘ اور’ آرگنائزر‘ کے ایڈیٹروں کوالگ کردیا۔ وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ وہ مودی کے مدح سرائی کررہے تھے۔ پارٹی کے ایک طبقہ کوبھی یہ اندیشہ ستا رہا ہے کہ مودی کا عروج ان کا زوال ثابت ہوگا، مودی کی آمرانہ ذہنیت ان کو ٹھکانے لگادیگی۔ شک یہ بھی کیا جارہا ہے کہ مودی کو چہرہ بناکرچناﺅ میں اترنے سے کامیامی ہاتھ آئیگی یا ناکامی کا منھ دیکھنا پڑیگا؟ یہ سوال اس لئے کیا جارہا ہے کہ اپنی سخت گیر شبیہ کی وجہ سے آڈوانی سنہ ۹۰۰۲ ءکے چناﺅ میں پارٹی کوجیت نہیں دلا سکے، جب کہ پارٹی ان کی پشت پر متحد تھی اور ان کی بدولت ہی لوک سبھا میں دو ممبران سے اوپر اٹھ کر مسند اقتدار تک پہنچی تھی۔آڈوانی اپنا یہ احسان گھما پھرا کر پارٹی کو اب بھی یاد دلاتے رہتے ہیں۔چنانچہ ۶ اپریل کو پارٹی کی تاسیس کی ۳۳ویں سالگرہ کے جلسے میں، جس میں مودی کا سایہ ان سے بڑھتا نظرآتا تھا،انہوں نے اپنی اس تحریک کی یاددہانی کو ضروری جانا اور کہا پارٹی کارکن رام مندر تحریک کو نہ بھولیں، بلکہ اس پر فخر کریں۔

اگرچہ پارٹی صدر راجناتھ سنگھ کئی مرتبہ پارٹی لیڈروںکو متنبہ کرچکے ہیں کہ وہ اس بحث کو نہ چھیڑاکریں کہ وزیراعظم کے منصب کے لئے کونسا چہرہ زیادہ موزوں و مستحق ہے، مگر یہ بحث رکنے کا نام نہیں لیتی۔ چنانچہ دہلی کے صدر دفتر میں ۶اپریل والے جلسے میں دہلی بھاجپا صدر وجے گوئل نے اس سوال کو چھیڑ دیا اورصاف صاف کہہ دیا کہ” مرکز میں بھاجپا کی اگلی سرکار آڈوانی جی کی سربراہی میں بنے گی، کسی اور کی نہیں۔“ ان کا یہ کہنا تھا کہ مودی حامیوں کی سٹی پٹی گم ہوگئی جبکہ مودی مخالفوں کا جی ضرورخوش ہوا ہوگا۔ آڈوانی جی نے بھی رام مندر تحریک کے حوالے سے دبے لفظوں میں وزیراعظم کے منصب کے لئے اپنی دلی آرزو کا اظہار بھی کردیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ایک خواب کی تعبیر پانے کے لئے ابھی تک سیاست میں سرگرم ہیں۔ غور کیجئے، وہ ملک کے وزیرداخلہ رہ چکے ہیں، نائب وزیر اعظم رہ چکے ہیں، پارٹی کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اب وہ کونسا خواب ہے جس کے لئے وہ سیاست میں سرگرم ہیں؟ یقیناوہ وزیر اعظم بن جانے کا خواب ہی ہے، ورنہ پارٹی صدر اور اپوزیشن لیڈر کے مناصب سے ہٹادئے جانے کے بعد ان کو سیاست سے کنارہ کش ہوجانا چاہئے تھا۔ وہ عمر کے اس حصے میں پہنچ چکے ہیں جب سنسار کو تیاگ کر ون پرستھ آشرم میں چلاجانا چاہئے اور اس کے بعد سنیاس لے لینا چاہئے۔ ویدک ون آشرم سسٹم کے مطابق جب بچے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں تو آدمی کو گرہستھ جیون کا تیاگ کردینا چاہئے اور ون پرستھ آشرم لیکر مقدس مقامات کی یاترا اور دھرم گروﺅں کی صحبت اختیار کر لینی چاہئے۔اس کے بعد دنیا سے بالکل ہی سنیاس لے لینا چاہئے۔ ہر چند کہ ہمارے آڈوانی جی ہندتووا کے بڑے مبلغ ہیں مگر لگتا ہے کہ ہندتووا کا ان کا پریم صرف سیاست کی ہنڈیا میں بگھار لگانے کے لئے ہے، زندگی میں عملاً اختیارکرنے کے لئے نہیں ۔ سچائی یہ ہے کہ ہندتووا کا نعرہ لگانے والے خوداچھے ہندو نہیں ہیں۔ اچھا ہندو خون خرابہ نہیں کیا کرتا، جبکہ ہندتووا کی بنیاد ہی خون خرابے پر ٹکی ہے۔ یہ نعرہ دراصل بھولے بھالے عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے ہے۔ اصل مقصد خود اپنی اجارہ داری قائم کرنا ہے۔

