بعض لوگ ہمارے کالموں پر ای میل
کے ذریعے بڑی تنقید کرتے ہیں کہ جناب ملک میں اچھا خاصا جمہوری نظام چل رہا
ہے جمہوریت پنپ رہی ہے اور آپ ہیں کہ جب دیکھوں جمہوریت کا پوسٹمارٹم کرنے
بیٹھ جاتے ہیں اور سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ جو اِس جمہوریت کے حامی لوگ ہیں
ان کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔پہلے تو ہم اپنے محترم دوستوں کا
شکریہ ادا کرنا چاہیں گے کہ وہ مجھ جیسے ہلکا پھلکا قلم چلانے والے لکھاری
کی تحریریں پڑھتے ہیں اور اس پر اپنی مخلصانہ رائے دے کر ہماری بھی اصلاح
فرماتے ہیں جس کے لیے ہم اپنے تمام قارئین کے تحہ دل سے مشکور ہیں ۔اب بات
کر تے ہیں موجودہ جمہوریت اور جمہوری نظام کی۔قارئین پہلی بات تو یہ ہے کہ
ہم نے کبھی بھی جمہوریت کی مخالفت نہیں کی بلکہ اگر آپ غور کریں تو ہمارے
اب تک کے تمام کالم جمہوریت کے حق میں اور اس کے فروغ کے لیے ہی ہیںلیکن
حقیقی جمہوریت کے لیے نام نہاد بے مقصد اور جھوٹ پر مبنی جمہوریت کے لیے
نہیں جہاں تک موجودہ جمہوریت پر یا موجودہ جمہوری سسٹم پر تنقید کرنے کی
بات ہے تو میری ان دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اللہ
تعالیٰ کو حاضر ناضر جان کر بتائیں جو جمہوری نظام ہمارے ملک میں اس وقت چل
رہا ہے کیا وہ واقعی جمہوریت ہے۔۔؟کیا اِس جمہوریت سے جو مسلسل پانچ سالوں
سے اپنے پورے جوبن کے ساتھ قائم و دائم رہی اُس سے ِاس ملک کے کسی ایک غریب
کی داد رسی ہوسکی کسی ایک مظلوم کی پکار سنی جاسکی، مہنگائی کے طوفان سے اس
عوام کو چھٹکارہ دیا جاسکا۔ جس کے واسطے جمہوریت کا جمہور بنتا ہے اُس
جمہوریت نے غریب کا پیٹ بھرا یا امیروں کی تجویریاں ۔۔۔؟آپ خود بتائیں آج
جمہور سے بننے والی جمہوریت کے نام پر ملک میں سیاسی اجارہ داری کا بازار
نہیں لگا ہوا ۔کیا آج کی جمہوریت میں کسی غریب کی رسائی ایوانِ بالا میں
ممکن ہے ،کیا آپ کو الیکشن کے بعد پارلیمنٹ میں وہی بھگوڑے، لیٹرے،ملک کو
ڈھنسنے والے سپیرے نہیں ملیں گے۔ کہنے کو توآج ہر کوئی جمہوریت کے ڈنکے بجا
رہا ہے جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگا رہا ہے خاص کر ہمارا آزاد میڈیا جو
آزادی کے نام پر بے لگام گھوڑے کی طرح اپنی ذاتی ریشاروانیوں کے ساتھ سیاست
کے میدان میں اپنی طاقت کے جوہر دکھاتا پھر رہا ہے ۔ہم اِن ڈنکے بجا والوں
کو جمہوریت کا شور مچانے والوں کو کہتے ہیںذرا اس ملک کی غریب مفلسی میں
گھری عوام پر ایک نظر ڈالےں ان کے گھروں میں جھانکیں ان کے چہروں کو پڑھیں
ان کی آنکھوں میں بے بسی کی فریا دکو سنیں اور پھر گائیں اس ملک کی 18
کڑوڑعوام کی درد سے نکلی چیختی آوازوں کے سُرومیںجمہوریت کے گیت۔محترم
قارئین بات پھر وہیںآجاتی ہے کہ جمہوریت کے سہانے گیت گانے والے یہ لوگ،
جمہوریت کے سرُلگانے والا ہمارا آزاد میڈیا اور ہمارے ریاستی ادارے سب مل
کر بھی جمہوریت کے گذشتہ پانچ سالوں سے آج تک ملک میںان جمہوری سیاستدانوں
سے حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے لوکل گورنمنٹ کی صورت میں جمہوریت کی ایک
نرسری لگوانے تک میں کامیاب نہ ہوسکے اس نظام کو نہ لاسکے جو حقیقی جمہوریت
کی پہچان اور غریب ومظلوم عوام کی آواز بن سکتی ہے جس سے حقیقی جمہوریت کا
ایک نیا سفر شروع کیا جاسکتا ہے جو حقیقی غریب عوام کی رہنمائی اور
نمائندگی کا مﺅجب بن سکتی ہے۔لیکن یہ تبدیلی آئے تو کیسے ہمارے یہاں تو ہر
ایک بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتا ہے۔پاکستان میںموجودہ ہونہار جمہوریت
نے جس طرح اپنے پانچ سال پورے کرنے کے بعداپنی ہی نگرانی میں اپنے وفاداروں
کو جس انداز سے انعام و اکرام سے نوازا ہے وہ واقعی اپنی مثل آپ ہے۔ (
جمہوریت کی ان روشن مثالوں کی تقلید آنے والے وقتوں میں کون کون کرتا ہے یہ
تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ان زندہ مثالوں نے جمہوریت کی آڑ میں
صحافی برادری کے خوابوں کوجو جِلا بخشی ہے اس سے صحافتی اصولوںپر کیا اثر
ہوگا یہ بہت جلد آگے جاکے پتا چل جائے گا۔ہمارے آزاد میڈیا نے برسوں بعد جو
آزادی حاصل کی تھی آج وہ میڈیا خود اپنی موت کا سامان تلاش رہا ہے جو میڈیا
عوام کی آواز کے لیے اٹھا تھا وہ آج کرپٹ سیاست دانوں اور کرپٹ نظامِ سیاست
کی رہنمائی کرتا دکھائی دے رہا ہے ۔آزاد میڈیا کے جو اداکارجمہوریت زندہ
باد کا نعرہ لگاتے ہوئے جمہوریت کی نگراں آغوش میں آبیٹھے ہیںوہ شاید اپنے
خوابوں کو تو زندہ تعبیر ہوتے دیکھ لیں لیکن اس ملک کی غریب عوام کی آنکھوں
میں برسوں سے اُمڈتے خوابوں کوجو کب سے آنسوں بن کر بہے رہے ہیں شرمندہ
تعبیر نہ کر سکیں۔ کیونکہ ہمارے آزاد میڈیا نے خود کو اُس نام نہاد جمہوریت
کے کوزے میں قید کرلیا ہے ۔جو صرف سراب کے سوا کچھ نہیں ۔اس لیے محترم
قارئین کوئی اس جمہوریت کوحقیقی عوامی جمہوریت مانتا ہے تو مانے
لیکن۔۔۔ایسے دستور کو صبح ِبے نور کو ۔۔۔میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا۔۔۔! |