جب یہ کالم آپ تک پہنچے گا تو
یقینناً چوہدری ایاز امیر کی قسمت کا فیصلہ ہو چکا ہوگا ،ان کے کاغذات
ریجیکٹ یا ایکسیپٹ ہو چکے ہوں گے تاہم غالب امکان دوسری صورت کا ہی ہے ،کاغذات
منظور ہوں یا نا منظور, اس سے قطع نظر ہمیں صرف یہ گذارش کرنی بلکہ نہایت
ادب سے سوال کرنا ہے کہ ملک پاکستان کب تک ایک لیبارٹری یا تجربہ گاہ بنا
رہے گاجس میں جو جب چاہے مرضی کا آپریٹس سیٹ کر کے جس طرح کے چاہے تجربات
شروع کر دے،جب کبھی خدا خدا کر کے ہماری سمت سیدھی ہوتی ہے یا ہونے لگتی ہے
تو درمیان میں ہی کبھی کوئی ڈکٹیٹر خود ہی فیلڈ مارشل بن کر قوم کی گردن پر
سوار ہو جاتا ہے کبھی کوئی آمر نوے دن کا کہہ کہ گیارہ سال گذار دیتا ہے ،کبھی
کوئی کمانڈو کبڈی کبڈی کرتا ہوا ہم پر مسلط ہو جاتا ہے تو کبھی کوئی باہر
سے کسی اور ملک کا شہری جس نے وفاداری کا حلف کہیں اور اٹھا رکھا ہوتا ہے
انقلاب انقلاب کرتا ہوا ہوا کے گھوڑے پر سوار سرپٹ دوڑتا آتا اور دیکھتے ہی
دیکھتے دھواں بن کر اپنے انقلاب سمیت تحلیل ہو جاتا ہے ہمارا اصل مسئلہ کیا
ہے کیا یہی نہیں کہ ہر کوئی دوسرے کو نیچا دکھانے اور زچ کرنے کے درپے ہے
اور نہ جانے اس سے کس کی کس حس کی تسکین ہوتی ہے،ابھی یہ ہی دیکھ لیجیے کہ
کاغذات نامزدگی داخل کرانے والے امیدواروں کو ٹی وی کیمروں کے سامنے کس طرح
ذلیل کیا گیا ،صاحب اچھے بھلے بندے کا پتہ پانی ہو جاتا ہے کیمرے کے سامنے،
جو لوگ اس شعبے سے وابستہ ہیں وہ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ بڑے بڑے طرم
خانوں کی ریڈی کیمرہ آن کی آواز سنتے ہی ٹانگیں کانپنا شروع ہو جاتی ہیں
اور کئی ایک کو تو سردیوں میں پسینے سے شرابور ہوتے میں نے خود اپنی گنہگار
آنکھوں سے دیکھا ہے اس کہ علاوہ بھی نفسیات کے ماہر جانتے ہیں کہ اپنے آپ
میں بلا کا مقرر بھی اکثر اوقات مجمع دیکھ کہ حوصلہ چھوڑ بیٹھتا ہے اور اسے
یہی بتایا جاتا ہے کہ وہ ریہرسل اسی طرح کرے گویا اس کے سامنے لوگوں کا ایک
جم غفیر مو جود ہے ھالانکہ ہوتا وہ بے چارہ اکیلے کمرے میںاکیلا ہی ہے اور
یہ واجبی تعلیم یافتہ امیدوار جنھوں نے کیمروں کا سامنا کم کم ہی کیا ہوتا
ہے عدالت کے اندر اوپر سے کیمرہ لوگوں اور وکیلوں کی بڑی تعداد ان کو نروس
کر کے رکھ دیتی ہے اور جب ریٹرننگ افسران کے بعض بے تکے سوالات سے یہ لوگ
تھوڑا اپ سیٹ ہوتے ہیں تو اس سے بھی یا ر لوگوں نے تفریح کا پہلو نکال لیا
اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ یہ جو تمسخر اڑا رہے ہیں ان میں سے کوئی ایک
بھی دعائے قنوت تو کیا سونے جاگنے یا کھانے کی دعا ہی سنا دے تو اسے 62,63
کیا 70 نمبر بھی دیے جا سکتے ہیں، ویسے بھلا ہو ان امیدواروں کا کہ اگر
کوئی امیدوار کسی ریٹرننگ افسر سے ایسا ہی کوئی سوال پوچھ بیٹھتا تو پھر
ذرا تصور کریں کہ کیمرے آن ہوں کمرہ لوگوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا ہو اور
کوئی امیدوار کسی ریٹرننگ افسر پہ سوال داغ دے کہ جناب آپ کے سوال کا جواب
تو مجھے نہیں آتا مگر آپ بھی مسلمان ہیںذرا مجھے جنازے میں دو تکبیروں کے
بعد شامل ہونے کا طریقہ تو بتا دیں تو کیسا منظر بنتا، مقصد صرف یہ ہے کہ
سیکھنے سکھانے کا عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے ہے اور دعائے قنوت یادنہ
