ٹرانسفرز سے تبدیلی نہیں آسکتی

ٹرانسفرز سے تبدیلی نہیں آسکتی لہذا یہ پریکٹس چھوڑ کر اصل معاملہ دیکھا جائے

مبارک ہوا ے اہل پاکستان! اے عوام پاکستان مبارک ہو ملک میں تبدیلی آگئی ہے ملک تبدیلی کی لپیٹ میں آچکا ہے ۔ دھڑا دھڑتبادلوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ سیکرٹریز سے لیکر کمشنر اور علاقے کے پٹواری تک آئی جی سے لیکر محرر تک تبدیل کردیئے گئے ہیں چڑیا اڑانے کا یہ سلسلہ پہلے تو پنجاب کی حد تک محدود تھا لیکن اب دوسرے صوبوں میںبھی زورو شور کے ساتھ جاری ہے اور یوں ملک خداداد میں اللہ اللہ کرکے تبدیلی کا عمل تو شروع ہوگیا اور عنقریب شاید مکمل بھی ہوجائے

لیکن یہ کا کہ اس تبدیلی سے ہر دوسرا شخص پریشان اور نالاں دکھائی دیتا ہے اور تبدیلی سے گزیراں ہے ۔ آئی جی سے لیکر تھانہ محررتک اور سیکرٹریز سے لیکر علاقہ پٹواری تک تبدیل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت نہایت تندہی اور جانفشانی سے انتخابات کے عمل کو شفاف بنانے کی کوشش میں مصروف عمل ہے مگر حرکات و سکنات کسی اور جانب اشارہ کررہی ہیں بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگاکہ بجائے الیکشن کو وقت مقررہ پر کروانے کے الیکشن کے التوا اور شاید سبوثاژ کرنے کی کوشش کا سامان پیدا کیا جارہا ہے یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ علاقوں میں تعینات افسران و اہلکاران شاید ایماندار نہیں اور الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں گے یعنی ان کی اہلیت قابلیت کردار اوردیانت داری کو شک کی نگا ہ سے دیکھا جارہا ہے۔ ان کی اپنی ڈیوٹی اور محکمے سے وفاداری کو سوالیہ نشان بنایا جارہا ہے اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے کہ وہ افسر بیوروکریٹ ڈی پی او یا محررجتنا کارگر اورکارآمد موجوہ ہوسکتا ہے وہ نیا مقرر شدہ نہیں ہوسکتا جو تعلقات جو روابط جو مراسم عرصہ دو تین سے تعنیات سرکاری ملازم کے ہوسکتے ہیں اور وہ جس طرح الیکشن کی شفافیت اور تکمیل میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے وہ یقینا ایک نئے تعینات ہونے والہ فرد نہیں کرسکتا

اگر کسی پارٹی سے ان کی affiliation اور اس کی وجہ سے اثر اندازہونے والی بات کو درست تسلیم بھی کرلیا جائے تو شرح 5 سے10 تک بمشکل ہوگی جو کہ نئی جگہ پر بھی باآسانی ”دور جدید “میں ہوسکتی ہے لیکن اس اکھا ڑ پچھاڑ سے جو نقصان حکومت (عوام) کو ہوگا اس کا اندازہ نا معلوم کیوں نہیں لگایا جارہا ہے حالانکہ ماشاءاللہ اس وقت حکومت میںجولوگ موجود ہیں وہ ان معاملات پہ گہری نظر، سوج اور گرفت رکھنے کے دعویدار ہیں لیکن ان کے دعوی جانیوالی حکومت کی طرح ٹھس اور بے اثر ہوتے دکھائی دے رہے ہیںنقصانات بتائے دیتا ہوں-

سب سے بڑا نقصان ریونیو کا ہوگاکہ تبادلے کی وجہ سے اور تبدیلی کے عمل کو مکمل کرنے کیلئے ہر افسر کو ایک اضافی تنخواہ دی جائے گی ان کے ٹی اے ڈی اے عوام کے ٹیکس سے ادا کئے جائیں گے جو کہ اربوں میں ہونگے اسی طرح ہر جانیوالے نے اپنے مستعمل لوازمات کو ساتھ لے کر جانا ہے اور پھر بیچ کر نئی جگہ سے خریدنا ہے یہی عمل آنیوالے نے کرنا ہے جو کہ مالشئے اور پالشئے ان کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے پھر غریب عوام کا خون نچوڑتے ہیں-

نئی جگہ ایڈجسٹ منٹ کیلئے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے اور اس کا افسران بلاجھجھک اعتراف بھی کرتے ہیں اور بالخصوص وہ افسران جو کہ اس علاقے سے بالکل بے خبر اور نامانوس ہوں حالات و واقعات نہ جانتے ہوں علاقے کی عوام کا مزاج اور فطرت سے ناواقف ہوں علاقوں کو لوکیشن سے بے خبری بہت سے ایشو پیدا کرسکتی ہے اور اس بات کا برملا اظہار بھی کیاجاتا ہے یعنی ٹائم کا ضیاع جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے ۔

نئے تعینات ہونے والے ملازمین افسران واہلکاران مائنڈ سیٹ کرکے آتے ہیں کہ پھر دوماہ بعد ان کا تبادلہ ہوجانا ایک ”پاکستانی عمل“ ہے۔ اس لئے وہ اس تندہی اور جانفسانی اور فرض شناسی سے کام نہیں کریں گے وہ اسے ٹائم پاس کے طور پر لےں گے جس سے علاقے کی ترقی و خوشحالی و دیگر معاملات لامحالہ ڈسٹرب ہونگے۔جانیوالے والے کیلئے الوداعی تقریبات اور آنیوالے کیلئے ویلکم پارٹیز بھی اس عمل کا حصہ بنیں گیں یہ بھی ٹائم اور ریونیو کا ضیاع ہوگا-

یہ ساری باتیں بتانے اور لکھنے کا مقصد یہ پوچھنا ہے کہ اس نگران حکومت کو لانے کا مقصد کم سے کم وسائل کو استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ مسائل کو حل کرنا تھا لیکن معاملہ تو الٹ ہوتا جارہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ وسائل کو استعمال کیا جارہا ہے اور مسائل کے حل کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے پہلے ہی سینکڑوں ارب روپے کے قرضے ہم عوام کے سر تھوپے جا چکے ہیں۔ نگران حکومت کو چاہے کہ وہ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اپنے مسائل کو حل کرنے کو کوشش کرے اور لا حاصل اور لایعنی معاملات میں ٹانگ نہ اڑائے جس مقصدکی خاطریہ نگران سیٹ اپ بنایا گیا ہے یعنی الیکشن تو صرف الیکشن کو ہی فوکس کیا جائے کیونکہ دوسرے معاملات اس قدر پیچیدہ اور گنجلک ہیں کہ ان کو سدھارنے کیلئے ایک طویل عرصہ اور مخلص لوگ چاہئیں جو کہ فی الوقت available نہیں ہیں اس لئے afficiancy جھاڑنے کی بجائے اپنا نام اونچا کرنے کی خواہش کی بجائے ملک و قوم کا نام روشن کرنے کی خاطر اپنی انرجیز کو صرف کیا جائے کیونکہ موجودہ ہونے والے تبدیلی کی یہ پریکٹس الیکشن کو delay کی طرف تو لے جا سکتی ہے مس منیجمنٹ کو پیدا ہوسکتی ہے اوریہ mismanagement کہیں مخصوص طبقے کی آواز نہ بن جائے اور الیکشن التوا کا شکار ہوجائیں اس لئے تبدیلی ملک میں آنی چاہئے نا کہ افسران و ملازمین کے ٹرانسفر میں
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211751 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More