الیکشن مہم کی ابتداءہو چکی،
سیاسی پارٹیاں عوام کو باغوں کی سیر کرا رہی ہیں گو تمام تر باغ سبز ہی ہیں
۔ اخبارات میں پاکستان پیپلز پارٹی کا اشتہار آیا ہے کہ عالمی کساد بازاری
اور قدرتی آفات کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی نے جو کمال کیے ہیں انہیں
کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے۔ یقینا نہیں۔ کساد بازاری کا شکار بھی عام آدامی
رہا اور قدرتی آفات کا نشانہ بھی بیچارہ عام آدمی ۔ بھلا جس پر کوئی چیز
بیتی ہو وہ اُس سے کیسے انکار کر سکتا ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں کے دوران
پاکستان پیپلز پارٹی کے عظیم لیڈروں کی عظیم کرپشن ۔ لوٹ مار اور اُس پر
تجاہل عارفانہ کا نشانہ بھی عام آدمی ہی رہا ہے۔ اس لیے پارٹی کے سبز باغ
کی سیر کے دوران ہر شخص ہر چیز پر غور کر رہا ہے اور ہر بات سمجھ بھی رہا
ہے۔
میں ذاتی اور نظریاتی طور پر ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کا
کبھی حامی نہیں رہا مگر اس کے باوجود پاکستانی سیاست میں اُن کے مثبت کردار
کو تسلیم کرتا ہوں۔ انہوں نے عوام کو شعور دیا۔ اپنے کارکنوں کو جینے کا
ڈھنگ دیا۔ اس لیے لوگ آج بھی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے دیوانے
ہیں اور قومی سطح پر اُن کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ لیکن بے نظیر کی
وفات کے ساتھ ہی پاکستان پیپلز پارٹی بھی عملی طور پر فوت ہو گئی تھی۔ بے
نظیر بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پسماندگان جو حادثاتی طو پر پارٹی
قیادت کی صورت میں سامنے آئے ایسے لوگ ہیں کہ شاید ذوالفقار علی بھٹو اور
بے نظیر بھٹو کے لیے بھی شرمندگی کا باعث ہیں۔ پارٹی کے نظریاتی کارکن اور
حقیقی جانثار یا تو اپنے گھروں میں بند ہو کر بیٹھ گئے یا انہوں نے حالات
سے سمجھوتا کر کے چپ سادھ لی اور حالات کی بہتری کے منتظر ہیں۔ کچھ لوگ
پارٹی میں نظر بھی آتے ہیں تو بہت بے حیثیت اور بہت بے ضرر کیونکہ اُنہیں
سمجھ ہی نہیں آتی کہ جائیں تو جائیں کہاں۔ کیونکہ پارٹی اُن کا ایمان اور
اُن کے رگ و پے میں ہے۔
لکھنے والا جب لکھتا ہے تو اس کے ذہن میں کچھ اور ہوتا ہے مگر اُس کی تحریر
بعض اوقات کسی اور منظر کی عکاسی کر جاتی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال مجھے
پاکستان پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن اور سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر کی کتاب
”لیڈر کیسے بنا جائے “ میں نظر آئی۔ جہانگیر بدر بھٹو کے جانثار ورکر اور
بے نظیر کے مہتمد ساتھی رہے ہیں اور بقول اُن کے وہ زرداری صاحب کے بھی
جانثار ہیں۔ اُن کی کتاب کا ایک بات ”لُنڈے “کے عنوان سے رقم ہے۔ خوبصورت
باب مگر میرے نقطہ نظر سے پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت اور کارکنوں
کی صحیح تصویر دکھاتا ہے۔ یہ باب عام آدمی کی معلومات میں زبردست اضافے کا
باعث ہے اور سبز باغ کی سیر کرنے والے لوگوں کی قوت فیصلہ کے لیے انتہائی
تقویت کا باعث۔ جہانگیر بدر کہتے ہیں کہ مجھے کسی ایسے لفظ کی تلاش تھی جو
مفہوم میں لیڈر کے متضاد ہو۔ چنانچہ تلاش بیسار کے بعد (Laggards)کا لفظ
سامنے آیا جس کا مطلب پسماندگان یا پیچھے رہ جانے والے۔ اردو میں اس کا
بہترین ترجمہ ”لُنڈے“ کیا گیا جس سے کسی بھی لیڈر سے متصادم کردار ادا کرنے
والے شخص کو موسوم کیا جا سکتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں
”یہ ضروری نہیں کہ لُنڈے (Laggards) میں وہ خصوصیات موجود ہوں جو کسی لیڈر
کسے منسوب کی جاتی ہیں۔ ان کا لیڈر شپ کی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے مرحلے
سے گزرنا بھی ضروری نہیں اور نہ ہی انہیں کسی آزمائش اور صعوبت کے جھیلنے
کی ضرورت ہے کیونکہ یہ افراد کچھ بنانے یا کچھ کرنے کے لیے نہیں آتے۔ لُنڈا
(Laggards) بننے کے لیے تعلیم و تربیت ضروری نہیں۔ بس اقتدار کا بھوکا اور
اختیار کا لالچی ہوناکافی ہے۔ ان کی حیثیت اور شخصیت کا انحصار قسمت سے
ہاتھ آجانے والے کسی عہدہ اقتدار سے وابستہ متغیرات پر ہوتا ہے۔ تعمیر و
ترقی ان کا ہدف نہیں ہوتا لیکن دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے یہ اہم مسائل و
معاملات کے ساتھ بچوں کی طرح کھلواڑ کرتے ہیں اور اپنی لیڈری منوانے کی
کوشش کرتے ہیں لیکن چونکہ ایک لیڈر کی بنیادی اہلیت سے محروم ہوتے ہیں، اس
لیے کوئی مثبت نتیجہ برآمد کرنے کے بجائے قوم کا نقصان کرنے کے موجب بنتے
ہیں۔ سیاسی اصطلاح میں ان سماجی اور اخلاقی اعتبار سے کرپٹ افراد کو لیڈر
کہا جاتا ہے اور اب انہیں لُنڈے (Laggards) کا نام دیا گیا ہے۔
تاریخ نے شاہی لیڈروں ، فوجی لیڈروں اور جمہوری لیڈروں کو جنم دیا ہے اور
اسی طرح تاریخ نے شاہی لنڈوں ، فوجی لنڈوں اور جمہوری لنڈوں کو بھی جنم دیا
ہے۔ لیڈر شپ کی تعریف کا از سر نو تعین کرنے اور لنڈے (Laggards) کی وضاحت
کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لیڈروں اور لنڈوں کے درمیان فرق واضح کیا جائے۔ اس
طرح لیڈر شپ کی تعریف زیادہ نکھر کر اور واضح ہو کر سامنے آئے گی اور اس کے
لیے درکار خصوصیات کا بھی پتہ چل سکے گا۔ یہ نہایت اہم ہے کیونکہ ایک لیڈر
کو لیڈر شپ کی تعریف پر پورا اترنے کے لیے ایک طویل مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے
جبکہ لنڈے تباہی و بربادی اور بحران کے علاوہ تاریخ کے صفحات پر کوئی نقش
چھوڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔ چونکہ اپنے نصب العین اور طریقہ عمل میں دونوں
ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، اس لیے اصطلاحی اور تعریفی اعتبار سے بھی
انہیں ایک دوسرے سے مختلف ہونا چاہیے۔
ہمارے موجودہ ملکی سیاسی نظام ،میں، عوام کے حقیقی نمائندے جو اپنے اپنے
علاقوں یا برداریوں کے لیڈر ہوں، تعداد میں بہت کم ہیں اور اپنی لیڈرشپ کی
حیثیت کو حسب خواہ یا حسب ضرورت حد تک فروغ دے سکتے ہیں۔ لیکن خود کو عوام
