ایوانوں سے زندانوں تک

 آج پھرشام کے وقت سودخور زبردستی محنت کش تاج دین کے تنگ اورتاریک کوارٹر میں گھس آیا اوراس کی بیماربیوی اورشادی کی منتظر جوان مگرمعذور بیٹی کی موجودگی میں اسے بہت ڈرایا دھمکایااورگندی گالیاں دیں اورسودکی رقم کاتقاضاکیا مگرآج بھی تاج دین کودن بھر کوئی مزدوری نہیں ملی اوراس کے پاس سودخور کودینے کیلئے چمڑی توہے مگر دمڑی نہیں ہے لہٰذا ءوہ بیچارہ گردن جھکائے اس کی گندی گالیاں سنتا اورسہتا رہا۔سودخور جاتے جاتے کوارٹرسے کچھ سامان اٹھا کرلے گیااور کباڑیے کے پاس فروخت کردیا۔تاج دین کوتوشاید یہ سب کچھ سننے اورسہنے کی عادت ہوگئی ہے مگرآج معذور بیٹی کو زارو قطار روتادیکھ کرمحنت کش باپ کی غیرت جوش میں آئی اوروہ اچانک کوارٹر سے باہر نکل گیا اورکچھ دور ایک دکان سے گندم میں رکھنے والی زہریلی گولی خریدی اور گھر آ کر پانی میں گھول کرپی گیا ،اب موت کاانتظار شروع ہے مگر موت نہیں آئی کیونکہ وہ زہریلی گولی بھی جعلی تھی لہٰذاءوہ سودخورکی گالیاں سننے اوربار بار مرنے کیلئے زندہ بچ گیا مگر سب بیچاروں کے ساتھ تاج دین کی طرح نہیں ہوتا کیونکہ کئی سودخوروں سے پریشان لوگ مختلف طریقہ استعمال کرتے ہوئے موت کوگلے لگارہے ہیں اوران کے پسماندگان کومعاشرے میں بوجھ کے سواکچھ نہیں سمجھا جاتا،ان اندوہناک واقعات کے باوجود پاکستان کاایساکوئی ادارہ نہیں جوان سودخوروں کی صورت میں درندوں اورمردارخورگدھوں کوروکے اورتاج دین جیسے محنت کش افراد کوحرام موت مرنے سے بچائے ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سودکانظام رائج ہے اورسرعام سودکاکاروبار فروغ پارہا ہے توپھر اس ملک کی معیشت کس طرح ٹیک آف کرسکتی ہے ۔ہم نے چھ دہائیوں میں اپنے ملک کے معاشی نظام کوسودکی نجاست اورغلاظت سے پاک نہیں کیا ۔ہمارے ہاںحلال حرام کی تمیز ختم ہونے سے رزق اورتجارت سے برکت چلی گئی ہے۔میں سمجھتا ہوں ضمیر فروشی جسم فروشی سے زیادہ گھناﺅناکام ہے،کوئی باضمیر سودخورنہیں ہوسکتا۔جس انسان کاضمیر مردہ ہومیں اسے زندہ نہیں سمجھتا۔ہم سود کی تباہ کاریوں اوربربادیوں سے آگاہ ہونے کے باوجود اس سے چھٹکارہ پانے کیلئے سنجیدہ نہیں ہیں۔

سرورکونین حضرت محمد کافرمان ذیشان ہے''میں نے شب ِمعراج میں دیکھا کہ دوآدمی میرے پاس آئے تووہ مجھے ارضِ مقدس کی طرف لے گئے پس ہم چل پڑے یہاں تک کہ ہم ایک خون کے دریا پر پہنچ گئے ،ایک آدمی اس کے اندر جبکہ ایک شخص دریا کے کنارے کھڑا تھا جس کے آگے بہت سے پتھرتھے ۔جوآدمی دریا کے اندرتھاوہ آگے آیا اورجب اس نے باہرنکلناچاہاتوکنارے پرکھڑے آدمی نے ایک پتھر اس کے منہ میں پھینک دیا اورجس جگہ تھا اسے وہیں پلٹا دیا ،پس وہ جب بھی باہرنکلنے کیلئے آتا باہر کھڑاآدمی اس کے منہ میں ایک پتھر پھینک دیتا تووہ پھر وہیں لوٹ جاتا۔