مملکت میں جمہوریت عوام کی ہوتی
ہے اور عوام کے ذریعہ سے ہی حکومت بنتی اور بگڑتی ہے۔ ویسے تو جمہوریت کی
تعریف میں مختلف طبقہ فکر نے اپنا اپنا انداز بیان کر رکھا ہے۔ مگر وہ عوام
ہی ہیں جو جمہوریت کے محور ہوتے ہیں، اس لئے جمہوری نظام کے ڈھانچے میں
عوام کے مقام اور اس کی ذمہ داریوں پر غور ضروری ہے۔ جمہوری طرزِ حکومت کی
خامیوں پر اکثر دلیل پیش کیا جاتا رہا ہے کہ اس نظام میں صرف لوگوں کے سَر
گِنے جاتے ہیں، صلاحیت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ایسا بالکل نہیں ہے جناب!
یہاں عوام سے مراد ووٹرز ہیں ایسے افراد جو بالغ، تعلیم یافتہ، ذی شعورہوتے
ہیں ، اس لئے جمہوریت کے لئے پہلی شرط تعلیم ہی ہے۔جہاں معاشرے میں لوگ
تعلیم یافتہ نہیں ہونگے اُس معاشرے میں دیگر شرائط کی تکمیل کے باوجود
جمہوریت کامیاب نہیں ہوتی۔ کیونکہ ایک غیر تعلیم یافتہ شخص اپنے حلقہ اور
اپنے ملک کے سلسلے میں کس طرح فیصلہ کر سکتا ہے۔
پاکستان میں انتخابات اپنے پورے شباب پر ہیں۔ پولنگ قومی و صوبائی اسمبلیوں
کے لئے ایک ہی دن ہونے کو ہیں۔ ہر سیاسی جماعت اپنی نیّا پار لگانے کی جد و
جہد میں مصروفِ عمل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کیا فیصلہ کرتی ہے۔ شیخ
رشید احمد اپنے تجزیے جو کہ وہ اکثر و بیشتر میڈیا پر کرتے پائے جاتے ہیں
اس سے راقم بہت حد تک متفق ہے کہ یہ الیکشن وہ خونی دیکھ رہے ہیں۔ ان کی
دوسری بات کہ ووٹ عوام نے ڈالنا ہے اور اس بار عوام نے درست فیصلہ نہیں کیا
اور تبدیلی نہیں لائے تو پھر اِنَّاللّٰہِ وَاِنَّا عَلِیہِ رَاجِعُون۔
بالکل ٹھیک تجزیہ کیا ہے انہوں نے ، اب فکر عوام کو ہی کرنا ہے کیونکہ گیند
اب عوام کے کورٹ میں ہے۔ دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ جس طرح سے ملک بھر
میں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائی گئی ہے اس لسٹ پر نظر ڈالی جائے تو اس بار
بھی انہی لوگوں کا نام آتا ہے جنہوں نے پچھلے پانچ سال تک عوام کی داد رسی
نہیں کی۔ ان ناموں میں اکثریت موروثی سیاست کے لوگ، جاگیردار، وڈیرے ہی کا
نام اُجاگر ہے ، سوائے ایک دو جماعت کے کہ جن کے امیدوار اعلیٰ تعلیم یافتہ
اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس سے یہ بات عیاں ہے کہ اسمبلی میں کچھ
لوگ تو پڑھے لکھے آنے والے ہیں جبکہ اکثریت تو جعلی ڈگری کے زیرِ اثر
ہیں۔اس سلسلے میں لکھنا تو بہت کچھ چاہتا ہوں مگر طوالت کے خوف کو مدنظر
رکھتے ہوئے ایک شاعر کے چند شعروں پر ہی اکتفا کرتا ہوں اس شعر سے مسائل کے
تمام پہلو اُجاگر ہوتا نظر آتا ہے۔
نتیجہ پھر وہی ہوگا سنا ہے چال بدلیں گے
پرندے وہی ہوں گے بس شکاری جال بدلیں گے
بدلنا ہے تو دن بدلو ‘ بدلتے کیوں ہو ہندسوں کو
مہینے پھر وہی ہوں گے سنا ہے سال بدلیں گے
چلو ہم مان لیتے ہیں مہینہ ساٹھ سالوں کا
بتاﺅ کتنے سالوں میں ہمارے حالات بدلیں گے
اگر کسی ملک میں یہ چلن عام ہو جائے کہ جو امراءہیں انہیں ہی ہر موقع پر
نوازا جائے۔ ہر معاملے میں ان سے ہی رائے مشورہ طلب کیا جاتا رہے اور ریاست
کے دوسرے عوام و شہریوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر وہ ملک کسی طرح
بھی ترقی نہیں کر پاتا چاہے وہاں کے ارباب ترقی کے کتنے ہی جتن کر تے رہیں۔
ہمیشہ یہ بات ذہن نشین ہونا چاہیئے کہ ملک سرحدوں، مکانوں، عمارتوں،
کارخانوں اور بلڈنگوں کا نام نہیں ہے بلکہ ملک کی تعمیر شہریوں اور باشندوں