کا لیڈر قرار دینے والی ایک بڑی اکثریت ، حقیقت میں لنڈوں پر مشتمل ہے۔ یہ
لوگ اسٹیبلشمنٹ ، کمپیوٹر کے نتائج ، ریاستی مشینری اور جعلی ڈگریوں کی
پیدوار ہیں۔ اس نسل کی حالت پر مجھے بے حد افسوس ہوتا ہے جس نے حالیہ
انتخابات میں جعلی ڈگریاں حاصل کیں یا اپنی جگہ کسی اور کو بٹھا کر امتحان
دلوائے۔ کسی بھی فرد کے لیے ایسی کسی بددیانتی میں مبتلا ہو کر بھی خود کو
لیڈر کہلوانا باعث شرم ہونا چاہیے۔ لیکن بد قسمی سے یہ لوگ ایسی باتوں پر
اپنا ذہن پریشان کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ ایک لیڈر یا حکمران بننے کے
لیے ان کے طریق ہائے کارفن حکمرانی کے لیے ایجاد کردہ جعلی طریق ہائے کار
میں ایک نیا اضافہ ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں، ان لنڈوں کو جدید
میکاویلی فلسفے کے ”پرنس“ قرار دیا جا سکتا ہے۔
موجودہ سیاسی ماحول اور منظر نیچے سے لے کر اوپر تک لیڈر شپ کے جنم اور
فروغ کے لیے نہایت حوصلہ شکن ہے۔ نتیجتاً ہمارے ملک میں لیڈروں کے ظہور کی
شرح نہایت کم ہو گئی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بڑے لیڈر کوئی ایسی ہستی
نہیں جو ایک دم آسمان سے گریں اور قوم کی قیادت کرنا شروع کر دیں۔ ایسے
لیڈروں کی تیاری کے لیے قدرت نے ایک ارتقائی عمل کا تعین کیا ہے۔ جب تک
لیڈروں میں ضروری خصوصیات موجود نہ ہوں وہ قیادت کرنے یا مو ¿ثر ثابت ہونے
میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ درست سمت اور یقین کی موجودگی میں کسی مقصد کے
لیے لڑا جا سکتا ہے۔ صعبوتیں اور آزمائشیں جھیلنے کی قوت اس کے بغیر پیدا
نہیں ہوتی۔ بد قسمتی سے بادشاہ گروں نے اپنے پوشیدہ مفادات کی نگہبانی کے
لیے اقتدار کی باگ ڈور لنڈوں کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ ہمارا ملک اس وقت ہر
طرح کے لنڈے پیدا کرنے والی واحد ورکشاپ قرار دیا جا سکتا ہے۔ لنکن نے
جمہوریت کی جو تعریف کی اس پر ایک نظر ڈالیں۔ ”عوام کی حکومت ، عوام کے
لیے، عوام کے ذریعے “۔ یہ اصطلاح محض انتخابات کے انعقاد تک محدود نہیں ۔
یہ پورے معاشرے کو جمہوری بنانے کا تقاضا کرتی ہے۔ لیکن جھوٹی جمہوریت کی
تعریف ہے ”لنڈوں کی حکومت ، لنڈوں کے لیے ، لنڈوں کے ذریعے“۔ ایسے لوگوں کا
مقصد صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ غریب عوام کے خرچے پر قوت و اختیار کے مزے
لوٹے جائیں ۔
میں نے ایسے بہت سے لیڈروں کے بارے میں بھی پڑھا ہے جو ابتداً لیڈر شپ کی
خصوصیات اور نیک خصائل کے مالک تھے اور لیڈر بننے کے ارتقائی عمل سے بھی
گزرے لیکن بعد ازاں اقتدار کی بھوک میں مبتلا ہو کر وہ ایک ایک کر کے اپنی
ساری مثبت خصوصیات سے محروم ہو گئے اور لیڈر سے لنڈے بن گئے“۔
یہ خوبصورت تحریر کسی مزید تبصرے کی محتاج نہیں۔ اس تحریر کی روشنی میں
پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ پوری قیادت پر نظر ڈالیں تو تھوڑا سا شعور
رکھنے والے شخص پر بھی چاہے وہ پارٹی کا جیالا ہی کیوں نہ ہو۔ تمام حقیقت
واضح ہو جاتی ہے۔ |