تومیں نے کہا،یہ کیا ہے تواس نے کہا آپ نے جس کوخون کے دریامیںدیکھاوہ سودخور ہے '' ۔قرآن مجیدفرقان حمید اوراحادیث شریف میں جس سختی کے ساتھ ربوٰ یعنی سودکی ممانعت کی گئی ہے اورکسی کبیرہ گناہ کی نہیں کی گئی ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں ارشاد فرمایا ،ترجمہ "تواگرتم نے ایسانہ کیا (یعنی سودلینے سے بازنہ آئے)تواللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی طرف سے جنگ سے خبردارہوجاﺅ" ۔سودخوروں کیخلاف اعلان جنگ کیا جارہا ہے ،وہ بھی عام انسانوں کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی طرف سے ۔کس کی مجال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کیخلاف جنگ کرے اورجوبدبخت ایسا کریں گے ان کاانجام دنیا میں ہلاکت وبربادی اورآخرت میں عذابِ الیم کے سواکیا ہوسکتا ہے۔

بدقسمتی سے ہم اس معاشرے کاحصہ ہیں جوہربرائی کوقبول کرتا جارہا ہے ۔اب لوگ دھڑلے سے برا ئی کرتے ہیں اوراس پرشرمندہ تک نہیںہوتے۔ہم ایک دوسرے کاساتھ اپنا تعلق دیکھتے ہیں جبکہ ایک دوسرے کی برائیوں سے چشم پوشی توکی جاتی ہے مگر ہم پردہ پوشی نہیں کرتے ۔ہم مختلف تقریبات اورنجی محفلوں میں ایک دوسرے کی برائیاں بیان کرتے ہیں اوراس کے باوجودخونیں رشتہ داری یاسچی دوستی کادعویٰ کیا جاتا ہے ۔اب کوئی بڑا کسی نوجوان کواورایک دوست دوسرے دوست کونصیحت تک نہیں کرتا ۔ہم نے برائی کوبرائی اوربدی کوبدی سمجھنااوربراکہنا چھوڑ دیا ہے ۔خامیوں اوربرائیوں میں فرق ہے مگر ہمارے ہاں کسی انسان میں موجود خامی کو اس میں پائی جانیوالی برائی سے زیادہ برامانا جاتا ہے ۔جولوگ برائیوں میں ملوث ہیں اگر ہم ان کی نوک ٹوک اوراصلاح نہیں کرسکتے توکم از کم انہیں جھنجوڑنے کیلئے ان سے اپنا تعلق توتوڑسکتے ہیں ،ہم ان سے بات کرنا اورملناجلنا کیوں نہیں چھوڑسکتے ۔اگرہم ایک دوسرے کا بروقت ،درست اورسخت محاسبہ کرناشروع کردیں تومعاشرے سے نناوے فیصد برائیاں دورہوسکتی ہیں۔ہم جعلی ادویات بنانے والے درندوں اورقاتلوںسے کسی بھی قسم کاتعلق کیوں رکھتے ہیں۔ہم جعلی ڈگریاں بنانے ،بیچنے اوران کاناجائزاستعمال کرنیوالے افرادکومستردکیوں نہیں کرتے ۔ہم رشوت خوروں اورسودخوروں کے ساتھ ان کے دسترخوان پرکیوں بیٹھ جاتے ہیں،کیا وہ رزق ہم پرحلال ہوسکتا ہے۔ہم اپنے ماں باپ ، ا مام مسجداوراساتذہ سے زیادہ جسم فروشوں اورضمیرفروشوں کی عزت کیوں کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک کامیابی اورنام نہادعزت کامعیار صرف دولت ،منصب اورطاقت کوکیوں سمجھ لیا گیاہے ،دوسرے کے پاس یہ پیسہ کہاں سے اورکس طرح آیایہ قطعاً نہیں دیکھا جاتا ۔اگرہم کسی چورکی چوری والی عادت اور فطرت سے آگاہ ہیں اورپھربھی اس کاہاتھ نہیں روکتے توہم بھی اس کے گناہ میں برابر کے شریک ہیں ۔اگر ہم نے کسی قاتل کسی بدعنوان ،کسی قومی غداریاکسی مجرم کوووٹ دیا توروزمحشر ہمیں بھی اس کے ساتھ کٹہرے میں کھڑاکیا جائے گا ۔

دنیا بھرمیں ہر اصل کی نقل دستیاب ہے اورپاکستان سمیت ہرملک میںمختلف اندازسے فراڈکے واقعات منظرعام پرآرہے ہیں لیکن جس طرح ہمارے ملک میں لوگ سرعام سودخوری،رشوت خوری ،بھتہ خوری،شراب نوشی،شیشہ نوشی،ملاوٹ اور جعلسازی کا کام کررہے ہیں اس سے پاکستان کااسلامی تشخص ایک سوالیہ نشان بن کررہ گیا ہے ۔سینیٹرز،وفاقی وصوبائی وزراءاورارکان اسمبلی کی جعلی ڈگریوں کے سکینڈل منظرعام پرآنے سے پاکستان کابچاکچھا وقاراوراعتماد بھی جاتا رہا،ان فراڈیوں اورقومی مجرموں کوسابق ارکان اسمبلی کہنا بھی قومی ضمیر کی توہین ہے،یہ سخت ترین سزاکے مستحق ہیں مگرجعلی ڈگریوں میں ملوث افرادکوگرفتارکرنے اورسزاسنانے کے چندروزبعدنہ صرف رہا کردیا گیا بلکہ انہیں انتخابات میں امیدواروں کی حیثیت سے شریک ہونے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ایک طرف معمولی فراڈ اورجعلسازی میں ملوث عام لوگ کئی کئی سال سے زندانوں میں قیداورانصاف کے منتظر ہیں جبکہ دوسری طرف آئین ،عوام اوراداروں کے ساتھ فراڈ کرتے ہوئے پارلیمنٹ اورصوبائی اسمبلیوں کے ارکان منتخب ہونیوالے بڑے بڑے مگرمچھ معاشرے میں دندناتے اورعوام سے ووٹ مانگتے پھررہے ہیں ۔دنیا میں پہلے ہی پاکستان کے گرین پاسپورٹ کی کوئی وقعت نہیں ہے اب پاکستان کے تعلیمی اداروں کی ڈگریاں بھی قابل اعتماد نہیں رہیں گی مگر اس سے صرف ان افراد کوفرق پڑے گاجوجعلی ڈگریاں استعمال نہیں کرتے کیونکہ جعلی ڈگریوں والے ''شرم پروف ''ہیں ، جبکہ محنت سے ڈگریاں حاصل کرنیوالے افرادکو نہ جانے بیرون ملک جاب یاایڈمشن کیلئے کہاں کہاں اورکس کس طرح وضاحت کرنی پڑے گی اوران کااعتماد بحال کرناپڑے گا۔پچھلے دنوں جعلی ڈگریوں والے سابق ارکان اسمبلی کی گرفتاریوں اورسزاﺅں کی خبروں سے خوشگوارحیرت ہوئی مگرچندروزبعدیہ خوشگوار حیرت مایوسی اورحسرت میں بدل گئی کیونکہ وہ قانون جوکمزوروں پرکوڑا بن کربرستا ہے وہ ان سیاسی شعبدہ بازوں کاکچھ بھی بگاڑنے میں ناکام رہا ۔

سابق فوجی آمرپرویز مشرف کی وطن واپسی اوردونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی پراسرارخاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔پرویز مشرف یقینا مقتدرقوتوں کی ضمانت کے بعد اورکسی اہم کردارکی امیداورنوید پرپاکستان واپس آیا ہے ۔آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت پرویزمشرف کے ٹرائل کاپرزورمطالبہ کرنیوالی سیاسی پارٹیوں کی قیادت کے بیانات میں اب پرویز مشرف کانام تک نہیں ہوتا تاہم جامعہ حفصہ اورلال مسجد میں مارے جانیوالے معصوم طلبہ وطالبات کے ورثاکاغم وغصہ ابھی تک برقرارہے۔پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی چترال سے منظورہوگئے تاہم کراچی،قصور اوراسلام آبادسے مسترد ہوگئے،ایک امیدوارکوتین شہروں سے مستردکردیا جاتا ہے جبکہ ایک شہرسے اسے اجازت مل جاتی ہے،یہ قانون ہے یاموم کی ناک یامختلف شہروں میں مختلف قانون رائج ہے ۔تاہم ایک طرح سے اچھاہوااین اے32چترال سے پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی منظورہوگئے ورنہ وہ ہیروبن جاتا اوراس کے کاغذات نامزدگی مستردہونے کوایک سازش قرار دیا جاتا۔پرویز مشرف کے سیاس مستقبل کافیصلہ اب آزاد عدلیہ اور اہلیان چترال کے ہاتھوں میں ہے ۔

ہمارے ہاں ڈاکٹری اوروکالت سمیت ہرشعبہ کیلئے جعلی ڈگریاں دستیاب ہیں ۔جعلی ادویات ،جعلی روایات ،جعلی نوٹ ،جعلی ووٹ ،جعلی ویزے،جعلی سرکاری آفیسرز ،جعلی جمہوریت ،جعلی سیاست،جعلی محبت ،جعلی پیر،جعلی فقیراور معیشت کے جعلی اعدادوشمار سمیت نہ جانے کیا کیا جعلی ہے ۔مگر ہمارے ہاں مجرم صرف وہ ہے جواپنی غلطی یا بدقسمتی سے قانون کی گرفت میں آجائے باقی اوپرسے نیچے تک سب ملے ہوئے ہیں۔اگرکوئی امتحانات میں نقل کرتے ہوئے دھرلیا جائے تواس کیلئے سزاہے جبکہ جعلی ڈگریوں والے مسلسل پانچ سال قانون سازاداروں میں بیٹھ کرملک وقوم کی قسمت کے فیصلے کرتے اورمختلف شاہانہ مراعات سے مستفیدہوتے رہے ۔ڈگری کے جعلی ہونے کاتعین کس طرح ہوگا،جس امیدوارکی بجائے اس کاکوئی عزیزیادوست کمرہ امتحان میں بیٹھتا اورامتحان پاس کرتا ہے کیا وہ ڈگری جعلی نہیں۔جولوگ گزٹ سے ملتے جلتے نام کافائدہ اٹھاتے ہوئے ڈپلی کیٹ ڈگری بنواتے اوراستعمال کرتے ہیں کیا وہ فراڈ نہیں،جونقل کرکے پاس ہوتے ہیں کیا ان کی ڈگریاں اصلی ہیں ۔ان جعلی ڈگریوں والے مردوخواتین کوپارٹی ٹکٹ دینے والی سیاسی قیادت کی گرفت کون کرے گا۔پرویز مشرف نے انتخابات کیلئے جو تعلیمی معیاد مقررکی وہ غلط فیصلہ تھا مگر اس فیصلے نے کئی بڑے بڑے سیاستدانوں کی اصلیت اورتعلیمی قابلیت بے نقاب کردی اورکئی جعلی ڈگریوں والے بھی ایکسپوزہوگئے ۔جعلی اوراصلی ڈگریوں کافیصلہ کرنے کیلئے 2008ءکے تمام ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کے پرچوں کی کسی ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ سے جانچ کرائی جائے یاان سب سے فرداً فرداًباوضوقرآن مجیدپرحلف لیا جائے ۔اپنے معمولی مفاد کیلئے پاکستان کانام اورہمارے تعلیمی نظام کو بدنام کرنیوالے کسی رعایت اوررحم کے مستحق نہیں ہیں۔عوام ووٹ کی پرچی پرمہرلگاتے وقت اپنے ضمیر کی آوازضرورسنالیا کریں،وہ پارٹیوں کی بجائے پاکستان کوووٹ دیں۔ان کاغلط فیصلہ ملک وقوم کے مستقبل کوتاریک بناسکتا ہے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139616 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.