کاغذات نامزدگی کا مرحلہ مکمل
ہونے کے باوجود سیاسی جماعتوں کی جانب سے گہماگہمی نظر نہیں آرہی ۔ تبلیغی
جماعتوں کی طرح گھر گھر جا کر رشتے داروں اور ایس ایم ایس کے ذریعے الیکشن
مہم ڈراور خوف کے سائے میں پاکستانی انتخابات گیارہ مئی کیجانب رواں دواں
ہے ۔یورپی یونین کے انتخابی مبصرین کے گروپ نے سیکورٹی خدشات کے باعث فاٹا
اور بلوچستان میں اپنے مبصرین نہ بھیجنے کا اعلان کرکے دنیا بھر کےلئے
پاکستانی انتخابات کو تشویش ناک قرار دے دیا ہے ۔ یورپی یونین کے مبصرین
گروپ کے سربراہ مائیکل گاہلر کا کہنا ہے کہ ہم بلواسطہ طور پر ان علاقوں کی
نگرانی کریںگے۔دوسری جانب کچھ خدشات کا اظہارالیکشن کمشنر بلوچستان سید
سلطان بایزید نے کیا کہ کوئٹہ سمیت صوبے کے دس اضلاع میں امن وا مان کی
صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے ، الیکشن کے موقع پر ان اضلاع میں سیکورٹی کے
انتظامات کو بہتر بنانے کےلئے فوج کو طلب کرنے کی تجویز زیر غور رکھی گئی
ہے جب کہ صوبے کے گیارہ ا ضلاع میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنرز کی تعیناتیوں میں
تاخیر اوربی این پی کے سردار اختر مینگل کیجانب سے مسلسل تحفظات و خدشات کے
اظہار نے عوام میں بے چینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ تاہم مسلم لیگ (ن)
کےساتھ بی این پی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ طے ہونے اور امیدوارن کے اعلان کی
بناءپر ان خدشات میںکچھ کمی واقع ہوئی ہے کہ سردار اختر مینگل الیکشن میں
حصہ نہیں لیں گے۔ لیکن انکے بیانات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جس قدر
الیکشن قریب آتے جائیں گے سردار اختر مینگل ، حکومتی اقدامات پر عدم اعتماد
اور اپنے مطالبات پورے نہ کئے جانے کی بنا ءایک بار پھر الیکشن سے بائیکاٹ
کا اعلان کرسکتے ہیں۔ بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سردار اختر مینگل دنیا
پر یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ انھوں نے سپریم کورٹ میں پیش اور اپنے چھ
نکات دے کر مسئلہ بلوچستان کے حل کےلئے اپنی جانب سے سعی کی لیکن اس پر عمل
درآمدنہیں کیا گیا تاہم اب بھی ملکی انتخابات میں آخری کوشش کے طور پر قومی
دھارے میں آنے کی کوشش اور ایک بڑی سیاسی جماعت سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے باوجود
انھیں انتخابی عمل سے دور رکھا گیا ۔ اس سلسلے میںطلال بگٹی بھی ہم نوا بن
سکتے ہیں کہ اکبر بگٹی کے قاتل کو مکمل پروکوٹول دیا گیا اورہم نگران حکومت
میں بھی اپنے علاقوں میں نہیں جا سکے اس لئے انھیں انتخابات قبول نہیں
ہیں۔بہرحال یہ عوامی خدشات ہیں جو اللہ کرے پورے نہ ہوں ، ذاتی طور پردعا
گو ہوں کہ اس قسم کے حالات پیش نہ آئیں اور بلوچستان کے بلوچ بھائی قومی
دھارے میں شامل ہوکر بیرونی ایجنڈے و سازش کو ناکام بنا دیں ، لیکن بد
قسمتی سے ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی بھی جماعت کو اس کی توقع کے مطابق
انتخابی نتائج نہ ملے ہوں اور اُس نے اسے جمہوری بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے
صدق دل سے قبول کرلیا ہو ۔دوسری جانب کراچی و حیدرآباد میں متحدہ قومی
موومنٹ کی جانب سے واشگاف کہہ دیا گیا ہے کہ ان کے خلاف غیر اعلانیہ آپریشن
کیا جارہا ہے ان کے سیکٹر اور یونٹ آفس سے انتخابی مہم میں مصروف سینکڑوں
کارکنان کوریاستی ادارے اٹھا لیتے ہیں اور ان پر بے پناہ تشدد کرکے ایم کیو
ایم کے آفس بند کرائے جا رہے ہیں ، اسی طرح ایم کیو ایم کے پختون امیدوار
کا حیدرآباد میں عسکرےت پسندوں کی جانب سے قتل کئے جانے پر مزید حملوں کی
دہمکیوں نے بھی عوام میں خوف وہراس پیدا کردیا ہے ۔ایم کیو ایم کے دو
صوبائی اسمبلی ممبران اور ایک امیدوار کے قتل اور ایم کیو ایم کے ہیڈ کواٹر
نائن زیرو پر بم دہماکے کرنے اور سازش کرنے کی ذمے داری عسکرےت پسند قبول
کرچکے ہیں ۔ جبکہ ایم کیو ایم صرف کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کو ایم کیو
