ہم کیوں صادق اور امین نہیں بننا چاہتے؟

تحریر: محمد اسلم لودھی

پاکستان دنیا کا شاید وہ واحد ملک ہے جہاں صدر سے لے کر وزیر اعظم تک اور وزیراعظم سے لے کر وزیروں اور مشیروں تک بیشتر ایسے افراد کلیدی عہدوں پر فائز رہے ہیں جن کے خلاف نہ صرف ملکی عدالتوںمیں مقدمات کی بھرمار رہی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی کرپشن اور بددیانتی کی بنا پر ملک کی بدنامی کا باعث بنتے رہے ہیں ۔یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ایسی ہی مقتدر اور کرپٹ شخصیات کے اربوں ڈالر غیرملکی بنکوں میں جمع ہےں یہ رقم اگر پاکستان میں واپس آجائے تو پاکستان کی تمام مالی پریشانیاںختم ہو سکتی ہیں۔ پاکستان میں ایک چھوٹے صارف کو دس بیس ہزار واپس نہ کرنے کی بناپر جائیداد کی قرقی کے ساتھ ساتھ جیل بھی جانا پڑتا ہے لیکن بنکوں اور سرکاری اداروں کے اربوں روپے ڈیفالٹ کرنے والے نہ صرف آزاد ہیں بلکہ کسی نہ کسی طرح منتخب ہوکر اسمبلیوں میں بھی پہنچ جاتے ہیںوہاں قانون سازی کرنے کی بجائے لوٹ کھسوٹ میں ایسے مصروف ہوتے ہیں کہ کوئی ان کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہوتا ۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف دیگر وزیروںاور مشیروں کی کرپشن کی داستانیںاب تو زبان زد عام ہوچکی ہیںلیکن وہ ایک بار پھر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ حالیہ الیکشن میں پہلی مرتبہ آئین کی شق 62 اور 63 گلے کی ہڈی بن رہی ہے ۔بطور خاص ریٹرنگ افسروں کی جانب سے جب امیدواروں سے چھ کلمے ، دعائے قنوت سنانے ، نماز کی رکعتیں پوچھنے ، نماز جنازہ کی ادائیگی اور قرآنی آیت کے بارے میں استفسار کیا گیا تو ایک وسیع حلقہ سراپا احتجاج نظر آتا ہے اور ریٹر نگ افسروں کے سوالات پاکستانی قوم کی نمائندگی کرنے کا شوق رکھنے والے افراد کے لیے توہین کا باعث بن رہے ہیں ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم کسی ادارے میں اکاﺅنٹنٹ بھرتی کرتے ہیں تو ایم بی اے کی ڈگری کے ساتھ ساتھ، تحریری اور زبانی امتحان بھی لیتے ہےں جس میں جنرل نالج ، پاکستان اور ذاتی شخصیت کے بارے میں سوال پوچھے جاتے ہیں لیکن وہ شخص جو اٹھارہ کروڑ انسانوں کی نمائندگی کرنے کے لیے ملک کے سب سے بڑے قانون ساز ادارے کا رکن بننا چاہتا ہے اس کے لیے نہ تعلیمی قابلیت کو معیار تصور کیا جارہا ہے نہ دین کی سمجھ بوجھ کو پرکھنے اور نہ ملکی مسائل کے بارے میں ان سے سوالات کرنے دیئے جارہے ہیں اس پر حجت یہ پیش کی جارہی ہے کہ اگر قائداعظم اورعلامہ اقبال بھی زندہ ہوتے تو شاید وہ بھی آئین کی شق62 اور 63 پر پورا نہ اتر سکتے ۔ ایسا کہنے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کیا یہ ضروری ہے کہ جن علوم کا قائداعظم اور علامہ اقبال کو مکمل طور پر علم نہیں تھا اب بھی ایسے علوم کو جاننا ضروری نہیں رہا ۔یہ کس دانش ور نے کہا ہے کہ وہ شخص بھی الیکشن میں حصہ لینے کا اہل ہے جو خود شراب پینے ، زنا کرنے ، بددیانتی میں ملوث ہونے اور دیگر خرافات میں مبتلا ہونے کا نہ صرف برملا اظہار کرتا ہو بلکہ ملکی عدالتوں میں اس کی کرپشن ، بددیانتی کے مقدمات بھی زیر سماعت ہوں ۔ اگر رکن اسمبلی کو خود نماز پڑھنی نہیں آتی ، زکوہ کی اہمیت سے وہ آگاہ نہیں ، حج کی فرضیت سے ناآشنا ہے تو وہ کس طرح قوم کی امامت کرسکتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ سمیت تمام خلفائے راشدین نہ صرف امامت فرماتے تھے بلکہ خزانے کو عوام کی امانت تصور کرتے تھے لیکن دین سے دوری ، خوف خدا نہ ہونے کی بنا پر پاکستان کا ہر رکن اسمبلی وزیر اور مشیر سرکاری خزانے کو باپ کی جاگیر تصور کرکے مال مفت دل بے رحم کی طرح لوٹتا چلا آ رہا ہے ۔ ہم ایک اسلامی ملک کے شہری ہیں اور اسلامی ملک کی اسمبلی کا ممبر بننے کے خواہش بھی اگر رکھتے ہیں تو ہمیں نہ صرف نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ ، دین اسلام ، نمازوں کی ادائیگی، دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ عوامی حقوق کی ترجمانی کی وہ مثالیں ضرور یاد ہونی چاہیئے جو نبی کریم ﷺ نے اپنے زندگی میں بہترین منتظم کی حیثیت سے قائم کی تھیں ہمیں الیکشن میں حصہ لینے سے والے ایسے امیدواروں کا انتخاب کرنا چاہیئے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جیسے کردار اور صفات کے حامل انسان ہوں ۔ افسوس کہ ہم یہ کہہ کر اپنی جان چھڑوا لیتے ہیں کہ ہم نہ تو نبی کریم ﷺ کے معیار پر پورا اتر سکتے ہیں اور نہ ہی خلیفہ دوم کی صفات خود میں پیدا کرسکتے ہیں ۔ مگر کیوں ۔کیانبی کریم ﷺ کی اسوہ حسنہ پر عمل کرنے سے ہماری شان کم ہوتی ہے ہم خلفائے راشدین کی طرز حکمرانی کو کیوں نہیں اپناتے ۔ اگر اس معیار کو قائم رکھتے ہوئے ہم امیدواروں کا انتخاب کریں گے تب ہی پاکستان کو حقیقی اور فلاحی اسلامی ملک بنایا جاسکتا ہے وگرنہ وہی لیٹروں( جو گزشتہ 65 سال میں روپ بدل بدل کے برسراقتدار آتے رہے ہیں پاکستانی قوم اور اس کے مسائل کو بھول کر اپنی تجوریوں کو بھر کر رفع چکر ہوجاتے رہے ہیں) پھر برسراقتدار آجائیں گے ۔ ان حالات میں ہرامیدوارفرار کے بہانے ڈھونڈ کر کسی نہ کسی طرح خود کو اسمبلی کا رکن بنانے کی جستجو میں لگا ہوا ہے ۔ ایسے دین بیزار ، قومی اور بین الاقوامی مسائل سے ناآشنا ، عوامی حقوق سے بے بہرہ افراد منتخب ہوکر قوم کی کیا خدمت سرانجام دیں گے ۔آئین کی شق 62 اور 63 کو جنرل ضیا ءالحق کا تحفہ قرار دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی بجائے اٹھارہ کروڑ عوام سے ایسے پانچ سو باکردار اور دیانت دار نمائندے تلاش نہیں کیے جاسکتے جو دینی اور دنیاوی علوم اور جدید علوم معاشیات اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں مہارت رکھتے ہوں ۔میں سمجھتا ہوں کہ منتخب اراکین اسمبلی کے لیے مذہبی درسگاہوں اور یونیورسٹیوں میں تمام شعبہ جات کے بہترین اساتذہ کر نگرانی میں کورسز کا اہتمام ہونا چاہیئے تاکہ یہ منتخب لوگ قوم پر بوجھ بننے اور سرکاری خزانے کی لوٹ مار کرنے کی بجائے قومی اور عوامی مسائل کے ادراک کے ساتھ ساتھ ان کے حل کرنے کے اہل ہوسکیں ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 116658 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.