نگران وزیر اعظم جسٹس(ر) ہزار
خان کھوسو نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ وہ عام انتخابات طے شدہ پرو
گرام کے مطابق کرانے میں الیکشن کمیشن کی ہر ممکن مدد کریں گے اور کسی نے
انتخابات کو گیارہ مئی 2013ءسے آگے بڑھانے کی کوشش کی تو وہ وزارت عظمیٰ
چھوڑ کر گھر چلے جائیں گے۔ مسلم لیگ(ن) اور بر وقت انتخابات کے خواہاں
دانشوروں اور سیاستدانوں کو اندیشہ تھا کہ عشرت حسین پر اگر انتخابات کو
موخر کرنے کےلئے دباو ڈالا گیا تو اس دباو میں آجائیں گے۔ اسی لئے جسٹس(ر)
کھوسہ نے اپنے عہدہ کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی واشگاف الفاظ میں اعلان کر
دیا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے ایسا کرنا ممکن نہیں۔عام انتخابات کیلئے گیارہ
مئی 2013ءا اعلان کر دینے کے بعد سیاسی جماعتوں کے لئے اس میں حصہ لئے بغیر
اب کوئی چارہ نہیں رہاہے۔ اس وقت آئندہ انتخابات کے حوالے سے مسلم لیگ(ن)
کو فیورٹ قرار دیا جا چکا ہے۔
کراچی میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے 11حلقوں میں ردوبدل اور حد بندی پر
تین سیاسی جماعتوں نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ جن میں حکمراں جماعت پیپلز
پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی شامل ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے
الیکشن کمیشن کے اقدام کو عدالت میں چیلنج کر دیا جبکہ اے این پی اس قدر
برہم ہو گئی کہ اس نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دیدی ہے۔ اے این
پی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سیّد نے کہا کہ نئی حلقہ بندیاں سپریم کورٹ کے
فیصلے سے انحراف ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ 11حلقوں کے بجائے پورے کراچی میں
نئی حلقہ بندیاں کی جائیں اور سپریم کورٹ نوٹس لے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے
حلقہ بندیوں کے بعد ایک دن تک خاموشی رہی، جس کے بعد پہلا پتھر ایم کیو ایم
نے مارا اور اس کے بعد پیپلز پارٹی اور اے این پی نے بھی اعتراضات کیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب نئی حلقہ بندیاں ہو رہی تھیں تو سیاسی جماعتیں خاموش
تھیں اور جب حلقہ بندیاں ہو گئیں تو وہ میدان میں آگئیں۔سندھ میں نئی حلقہ
بندیوں کا مطالبہ 20سیاسی جماعتوں نے کیا تھا اور اس مقصد کے حصول کے لیے
کئی دن تک الیکشن کمیشن پر دھرنے دئیے تھے اور ٹرین مارچ کیا جن جماعتوں نے
حلقہ بندیوں میں تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا ان میں پیپلز پارٹی اور اے این
پی بھی شامل تھی لیکن بعد میں اے این پی اور پیپلز پارٹی نے یوٹرن لے لیا۔
پیپلز پارٹی نے پورے سندھ میں ازسرنو حلقہ بندیاں کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس ضمن میں پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر نے حکومت کو خط بھی لکھا تھا
لیکن بعد میں صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر پیپلز پارٹی کے رہنماوں اور
وزراءنے کراچی میں ازسرنو حلقہ بندیوں کی مخالفت کی تھی سابق صوبائی وزیر
آغا سراج درانی نے کہا تھا کہ صرف کراچی میں حلقہ بندیوں کا کوئی جواز نہیں
ہے۔
سپریم کورٹ نے سب سے پہلے اکتوبر 11ءمیں نئی حلقہ بندیوں کی ہدایت کی تھی۔
اس کے بعد کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران نئی حلقہ بندیوں کی بازگشت
سنائی دی۔ جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا تھا کہ ہمارے 2011ءکے
حکم پر عمل ہو جاتا تو سب ٹھیک ہو جاتاسپریم کورٹ کی جانب کراچی کے
62انتخابی حلقوں کو تبدیل کرنے کے حکم پر الیکشن کمیشن نے چپ سادہ لی تھی
بعد چیف الیکشن کمشنر فخر الدین ابراہیم نے کہا کہ آئین اور قانون کے مطابق
نئی حلقہ بندیوں کے لئے مردم شماری ضروری ہے۔ نئی حلقہ بندیاں بغیر مردم
شماری کے نہیں ہو سکتی یہ آئینی ضرورت ہے۔ جس کے بعد جواب میں سپریم کورٹ
نے 28فروری کو کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران دوبارہ حکم جاری کیا اور
رائے دی کہ مردم شماری کے بغیر نئی حلقہ بندیاں نہیں ہو سکتیں۔ لیکن آئین
کے تحت حد بندی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا دوبارہ حد بندی کی جائے۔ جس کے بعد
الیکشن کمیشن نے حد بندی کے حکم پر عمل کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے 22مارچ کو
جن نشستوں کی حد بندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا ان میں این اے 239ءاین اے 250
اور این اے 254، پی ایس 89، پی ایس 112 سے پی ایس 118 اور پی ایس 124شامل
ہے لیکن حد بندی کے نوٹیفکیشن کے اجراءسے قبل سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں
نہیں لیا گیا۔ حد بندی حلقہ بندیوں کے ایکٹ مجریہ 1974ءکی دفعہ 10اے کے تحت
کی گئی۔ جس کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان حد بندی کے لیے کسی سیاسی جماعت
سے مشاورت کا پابند نہیں ہے۔
میاں نواز شریف کو یقینا ن لیگ کے ان ارکان کی کرپشن کا بھی علم ہو گا جو
وہ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کی آڑ میں کرتے رہے اور ان امید واروں کی
کرپشن کا بھی یقینا احساس ہو گا جو سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے گزشتہ چند
ماہ میں مسلم لیگ ن میں شامل ہونے والے کرتے رہے۔ مسلم لیگ ن نے اپنے
امیدواروں سے بیشک آئین اور پارٹی سے وفاداری کا حلف بھی لیا ہے لیکن ان
میں سے اکثر آئین کی دفعہ 62 ‘ دفعہ 63 پر پورے نہیں اترتے اور جو لوگ دھڑا
دھڑ سیاسی وفاداریاں بدل کر مسلم لیگ ن میں شامل ہو رہے ہیں وہ پارٹی سے
کیا عہد کس حد تک نباہ سکیں گے، اس کا جواب دینا ابھی قبل از وقت ہے۔ اسی
طرح مسلم لیگ ن جب پارٹی ٹکٹ جاری کر رہی ہے پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر دوسری
سیاسی جماعتوں کا رخ کرنے والوں سے کون پوچھے گا کہ انہوں نے جاتی عمرہ میں
میاں نواز شریف کے سامنے کیا کیا حلف اٹھا رکھا تھا۔
11 مئی کے عام انتخابات میں چند دن باقی رہ گئے ہیں۔ قوم نگران حکومتوں کے
قیام کے کٹھن مرحلے سے بخیر و خوبی گزر گئی ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے
لئے امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی داخل کروانے کا سلسلہ مکمل ہو
جانے کے بعد ریٹرنگ افسر سکروٹنی کا عمل شروع کریں گے۔ 5 اپریل تک جاری
رہنے والی سکروٹنی کی بھینٹ کون کون چڑھے گا آنے والے دنوں میں میڈیا کی
خاص دلچسپی کا معاملہ ہوگا۔ عوام کی نظریں اس طرف لگی ہوئی ہیں کہ الیکشن
کمیشن کے جاری کردہ فارم میں اقرار نامے اور بیان حلفی میں امیدواروں سے جو
کوہ گراں عبور کروانے کی کوشش کی گئی ہے اس کا عملاً کیا نتیجہ نکلے گا۔
گھروں‘ دفتروں‘ کوچہ و بازار میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ کون سی جماعت
الیکشن میں نمبر ون بن کر ابھر ے گی؟ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم کس کس نعرے
کی بنیاد پر چلائیں گی؟ کون کون سے سیاسی ا تحاد میدان میں اتریں گے اور ان
سیاسی اتحادوں کی شکل کیا ہوگی؟ |