ہونے سے نہ کوئی کافر یا غیر مسلم ہو جاتا ہے نہ فاسق و فاجر،رہی بات باقی
معاملات کی توکون ہے اس وقت اس ملک کیا بلکہ دنیا بھر میں ایسا جس نے کبھی
زندگی بھر کوئی خطا نہ کی ہو جس نے کوئی چھوٹا موٹا جھوٹ نہ بولا ہو معصوم
عن الخطاتو پیغمبر ہوں گے یا فرشتے،یہ باسٹھ تریسٹھ آئی کدھر سے آئین میں ،جو
صاحب لائے تھے ان کا اپنا کردار کیا تھا کیا یہی نہیں کہ ایک صاحب جو آئے
ہی غلط طریقے سے تھے جنھوں نے ایک منتخب عوامی حکومت پہ نہ صرف شب خون مارا
بلکہ اس قوم کے ایک عظیم لیڈر کو عدالت کے ذریعے قتل بھی کروا دیادفتروں
میں لوٹے اور دریاں رکھ کر جناب نے اپنے تئیں پورے ملک میں اسلامی نظام کا
نفاذ کر دیا،انہی کے دئیے گئے ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کے تحفے آج پوری
قوم بھگت رہی ہے،انہوں نے آئین میں 62,63 بھی ڈال دیں جس کے تحت کوئی بھی
شخص جس نے زندگی کے کسی بھی مو ڑ پر جھوٹ بولا ہوگا وہ پارلیمنٹ کا رکن
منتخب نہیں ہو سکے گا،اور خود ان مر د مومن مرد حق صاحب نے جب اقتدار پر
غاصبانہ قبضہ کیا تو آتے ہی قوم سے وعدہ کیا کہ میں 90 دنوں میں انتخاب کرا
کے حکومت عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد کر دوں گا،جناب اگر اتنے ہی قوم
کے خیر خواہ ہوتے تو عوامی نمائندوں سے حکومت چھینتے کیوں اور پھر ساری
دنیا نے دیکھا کہ جناب پابندصوم صلوٰة اور تہجد گذار ڈکٹیٹر نے اپنی زبان
اور وعدے کا کیا پاس رکھا کہ نو ے دنوں کو کھینچ کھانچ کر گیارہ سال گذار
دیئے اور اگر اللہ تعالیٰ کو اس قوم پہ رحم نہ آتا تو مر د حق نے 90 سال
بھی اس قوم کی گردن سے نہیں اترنا تھایہ آئینی ترامیم ہر گز ہر گز اسلامی
نہیں ہو سکتیںالبتہ ضیاالحقی ترامیم ضرور ہیں یہ کیسی اسلامی ترامیم ہیں جو
مسرت شاہین کو تو قومی اسمبلی کی رکنیت کا اہل سمجھتی ہیں پر ویز مشرف جس
کی طبلہ نوازی ایک عالم میں مشہور ہے جو سر پر شراب کا گلاس رکھ کر بھری
محفل میں ناچتا رہا،جو چائینہ میں پوری دنیا کے کیمروں کے سامنے چینی
حکمرانوں کے ساتھ چیئرز کر کے پیتا رہا،جو اکثر پریس کانفرنس بھی ٹن ہو کر
کرتا ہے،اور تو اور جس نے ایک منتخب جمہوری حکومت پر قبضہ کیا،ایک دفعہ
نہیں دو دفعہ اس ملک کا آئین توڑا، ایمرجنسی لگا کر اس قوم کے بنیادی
انسانی حقوق معطل کیے،لال مسجد میں آگ وخون کی بارش برسا کر سینکڑوں معصوم
اور بعض حافظ قرآن بچے بچیوں کے خون سے ہولی کھیلی،جس نے سینکڑوں پاکستانی
اپنے غیر ملکی آقاﺅں کو چندٹکوں بلکہ ہڈیوں کے عوض بیچ ڈالے جس دختر فروش
نے اس قوم کی بیٹی تین معصوم بچوں سمیت بھوکے کتوں کو بیچ دی وہ مشرف
الیکشن لڑنے اور پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل ہے کیوں کہ وہ باسٹھ تریسٹھ
پر پورا اترتا ہے اور معروف دانشور اور انٹرنیشنل جرنلسٹ جس کے بارے میں
معروف دانشور مسعود اشعر کہتے ہیں کہ وہ انگریزی میں ادب لکھتا ہے،اسلم خان
کہتے ہیں کہ وہ نہیں تو کوئی بھی نہیں،بدترین مخالف حامد میر بھی کہتاہے کہ
ایاز امیر کے ساتھ سخت زیادتی ہوئی،مجاہد بریلوی نے کہا ایاز امیر کے ایمان
کو مشکوک بنانے والوں کا غالب اور اقبال کے بارے میں کیا خیا ل ہے،وہ ایاز
امیر نااہل ہے جو سب کچھ ہو گا مگر منافق ہر گز نہیں،جو حق اور سچ جابر