ایم کا ووٹ بنک توڑنے کی سازش قرار دیکر انتخابات پر قبل از وقت شدید
تحفظات کا اظہارکر رہی ہے۔ایم کیو ایم بر ملا اور با ر بار اس خدشے کا
اظہار کر رہی ہے کہ انھیں انتخابات سے روکا جا رہا ہے رابطہ کمیٹی کی جانب
سے متواتر رینجرز کے خلاف سخت بیانات نے انتخابی ماحول میں شدید بے یقینی
پیدا کردی ہے ۔ اسی طرح اے این پی کی جا نب سے کراچی کی انتخابی مہم میں
گوشہ نشینی اختیار کرلی گئی ہے اور ان کے گنے چنے چند امیدوار اپنے علاقوں
میں بھی نہیں پائے جاتے ، پختون عوام کراچی میں اے این پی کی جانب سے حکومت
میں شمولیت کے باوجود مسائل حل نہ کرنے اور لسانی قتل وغارت میں مناسب
کردار ادا نہ کرنے پر سخت غصے و عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں تو دوسری
جانب خیبر پختونخوا میں اے این پی کے امیدواران پر دہشت گردوں کی جانب سے
نشانہ بنانے کی کوشش نے باقی ماندہ جماعتوں میں بھی شدید خوف وہراس کا
ماحول پیدا کردیا ہے۔ اے این پی کے سربراہ اسفندیا ر ولی واضح کہہ چکے ہیں
کہ اگرا ب ایک کارکن بھی جاں بحق ہوا تو الیکشن کمیشن کے خلاف ایکشن لوں گا۔
اے این پی نے بھی الیکشن کے شفاف ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کردیا ہے ۔گو
کہ عسکریت پسندوں کی ترجمانی کرنے والے نے کچھ دن قبل وضاحت کردی تھی کہ وہ
لوگوں کو بزور طاقت انتخابی عمل سے دور نہیں رکھیں گے ۔ لیکن موجودہ حالات
و واقعات ان کی وضاحت کے منافی دکھائی دے رہے ہیں۔ اہم قابل ذکر بات یہ ہے
کہ حزب التحریر ، جماعتہ الدعوہ، تحریک نفاذ شریعت محمدی سمیت درجن بھر
مذہبی جماعتوں اور تنظیموں نے انتخابی عمل کو اسلامی شریعت کے خلاف قرار
دیتے ہوئے اس عمل سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس صورتحال سے جے یوآئی ،
جماعت اسلامی، جے یو پی ، سنی تحریک ، سنی علما کونسل سمیت انتخابات میں
حصہ لینے والی جماعتوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں جس کا اظہار
کالعدم تحریک طالبان(پاکستان) کے امیر حکیم اللہ محسود نے بھی اپنے ویڈیو
پیغام میں بھی کیا کہ وہ جمہوری نظام کو کفر کا نظام سمجھتے ہیں۔مولانا
صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی نے بھی پہلی بار جمہوریت کے خلاف
تحریک شروع کردی ہے ، جبکہ حافظ سعید کی سربراہی میں جماعتہ الدعوة نے ابھی
اپنے آپ کو انتخابی عمل سے دور رکھا ہوا ہے۔حزب تحریر کے شائع شدہ ایک
جریدے میںتفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے عوام سے کہا گیا ہے اس نظام کو مسترد
کردیں اور قیام خلافت کےلئے کوشش کریں۔موجو دہ الیکشن اپنی تمام تر بے
یقینی کےساتھ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لئے سوہان روح بنا ہوا ہے اور عوام
کی جانب سے بھی انتخابات کے حوالے سے اطمینان بخش صورتحال کا نہ پائے جانا
ان خدشات کو مزید تقویت دے رہا ہے کہ گیارہ مئی کے انتخابات ،عوام کی جان و
مال کےلئے بڑے نقصان کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں۔ قوم پرست جماعتوں کی جانب سے
الیکشن بائیکاٹ ، اور ایم کیو ایم کے خدشات وتحفظات اورتمام امیدواران کو
سیکورٹی فراہم نہ کئے جانے پر انتخابات کا منعقد کرانے کی کوشش تباہ کن
ہوگی۔الیکشن کمیشن اور نگراں حکومتوں کے فرائض میں شامل ہے کہ شفاف و
منصفانہ انتخابات کےلئے مینڈیٹ رکھنے والی جماعتوں کا احترام کرے۔کیونکہ
یہی ملکی مفاد کی بہتری کےلئے ناگزیر ہے۔اگر ایم کیو ایم ، اے این پی اور
بلوچ قوم پرستوں جماعتوں کو قومی دھارے سے دور رکھنے کی کوشش کی تو ملک کی
سا لمیت خطرات میں گھیر جائے گی۔نگراں حکومتوں کو ان معاملات کو سنجیدگی سے
لینا چاہیے قبل ازوقت انتخابات دھاندلی کے الزامات نے پورے الیکشن کے
شفافیت کو مشکوک بنا کر تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔انتخابات کو شفاف
، منصفانہ اور حقیقت پسندیدانہ بنانا ہے تو ریاستی اداروں کو بھی مستحکم
حکومت کے قیام میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
|