کے دم خم سے ہوتی ہے۔ اگر ارباب چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں برائیاں نہ ہوں۔
فحاشی و عریانیت جیسی لعنت نہ ہو، تو لازم ہے کہ ان راستوں کو ہی مسدود کر
دیا جائے جہاں سے یہ ناسور پھوٹتے ہیں اس میں کسی حیلے بہانے اور مصلحت
پسندی کو آڑے نہ آنے دیا جائے۔ ایک طرف حالات و واقعات پر افسوس کا اظہار
کیا جاتا ہے تو دوسری جانب سے کسی نہ کسی طرح ان کی حوصلہ افزائی بھی کی
جاتی ہے تو پھر ان کا رُکنا محال نظر آتا ہے۔
گیارہ مئی 2013ءکو پاکستان میں انتحابات کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ عروج پر ہے۔ کتنے ہی بے گناہ لوگ روزانہ
اپنے عزیزوں کو داغِ مفارقت دے جاتے ہیں اور کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ نگراں
حکومتوں کے آنے پر لوگوں کو ایک امید بندھی تھی کہ وہ حالات کو کنٹرول کر
لیں گے مگر ایسا نہیں ہوا ۔ آج بھی ٹارگٹ کلنگ میں پندرہ افراد لقمہ اجل بن
چکے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح دراز ہوتا رہا تو واقعی الیکشن خونی ہی ہوتا
نظر آ رہا ہے۔خدارا! امن و امان کے معاملے پر کوئی سودے بازی نہ کی جائے۔
عوام کے جان و مال کی حفاظت حکمرانوں کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے اس لئے
اس ذمہ داری کو پورا کیجئے ورنہ کل روزِ حشر آپ کی بخشش بھی ڈانواں ڈول ہی
لگتا ہے۔
لوگوں کا اعتراض الیکشن کمیشن پر بھی ہے اور فی الحقیقت ان احباب کا اعتراض
بجا بھی ہے کہ جو الیکشن کمیشن صرف کراچی میں حلقے کی سطح پر رد وبدل کر
دیتی ہے اور وہ بھی بغیر سینسز کے ، وہ ملک بھر میں شفاف الیکشن کے انعقاد
کو کیسے یقینی بنا سکتا ہے ۔ محترم جسٹس فخر الدین ابراہیم صاحب (فخرو
بھائی) اس پر توجہ ضرور دیجئے کیونکہ یہ نہ صرف ملک کی سلامتی بلکہ آپ کی
اپنی ساکھ کا مسئلہ بھی ہے۔ جن لوگوں نے بغیر مردم شماری کے حلقہ بندیوں یا
حلقوں میں رد و بدل کا فیصلہ کروایا ہے یا رپورٹ کی بنیاد پر ایسا ہوا ہے
تو ایسے کارندوں کا احتساب بھی آپ ہی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ایک آرمی یونٹ میں موزوں کی کمی ہوگئی۔ ایک دن
آرمی کمانڈر نے سپاہیوں سے کہا، سپاہیو!تمہارے لئے ایک بُری اور ایک اچھی
خبر ہے۔ اچھی خبر یہ کہ آپ اپنے پرانے اور گندے موزے تبدیل کرنے جا رہے ہو،
اور بُری خبر یہ ہے کہ آپ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے موزے تبدیل کرو گے۔ جی
ہاں! یہ موزے تبدیل کرنے والی بات بالکل ایسا ہی ہے جیسے پاکستانی جمہوریت
! ہم (عوام) ہر الیکشن میں اُن ہی پُرانے لیڈروں کو منتخب کرتے ہیں جو کہ
ذاتی مفادات کے باعث پارٹیاں اور پوزیشن تبدیل کر لیتے ہیں اور یقینا یہ ہی
لوٹا نظام پاکستان کے منجمد ہونے کی بڑی وجہ بھی ہے۔گو کہ بات کڑوی ضرور ہے
مگر ہے حقیقت اس لئے عوام ہوشیار باش رہیں! ووٹ مانگنے والے بہت آئیں گے
مگر دیجئے اپنی مرضی سے کسی دباﺅ میں آئے بغیر۔ جب میری نظر میں یہاں ابھی
بھی ایسی جماعتیں موجود ہیں جن کے لوگ لوٹے نہیں بنتے، تو پھر یقینا آپ کی
نظر تو اُن پر ہوگی ہی ۔ اس لئے اپنے اور اپنی قوم کے لئے پڑھے لکھے لوگوں
کو منتخب کیجئے جن کے دلوں میں عوام اور ملک کا چراغ روشن ہو تاکہ یہ ملک
بھی دن دُگنی رات چوگنی ترقی کر سکے۔اور اربابِ اختیار سے التجا ہے کہ
خدارا عوام کو امن و امان فراہم کریں کیونکہ امن و امان ہوگا تب ہی الیکشن
کا انعقاد بھی خوش اسلوبی سے ہو سکے گا۔خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ |