پاک٬ افغان٬ امریکہ اور مشرف

پرویز جنرل مشرف کی جانب سے امریکی بلاغ میں انٹرویو سامنے آگیا ہے کہ انھوں نے امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دے دی تھی اس کی وجوہات کیا تھی اس پر بحث فضول ہے کیونکہ کسی بھی گروپ سے معائدے کا یہ مطلب ہوتا کہ ہر حکومت دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے عزم رکھتی ہے ، لیکن بے گناہوں کے قتل عام کا معائدہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور عالمی جرم ہے جس میں امریکہ اور مشرف برابر کے شریک ہیں بظاہر یہ بتایا گیا کہ قبائلی علاقے ہوں یا اندرون ملک یا بیرون ممالک سے ہر قسم کی دہشت گردی کی روک تھام کرنے کےلئے حکومتی رٹ قائم ہوسکے۔ امریکہ و افغانستان جنگ کے دوران دوسرے کئی ذرائع اور ممالک نے سابق صدر پرویز مشرف پر امریکی حمایت کا الزام عائد کیا تھا جیسے بعض وقت مشرف اور صدر بش کے بیانات زائل کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے اور دوسری جانب افغانستان میں تعینات پانچ ممالک امریکہ ، برطانیہ ، کینیڈا ، دنمارک اور ہالینڈ کی نیٹو افواج کے کمانڈروں نے اپنی حکومتوں سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ طالبان کی حمایت پر پاکستان کے خلاف سخت رویہ اپنایا جائے۔برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے اپنی اشاعت میں طالبان کے خلاف کئے جانے والے "آپریشن میڈوسا"سے متعلق نیٹو رپورٹ میں پاکستانی ایجنسی پر ہتھیار فراہمی کا الزام عائد کیا تھا ۔مختلف ادوار میں ایسی نوع کی خبروں کو اکھٹا کیا جائے تو تو اس صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ پاک، امریکہ اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں عدم اعتماد کا عنصر زیادہ نمایاں رہا ہے۔گو کہ 37ممالک کی اکتیس ہزار سے زائد غیر ملکی افواج نے افغانستان میں قابض رہنے کےلئے بھرپور کوشش کیں لیکن طالبان کی جانب سے انھیں بڑا سخت وقت دیا گیا ، پاکستان کی جانب سے جب بھی عسکرےت پسندوں کے ساتھ معاہدات کئے جاتے ہیں تو پاکستانی عمل ان ممالک کےلئے پریشانی اور بے چینی کا سبب بن جاتا ہے جوپاکستان میں پائدار امن کے خواہاں نہیں ہوتے۔سابق صدر پرویز مشرف ہمیشہ امریکہ کے منظور نظر رہے ہیں ۔ ایک موقع پر امریکی وزیرخارجہ کونڈا لیزارائس نے امریکی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دےتے ہوئے کہا تھا کہ"انھوں نے ابھی ایسے پاکستان کے بارے میں نہیں سوچا جو صدر جنرل پرویز مشرف کے بغیر ہو۔"امریکہ نے سابق صدر پرویز مشرف کو بطور اتحادی ہمیشہ داد تحسین بخشی ہے کہ نائن الیون کے بعد انھوں نے امریکی مفادات کے لئے ڈرامائی انداز میں ملکی صورتحال میں تبدیلی پیدا کی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کےلئے بھرپور کوششیں کیں۔حالاں کہ سابق صدر اس بات کا انکشاف کرچکے تھے کہ انھیں امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ آرمیٹج نے ان کے ڈائریکٹر انٹیلی جنس کو دہمکی دی تھی کہ ا"گر پاکستان نے امریکہ کا ساتھ نہ دیا تو بمباری کرکے اسے پتھر کے دور میں پہنچا دیا جائے گا۔"گو کہ بعد میں اس انداز کو تبدیل کرکے کہا گیا کہ پاکستان فیصلہ کرے کہ ہمارے ساتھ ہے کہ خلاف،حیرت ناک بات یہ تھی کہ نیٹو نے اپنی رپورٹ میں جو ڈیلی ٹیلی گراف میں شائع ہوئی تھی ، نیٹو کمانڈر کے حوالے سے ایک بیان شائع کیا تھا کہ "اب وقت آگیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو اعلی ترین سیاسی سطح پر یہ واضح پیغام پہنچا دیا جائے کہ وہ فیصلہ کریں کہ آیا وہ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف"۔ یقینی طور پر اس وقت پرویز مشرف کے فیصلے نے خطے میں صورتحال تبدیل کرکے امریکہ کو افغانستان میںمداخلت کا جواز فراہم کردیا ۔ امریکہ افغانستان میں براہ راست کبھی بھی داخل نہیں ہوسکتا تھا جب تک پاکستان کی حمایت اُس کے ساتھ نہیں ہوتی ۔ سابق صدر مشرف کے خدشات اپنے جگہ قابل غور ضرور ہیں کہ اُس وقت کیا جانے ولا فیصلہ بڑا سخت تھا کیونکہ انکار کی صورت میں امریکہ بھارت کو استعمال کرسکتا تھا اور پھر پاکستان بیک وقت تین محاذ پر لڑنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا ۔ اب ہم ایسے پاکستان کی اپنی مرضی سمجھیں یا زبردستی ، لیکن تاریخ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ فیصلہ بہرصورت پاکستان کی سلامتی کے خلاف گیا اور پاکستان بیرونی جنگ میں ایک بار ، کچھ اس طرح الجھا کہ اب اُس کےلئے نکلنے کے راستہ انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔امریکہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ہر مرتبہ ملبہ پاکستان اور اس کے عسکری ادادروں پر ڈالنے کی سعی کرتا رہتا ہے ۔جس کا لازمی پہلو یہی ہے کہ ہمیں مستقبل میں انھیں خطوط کو خاص طور پر غور کرنا ہوگا۔پاکستان میں قیام امن کی راہ میں سب سے رکاﺅٹ امریکہ اور افغانستان کا سخت رویہ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ افغانستان نے سرحدوں پر باڑ لگانے کی ہمیشہ مخالفت کی کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے افغانستان کا علاقہ کم ہوجائے گا اور سرحد کے دونوں جانب رہنے والے منقسم ہوجائیں گے۔امریکہ ، ملا عمر کی حکومت ختم کرکے پاکستان کی مدد سے افغانستان میں گھسنے میں کامیاب تو ہوگیا ،اُس نے جس قسم کے لاجسٹک سپورٹ مانگی ، ہم نے چوں چرا کئے بغیر ان کا ہر مطالبہ پورا کیا اور دنیا کی واحد"سپر پاور"کے آگے لڑے بغیر گھٹنے ٹیک کردئےے۔مگر افغانوں نے اپنی روایت کے مطابق امریکہ کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا اور تادم تحریر ہر سطح پر بھرپور مزاحمت جاری ہے۔اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ افغان حکومت ،ملا عمر کو صدارتی منصب کےلئے انتخاب لڑنے کی پیش کش کر رہے ہیں اور دنیا ورطہ حیرت میں ہے کہ جس حکومت کے خلاف 37ممالک یکجا ہوئے اور افغانستان کو تہہ وبالا کرڈالا آج وہی ممالک اٰسی "خطرناک شخصیت" کو صدارتی منصب کےلئے دعوت دے رہے ہیں۔افغان حکومت کی عمل داری صرف کابل تک محدود ہے اس لئے وہ اقتدار پر قابض رہنے کےلئے افغانستان میں ہونے والی ہر کاروائی کا الزام پاکستان پر لگا دےتے ہیں۔سابق صدر پرویز مشرف پر پاکستان سے غداری کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے ، جبکہ اس سے قبل جامعہ حفصہ ،لال مسجد اور اکبر بگٹی قتل کیس جیسے معاملات ان کےلئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ پاکستان نے اُن حالات میں جو بھی فیصلہ کیا ، اُس میں سراسر نقصان پاکستان کا ہوا۔مگراس حقیقت کو افغانستان اور امریکہ کی جانب سے بہت کم تسلیم کیا جاتا ہے۔پاکستان امریکہ مطالبات اور کرزئی الزامات کو بڑی بر باری سے برداشت کر رہا ہے،اب ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ فیصلہ کرلے کہ ایسے پاکستان کا اتحادی بنے رہنے کےلئے افغانستان کی جانب سے پاکستانی علاقوں میں بم باری چھڑپوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔اگر امریکہ اور افغانستان اپنا رویہ درست نہیں کرتا تو پھر ایسے اپنی جنگ خود لڑنے کےلئے ذہنی طور پر تیار ہوجانا چاہیے ، اگر ان کے روئےے درست نہیں ہوتے تو مزید نقصان بلا شبہ پاکستان کا بھی ہوگا لیکن اس مضمرات سے افغانستان اور امریکہ بھی محفوظ نہیں رہ سکےں گے۔پاکستان اس وقت انتخابی عمل کے نازک دور سے گذر رہا ہے ، سابق صدر پرویز مشرف امریکی خوشنودی حاصل کرکے پاکستان میں آچکے ہیں لیکن جس طرح انھیں خلاف توقع عوامی ردعمل کا سامنا ہوا ہے یہ عمل تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے لئے سبق آموز ہے کہ امریکہ ہو یا سعودیہ ہو ۔پاکستانی امور میں مداخلت ضرور کرسکتا ہے لیکن عوامی راہ عامہ کو ہموارنہیں کرسکتا۔افغانستان امریکہ کو اپنے رویوں میں تبدیلی کرنا ہوگی۔ پاکستانی عوام جمہوری شعور کے عمل سے گذر رہی ہے ایسے سبوتاژ کرنے کی کوشش نقصان دہ ہوگی۔مشرف کی جانب سے اس اقرار کے بعد ضروری ہوجاتا ہے کہ اس پر بے گناہوں کے قتل عام پر عالمی عدالت میں دہشت گردی کا مقدمہ چلایا جائے اور امریکی دوستی کے نام پر پاکستان امریکہ سے الگ ہوجائے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 659035 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.