وزیرا عظم کے منصب کے خواب نے مودی اور آڈوانی میں بڑا فاصلہ پیدا کردیا ہے، حالانکہ آڈوانی گزشتہ دو دہائیوں سے مودی کی مداحی کرتے رہے ہیں مگر اسی ۶ اپریل کو پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر احمدآباد میں مودی نے جس عظیم جلسہ کا اہتمام کیا اس میں راج ناتھ سنگھ کو تو خصوصی طیارے سے بلالیا مگر آڈوانی کو نہیں بلایا حالانکہ وہ گجرات کے گاندھی نگرحلقہ سے ہی پارٹی کے ایم پی ہیں اور ایک مدت تک مودی کی سرپرستی بھی کرتے رہے۔ مسلم کش فسادکے بعد جب مسٹر باجپئی نے یہ خیال ظاہر کیا کہ مودی کو کم از کم استعفے کی پیش کش کرنی چائے تو آڈوانی ہی آڑے آگئے تھے۔ مسٹر آڈوانی نے یہ دلیل دی تھی کہ استعفے کی پیش کش سے پارٹی کارکنوں میں غلط پیغام جائیگا۔ ظاہر ہے مودی نے جو کیا تھا وہ بھاجپا کے نظریہ کے عین مطابق تھا، اس لئے مودی کی سرپرستی ضروری تھی۔ لیکن اب سیاست کا رنگ کہتا ہے آڈوانی جی کو سنہ ۴۱۰۲ءکے چناﺅ میںگاندھی نگر کو بھول جانا ہوگا، ورنہ وہ چناﺅ نہیں جیت سکیں گے۔ مودی اس قدر سفاک سنگھی ہیں کہ آڈوانی کی جڑ کاٹے بغیر باز نہیں آئیں گے۔

دہلی میں وجے گوئل نے جو کہا تھا اس کی باز گشت بہار میں بھی سنائی دی۔ چنانچہ بہار سے سابق ایم پی شترگھن سنہا نے بھی کھل کراس نظریہ کی تائید کردی ہے کہ وزارت عظمٰی کے اصل حقدار آڈوانی ہی ہیں۔ ادھر پارٹی کے سینئر لیڈر ارن جیٹلی نے بھی بڑی ہی خوبصورتی سے مودی کا راستہ کاٹنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے ۷ اپریل کو پارٹی کے اعلا عہدیداروں کی میٹنگ میں باالواسطہ طور سے خبردار کیا کہ مودی کو پارٹی کا چہرہ بنانا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ مودی کو آگے بڑھانے سے اقلیتی ووٹ یک مشت کانگریس کی جھولی میں چلا جائےگا۔ ان کا یہ خیال بے بنیاد بھی نہیں۔ اقلیتی ووٹ کی فکر آڈوانی بھی جتا چکے ہیں۔پارٹی صدر کے منصب پر راجناتھ کی تاج پوشی کے موقع پر انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ بھاجپا کو اقلیتوں کے اندیشے دور کرنے چاہیں ۔ یقینا ان کا اشارہ اسی طرف تھا کہ مودی کو سامنے لانا نقصاندہ ہوگا ۔ یہ بات راجناتھ سنگھ بھی کہہ چکے ہیں کہ اقلیتوںکو بھاجپا سے ڈرنا نہیںچاہئے۔ ان کے اس مشورے کا یہ مطلب بھی نکالا جاسکتا ہے کہ مسلمانوںکو موت سے نہیںڈرنا چاہئے بھلے ہی بھاجپا پورے ملک کو گجرات بنانے کی تیاری کررہی ہو؟