سلطان کے سامنے کہنا جانتا ہے،جس نے اپنی صاف گوئی اور بے باکی پر کبھی بھی
پارٹی رنگ غالب نہیں آنے دیا اور ناہلیت کی وجہ ملاحظہ ہو نظریہ پاکستان کے
خلاف کالم لکھا ذرا کوئی ہمت کر کے وضاحت کر ہی دے کہ نظریہ پاکستان ہے
کیا،ایاز امیر کے نہ آنے سے ایاز امیر کو تو شاید فرق نہ پڑتا مگر پارلیمنٹ
کی تو قیر میں وہ اضافہ نہ ہوتا جو ایاز امیر کے آنے سے ہو گا، حد ہوتی ہے
ڈھٹائی کی کہ مسرت شاہین اور پرویز مشرف اہل جبکہ ایاز امیر نا اہل ،اور وہ
بھی اسلام کے نام پر یہ کون سا اسلام کا چہرہ دنیا کو دکھایا جا رہا ہے کیا
مشرف نے پوری قوم کے ساتھ وعدہ نہیں کیا تھاکہ وہ دسمبر 2004 میں وردی اتار
دے گاپھر کیا حشر کیا اس نے اپنے وعدے کا اس نے تو وہ قسم بھی توڑ ی جو اس
نے روز اول اٹھائی تھی کہ میں آئین پاکستان کا وفادار رہوں گا اور میری
ساری توجہ ملکی دفاع اور سرحدوں پر محفوظ رہے گی پھر ذراسا موقع ملتے ہی نہ
کوئی وعدہ یاد رہا نہ حلف،دس گیارہ سال پاکستان پر قابض رہنے کے بعد خدا
خدا کر کے جان خلاصی ہوئی تو موصوف سب سے پہلے پاکستان کی جگالی کرتے ہوئے
لندن اور دبئی سدھار گئے اور جمہوری حکومت کے جاتے ہوئے ایک دفعہ پھر رال
ٹپکاتے نہ جانے کس زعم میں دوبارہ پاکستان آگئے اور آتے ہی الیکشن میںنہ
صرف حصہ لینے کا اعلان کر دیا بلکہ یکے بعد دیگرے چار جگہ سے اپنے کاغذات
نامزدگی بھی جمع کرا دیئے اور کمال حیرانی کی بات دیکھیئے کہ باسٹھ اور
تریسٹھ نے ان کا راستہ روکنے کی ذرا بھی کو شش نہ کی اور چترال سے ان کے
کاغذات بڑی آسانی سے منظور بھی ہو گئے اور یہ ایسی انہونی ہے جس نے اس ملک
کے ہر ذی ہو ش وذی شعور کو ورطہ حیرت میں ڈال دیاکیا کبھی کوئی باسٹھ
تریسٹھ کسی اصل مجرم کا بھی احاطہ کر سکے گی،یہاں کبھی قادیانی ہمارے بھائی
کیوں کہا کہہ کر نواز شریف کی واٹ لگا دی جاتی ہے اور کبھی حد ود آرڈیننس
کا صرف نام لینے والے بھی قابل گردن زنی،اس میں اصلاح کا مطلب نجانے کیوں
یہ لے لیا جاتا ہے کہ ایسا کہنے والا اس کو ختم کرانا چاہتا ہے، کوئی اپنی
قسم توڑ کر بچانے کی ڈیوٹی پر معمورحفاظت کے لیے دی گئی بندوق سے اپنے
گورنر کی جان لے لے تو مجاہد اور اگرکوئی کسی اقلیت کی پوری بستی جلانے کے
خلاف ایک لفظ بھی کہہ دے تو وہ غدار اور ایجنٹ اور پتہ نہیں کیاکیا،مگر آخر
میں ایک بات اور بھی عرض کرتا چلوں کہ اس سب میں قصور ان جہالت کے ماروں کا
نہیں کچھ قصور ہمارے سسٹم کا بھی ہے وہ سسٹم جس کو بنانے اور سنوارنے کے
لیے یہ سیاستدان عوام کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں آتے ہیں،اور اسمبلی میں
پہنچ کر اکثر ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں اب کی بار امید کی جاتی ہے کہ
خصوصاًً ایاز امیر اور وہ تمام دوسرے سیاستدان جوباسٹھ تریسٹھ کے عتاب سے
بال بال بچے اس سسٹم اور آئین میں موجود ہر ہر ضیاا لحقی کو ٹھیک کر دیں گے
ورنہ یہ ضیاالحقیاں اور مشرفیاں ان پر دو دھاری تلوار کی طرح لٹکتی رہیں گی
اور یہ بات تو عقل و ہوش سے بے بہرے بھی جانتے ہی ہوں گے کہ غلط کو صحیح
صرف وہی کر سکتے ہیں جو صحیح طریقے سے آتے ہیں،غلط طریقے سے آنیوالے مزید
غلط تو کر سکتے ہیں ان سے کسی صیح کی امید رکھنا عبث ہی تو ہے،،،،،،،،،،، |