پھلوں کا بادشا ہ آم

آم ایک جانا پہچانانہایت پھل ہے۔ جو عربی میں امبج،انگریزی میں مینگو ،فارسی میں انبہ اور سنسکرت میں امرا کہلاتا ہے۔ آم کو پھلوں کا بادشا ہ کہا جاتا ہے۔ یہ گرمیوں کا سب سے مقبول پھل ہے۔اور دنیا بھر میں دوسروں پھلوں سے سب سے زیادہ کھایا جاتا ہے۔آم میں نشائشتہ پایا جاتا ہے۔اس میں روغنی اجزاءبھی کژت سے پائے جاتے ہیں۔آم میں حیاتین اے،فاسفورس،کیلشیم ،فولاداور پوٹاشیم کے علاوہ گلوگوز بھی کژت سے پایا جاتا ہے۔آم غذ ائیت بخش پھل ہے۔یہ جسمانی کمزوری کو دور کرتا ہے۔اور خون پیدا کرتا ہے۔اور جسم کو فربہ کرتا ہے۔آم جگر،دل،دماغ،ہڈیوں اور پٹھوں کر سخت گرمی سے بچاتا ہے۔آم بچوں کو خصوصی طور پر کھلانا چاہے۔یہ کھانسی اور دمے کے مریضوں کیلئے بہترین ہے۔یہ حافظے کو تقویت دیتا ہے۔اس لئے دماغی کمزوری والے لوگوں کو ضرور کھانا چاہے۔گردے کی پتھری سے بچاﺅ کیلئے آم بہت مفید ہے۔ اس کی کاشت برصغیرپاک و ہند،برما اور سری لنکا کے علاوہ دیگر کئی گرم آب و ہوا والے ملکوں میں ہو رہی ہے۔پاکستان اور بھارت میں سب سے زیادہ پسندیدہ اور کھایا جانے والا پھل آم ہے۔ برصغیر پاک و ہند کو آم کا گھر کہتے ہیں۔پاکستان کا شمار آم پیدا کرنے والے اہم ملکوں میں ہونے لگا ہے۔پاکستان کے اعلی اقسام کے آموں کی بیرونی ممالک میں بڑی مانگ ہے۔آجکل آم جنوبی ایشیا ءکے متعدد ملکوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔ فلپائن،آسٹریلیا،جزائر ہوائی،انڈونیشیا،وسطی امریکہ میں آم کی کاشت بڑے پیمانے پر ہونے لگی ہے۔

برسات میں کھائے جانے والا یہ خوش ذائقہ ،خو شنما اور صحت بخش پھل آم امیر و غریب سب ہی کو یکساں طور پر پسند ہے۔ آم کا پھل نہ صرف ذائقے میں لاجواب ہوتا ہے بلکہ اس میں فولاد بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ خواتین خاص کر اس سے بہت استفادہ حاصل کر سکتی ہیں۔عوما وہ خواتین جو پیر یڈ کے دوران اپنی انرجی ضائع کر دیتی ہیں وہ اس پھل سے کافی ریکوری کر سکتی ہیں۔حاملہ خواتین کو بھی فولاد کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔وہ لوگ جن میں فولاد کی کمی ہو جاتی ہے جسے اینمیا بھی کہتے ہیں وہ بھی اس پھل سے اپنی مطلوبہ توانائی حاصل کر سکتے ہیں۔بہت سے دیگر پھلوں کی طرح آم میں بھی بہت سی بیماریوں کے خلاف مزاحمت کرنے کی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے۔اپنی خوراک میں آم کا استعمال کر کے آپ نہ صرف کینسر جیسے مرض کا مقابلہ کر سکتے ہیںبلکہ دل کی بیماری کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے ہیں جن لوگوں کو بلڈ پریشر یا کولیسٹرول کی شکایت رہتی ہے انہیں مستقل طور پر اسکا استعمال کرنا چاہیے۔

اس کے ذریعے کیل مہاسوں کا علاج ممکن ہے۔اس میں چہرے پر کھلے مساموںکو بند کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔جو لوگ کیل مہاسوں کے مسائل سے دو چار ہوںانہیں چاہیے کہ و ہ ا ٓم کے باریک باریک ٹکڑے کاٹ کر متاثرہ جگہ پر لگائیں ۔دس منٹ تک آم کو اس جگہ لگا رہنے دیں اور پھرجلد کو گرم پانی سے دھو لیں۔

آم کے پتوں،پھل، تنے کی چھال، تنے کی درمیانی لکڑی اور جڑوں میں میگنی فیرین ہوتی ہے۔پھلوں میں گیلک ایسڈ،گیلوٹے نین،ایلاجک ایسڈ،ایم،ٹرائی گیلک ایسڈ،کوئرسی ٹین،آئسی کوئرسی ٹین اور گلوکو گالین کیمیائی مادے ہوتے ہیں۔اسکے خشک بیج(گٹھلی) سے کیٹے چن حاصل کیا جاتا ہے۔اسطرح اسکی جڑ اور چھال میں بھی ایک سے زیادہ کیمیائی جز موجود ہوتے ہیں۔اس کے تمام اجزاءنیچ رنگ یعنی پتوں ،چھال،ٹہنیوں جڑ اور پھل کے علاوہ گوند میں بھی دوائی اژات اور خاصیتں موجود ہوتی ہیں۔

آم کے مختلف استعمال سے شربت،مربا،اچار،،سالن ،چٹنیاں،مٹھائیاں،جیلی اور امچور وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں۔اسکے علاوہ اسکے پھول بھی کام آتے ہیں۔

ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق آم کھانے والے افراد کے خون میں زہریلے مادوں کے شرح 10 فیصد ہے۔اس لحاظ سے آم کو سپر فوڈ بھی کہا جاتا ہے۔کچے آم (کیری) بھی صحت کے لئے بہت مفید ہیں۔کیری پر نمک لگانے سے پیاس کی شدت کم ہوتی ہے۔اس میں موجود وٹامن سی خون کی نالیوں کو لچکدار بناتا ہے۔اس میں وٹامن بی ون اور بی ٹو پکے آموں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔کیری میں جو ترش تیزابی مادے ہوتے وہ صفرا کے اخراج کو بڑھا دیتے ہیں۔ کچے آموں کو آنکھوں کے مرض اتوندیا شب کوری(جس میں رات کے وقت دیکھنے میں دشواری ہوتی ہے)میں بھی مفید پایا جاتا ہے۔

یہ آموں کا موسم ہے لہذا قارئین کوشش کریں کہ اس پھل کو زیادہ سے زیادہ استعمال کر کے اس کی خوبیوں سے فائدہ اٹھائیں کیونکہ یہ موسمی پھل ہے اور پھر ایک سال بعد ہی مارکیٹ میں نظر آئے گا۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Humaira Ashraf
About the Author: Humaira Ashraf Read More Articles by Humaira Ashraf: 5 Articles with 6070 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.