ہمیں تو حیرت بھاجپا کے مسلم لیڈروں پر ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے آپ کا سیاسی مفاد ہے، بیشک بھاجپا میں رہئے ، یہ دلیل بھی اہم ہوسکتی ہے ملک کی دوسری سب سے بڑی پارٹی میں کچھ مسلمان بھی رہنے چاہیں، یہ تجربہ ہمارا بھی ہے کہ ذاتی سطح پر بھاجپا لیڈر جو کام آجاتے ہیں وہ دیگر پارٹیوں کے لیڈر اور خاص طور سے کانگریس لیڈر ہرگز نہیں آتے۔ مگر چھوٹے موٹے ذاتی اورمادی فائدوں کے لئے دین و ایمان اور عزت و آبرو کا سودا تو نہیںکیاجاسکتا، جس کا مشورہ بھاجپا لیڈر دیتے رہتے ہیں۔

اس کی تازہ مثال ۷ اپریل کی ہے جب بھاجپا کے اقلیتی مورچہ کے صدر جناب عبدالرشید انصاری نے دہلی میں فرمایا کہ گجرات میں مسلمانوں کا دِل بدل گیا ہے اور اب وہ مودی کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مودی اور بی جے پی کے سلسلہ میں ”مسلمانوں میں غلط فہمیاں اور اندیشے“ ہیں ،وہ دور ہونے چاہئیں۔ بابری مسجد کا انہدام، پورے ملک میں مسلم دشمنی کا طوفان، اسکولوں میں سرسوتی وندنا، سوریہ نمسکار ، مساجد پر جبری قبضے، تاجروںسے مویشیوں کی لوٹ، ہندو سنسکرتی اختیار کرنے اور نکاح و طلاق اور وراثت کے معاملوں میں شرعی قوانین کو ترک کرنے پر اصرار ، مسلمانوں کو دہشت گردی میں ملوّث کرنے کی مہم ، پولیس اور ریاستی وزیروں کی سرپرستی میں گجرات میں مسلم کش فسادات اور پھر مقدموں میں دوشیوں کو بچانے کی تدابیروغیرہ، کیا یہ سب کچھ ”مسلمانوں کی غلط فہمیاں“ ہیں؟ مسٹر انصاری کا یہ دعوا بھی غلط ہے کہ گجرات کے مسلمانوں کا دِل بدل گیا ہے۔ دل نہیںبدلا، گجرات میں کانگریس نے بزدلی دکھائی، مودی سے گھبرا کر اس نے وہاں کے مظلوم مسلمانوںکو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ دوسری طرف سیاسی عیاری کے طور پر مودی نے اپنی شبیہ بدلنے اور کانگریس کو دھول چٹانے کے لئے اور مسلمانوں میں اپنی پیٹھ بٹھانے کی کچھ کوششیں کی ہےں ۔ کچھ اسکا اثر ہوا، کچھ مسلمان بے سہارا اور خوفزدہ ہیں، مودی نے ان کے درمیان سے ہی بلدیاتی انتخابات میں امیدوار کھڑے کردئے، چنانچہ گجرات کے مسلمانوں نے سیاسی حکمت عملی کے طور پر ان کو ووٹ دیا ۔چنانچہ کانگریس ہاری اورمسلم ووٹ سے بھاجپا جیتی۔ جہاں تک مسلمانوں کے مخصوص مسائل کا تعلق ہے ،تو مودی سرکار کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ابھی ۴ اپریل کو گجراتی تاجر ظفر سریش والااور مولانا محمد علی مانیار کی قیادت میں (بوہرہ) مسلمانوں کے ایک وفد نے مودی سے ملاقات کرکے گزارش کی تھی کہ ریاست میں غریب مسلمانوں خصوصاً ٹھیلی، پٹری والوں کو آزار میں مبتلا نہ کیا جائے۔ مگرمودی نے دوٹوک جواب دیدیا ، ہم خاص مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کرسکتے، جو کریں گے سب کے لئے کریں گے۔ عبدالرشید انصاری کو گجرات کی بھاجپا سرکار کی اس مسلم دشمنی کا بھی شاید علم نہیں کہ مرکز کی طرف سے تعلیمی طور پر پسماندہ مسلم خاندانوں کے بچوں کے لئے وظائف کی اسکیم کو مودی نے قبول نہیں کیا اور ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود ابھی تک اسکیم کا نفاذ عمل میں نہیںآیا ہے۔ مسٹر انصاری کی نظر میں یہ سب ”مسلمانوں کی غلط فہمیاں، اندیشے وسوسے“ ہیں جو ان کے خیال سے مسلمانوںکو دور کرلینے چاہیں؟ غور فرمائے ہمارے بھی ہیں مہربان کیسے کیسے؟

خیر بات وزیر اعظم کے خیالی منصب کے لئے بھاجپا میں جاری رسہ کشی کی چل رہی تھی۔ اب اس میدان میں مدھیہ پردیش کے وزیر اعلا شیوراج چوہان بھی کود پڑے ہیں۔ انہوں نے ۸ اپریل کی شب این ڈی ٹی وی پر ایک طویل انٹرویو میںمودی کے ترقیاتی ماڈل کی قلعی کھول دی اور دعوا کیا کہ ان کی ریاست میں ترقی کی شرح گجرات سے بہترہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب ان کی خاص حریف اوما بھارتی بھی ان کی تائید میںآگئی ہیں۔ بھوپال میں ۷ اپریل کو پارٹی دفتر میں ایک تقریب میں انہوں نے چوہان سرکار کی خوب تعریف کی۔ دیکھنا یہ ہے کہ مئی 2014ءآتے آتے اور کتنے دعویدار پیدا ہوتے ہیں۔ آڈوانی جی کے بعد لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر سشما سوراج اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ارن جیٹلی بھی دوڑ شامل ہیں۔ سشما جی کی تو شوسینا کھل کر حمایت بھی کرچکی ہے۔ درحقیقت باجپئی کے منظرعام پر ہٹ جانے اور آڈوانی کو ہٹادئے جانے کے بعد ان میں دونوں شبیہ نظرآتی ہے۔باجپئی کی طرح اچھی مقرر ہیں اور آڈوانی کی طرح سیاسی ضدی۔مہذب خاتون ہیں، پارٹی کے ہر لیڈر کی عزت کرنا جانتی ہیں، اس لئے ان کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟

اگر چہ پارٹی لیڈر یہ دعوا کررہے ہیں کہ اس بار فضا بدلی ہوئی ہے، مگر گزشتہ ایک سال کے دوران جو چناﺅ ہوئے ہیں ان کے نتائج سے نہیںلگتا کہ بیار بھاجپا کے حق میں چل پڑی ہے۔ لیکن وزیراعظم کے منصب کا خواب ہر ایک پریشان کئے ہوئے ہے۔ابھی ۵ مئی کو ایک بڑا امتحان کرناٹک میںہونے والا ہے ، اس کے نتائج ہی بتائیں کے اس خواب میں کتنا دم ہے؟ اندازہ یہ کیا جارہاہے کرناٹک اسمبلی چناﺅ میں بھاجپا کے غبارے کی ہوا نکل جانے والی ہے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163237 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.