آج کل الیکشن 2013 ءکا زور شور
ہے۔ ہر طرف یہی موضوع زیر بحث ہے کہ ساری قوم کی نظریں آئندہ آنے والی
منتخب حکومت پر لگی ہوئی ہیں۔ عوام مسلسل 5 سال کی مشقت کاٹنے کے بعد سابقہ
منتخب حکومت سے تنگ آچکے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ عوام کی جان ان
ظالموں سے کب چھوٹے گی۔ جنہوں نے عوام کو خودکشی ، ڈاکہ زنی، چوری، دہشت
گردی اور دیگر جرائم میں دھکیل دیا۔ عوام کے پاس کھانے کے لئے روٹی نہیں،
پہننے کو کپڑا نہیں، رہنے کے لئے چھت نہیں۔ یہاں تک کے غریب عوام کو بنیادی
ضروریات زندگی بھی میسر نہیں جو کہ انسان کے لئے بہت ضروری ہیں۔ مگر حکومت
کا پھر بھی یہی نعرہ ہے کہ روٹی،کپڑا اور مکان مانگ رہا ہے ہر انسان۔ صورت
حال یہ ہے کہ سابقہ حکومت 5 سال کی ناقابل معافی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے
ایسے نعروں کا استعمال کر رہی ہے اور اپنی مخالف سیاسی پارٹیوں کو اس کا
ذمہ دار ٹہرا رہی ہے۔ اور تو اور ستم ظریفی دیکھیے ایک طرف تو عوام کے
معیار زندگی کو تباہ وبرباد کر دیا اور دوسری طرف یہ نعرے عوام کے زخموں پر
نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں کہ اس دورِ حکومت میں ریکارڈ ترقیاتی کام کئے گئے
اور عوام کی بے لوث خدمت کی ہے۔ اس کے علاوہ اب روٹی، کپڑا اور مکان مانگ
رہا ہے ہر انسان کا نعرہ لگا کر عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ حالانکہ
ان کا ماضی ان کی کارکردگی کا شاہد ہے۔ عوام بے چاری پریشان ہے اور ان
لیڈروں سے پوچھتی ہے کہ آخر کار کس چیز کے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ کیا غربت
اور فلاس کرپشن اور بے روزگاری کے ریکارڈ قائم کئے ہیں؟ آخر کب تک یہ بے
چاری پاکستانی قوم اپنے سیاست دانوں کے ہاتھوں مہنگائی اور غربت کی چکی میں
پستے رہیں گے یا کوئی ایسا لیڈر اس قوم کی قسمت میں ہے جو اس ملک وقوم کے
ساتھ مخلص ہو۔ دوسری طرف اپوزیشن پارٹیز کے لیڈران بھی دعوے باندھنے میں
کچھ کم نہیں۔ وہ بھی الیکشن کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں۔ الیکشن میں
کامیابی کےلئے عوام کے ساتھ پر کشش اور دلکش جھوٹے وعدے کر رہے ہیں اور
عوام کو اپنے اعتماد میں لانے کے لئے بے شمار سیاسی حربے استعمال کئے جارہے
ہیں۔ عوام کے ساتھ اخوت اور ایثار کو فروغ دیا جارہا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس
ملکی کی مجموعی صورت حال کو دیکھا جائے تو عوام کا قتل عام روزمرہ کا معمول
بن چکا ہے۔ ذاتی مفادات کی خاطر غریب عوام کا قتل عام کیا جارہا ہے مگر
مجال ہے کہ ان سیاست دانوں نے اس پر کوئی احتجاج کیا ہو یا اس کو روکنے کے
لئے کوئی مخلصانہ کاروائی کی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ یہ تاثر دیاجارہا ہے
کہ ہم نے عوام کو جو ریلیف دیا وہ سابقہ حکومتوں میں سے کسی کے نصیب میں نہ
ہوا۔ دن بدن مہنگائی، دہشت گردی بڑھتی جارہی ہے۔ عوام کا نظام زندگی مفلوج
ہوکر رہ گیا ہے۔ ماحول اس قدر ناسازگار ہوگیا کہ حالات کے پیش نظر بیرونی
ممالک سے سرمایہ کاری بھی بند ہوگئی۔ ایسی بگڑی صورت حال میں بھی ہمارے نام
نہاد سیاست دان اپنے الیکشن میں کامیابی کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ اگر ان
سیاست دانوں کا ضمیر زندہ ہوتا تو کبھی بھی عوام کا سامنا نہ کرپاتے۔ لیکن
شاید ہمارے نام نہاد و مخلص سیاست دان اپنے ضمیروں کا سودا کر چکے ہیں۔
برابری ورواداری کا دعویٰ کرنے والے یہ سیاست دان اگر اپنے معیار زندگی اور
عوام کے معیار زندگی کا موازنہ کریں تو فیصلہ کرنے میں کسی کی دلیل کی
ضرورت پیش نہ آئے گی۔ ان کے بچے بین الاقوامی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل
کریں جبکہ ایک عام آدمی ایک معمولی سا کا انسٹی ٹیوٹ کو بھی afford نہیں
کرسکتا۔ لہذا ہماری اپنے ان سیاست دانوں سے مودبانہ التماس ہے کہ خدارا اس
ملک وملت پر رحم کریں اور اس نوٹنکی کو بند کریں کہ مصر کی طرح یہاں پر بھی
عوام کا ایسا سیلاب آئے جو آپ کی جائیدادوں اور پراپرٹی سمیت آپ کی جانوں
کو بھی بہا لے جائے۔
کعبے کس منہ سے جاﺅ کے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی |