امریکی عزائم پر مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت

امریکہ اپنی ہٹ دھرمی اور عالمی قانون کی خلاف ورزی کےساتھ ساتھ پاکستان کےخلاف اپنے جارحانہ عزائم میں تبدیلی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔شمالی وزیر ستان میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں ایک بار پھر کئی افراد ہلاک جبکہ کئی زخمی ہوگئے ۔ امریکی جاسوس طیارے نے اتوار کو دتہ خیل کے علاقے منذرخیل میں واقع ایک مکان پر اُس وقت میزائیل حملہ کیا جب خود امریکہ میں ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کیا جارہا تھا ، حالیہ ڈرون حملہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا جب سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے اعتراف کیا کہ ان کا امریکہ کےساتھ ڈرون حملوں کا خفیہ معائدہ ہوا تھا جس میں امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دی گئی تھی ۔امریکہ نے اس اخلاقی حرمت کا بھی خیال نہیں کیا کہ پاکستان اس وقت ان کی جنگ کی وجہ سے شدید مالی وسیاسی بحران سے گذر رہا ہے اور ملک میں انتخابی سرگرمیاں خوف وہراس کے سائے میں بڑھ رہی ہیں ،لیکن امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے اس حقیقت کی غم انگیز عکاسی کرتا ہے کہ انھیں تاحال پاکستان کی جان دہشتگردی ، انتہا پسندی اور غیر ملکی جارحیت سے نہیں چھوڑنی۔اس کی تصدیق امریکی مصنف وتاریخ دان وہسٹر ٹارپلی نے ایک ٹا ک شو میں افغان جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا کہ امریکہ کی ہمیشہ کوشش یہ رہی ہے کہ افغان جنگ کو پاکستان میں ایکسپورٹ کیا جائے ۔وہسٹر کا کہناتھا کہ امریکہ اس جنگ کو ایکسپورٹ کرنے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوا ہے کیونکہ پاکستان میں خودکش حملوں کی لہر سے ملک میں بہت تباہی آئی اور ڈرون حملے بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں ،وہسٹر نے انکشاف کیا کہ ہر منگل کو وہائٹ ہاوس کی میٹنگ میں صدر اوباہا کو لسٹ فراہم کی جاتی ہے اور سی آئی اے کی اس ہٹ لسٹ میں شامل شخصیات کو قتل کرنے کی اجازت صدر امریکہ خود دےتے ہیں، امریکہ اور پاکستان کے سابق صدر کی جانب سے خفیہ معائدے کے منظر عام پر آنے کے بعد اب اس سلسلے میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں رہی کہ سابق پاکستانی صدر اور امریکی حکومت جنگی جرائم میں براہ راست ملوث ہیں اور المیہ یہ ہے کہ اپنے ملک کے شہریوں کا قاتل اس ملک کا اپنا صدر رہا ہے ، لیکن اس اعتراف کے بعد ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے و دھرنے والوں کی خاموشی بھی بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے اس حیرانی کا اظہار کو بھی سنجیدگی سے لینا ہوگا کہ فیڈریشن سابق صدر پرویزکے غداری کیس میں دلچسپی نہیں لے رہی۔پاکستان پرائی جنگ میں اس بُری طرح الجھ چکا ہے کہ جنگ امریکی منشا کے مطابق پاکستان میں منتقل ہوچکی ہے ، اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان بھی انکشاف کر چکے ہیں کہ سوات میں امن معائدے کے خلاف امریکی دباﺅ کے باوجود معائدہ کیا گیا ، اُس وقت کی صوبائی حکومت نے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی پالیسی کا اعلان کیا ، کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی امیر صوفی محمد اور قیدیوں کو رہا گیا ، شمالی وزیر ستان میں بھی عسکرےت پسندوں کےساتھ پیش رفت ہوتی رہی لیکن امریکہ نے باجوڑ میں ڈمہ ڈولہ کے مقام پر حملہ کردیا جس میں خواتین اور بچوں سمیت بیس افراد جاں بحق ہوئے ، جس پر عسکرےت پسندوں نے مردان چھاﺅنی پر حملہ کرکے خودکش حملہ کرکے پانچ فوجیوں سمیت 14افراد کو جاں بحق اور 25کو زخمی کردیا اور اس حملے کو سانحہ ڈمہ ڈولا کا بدلہ قرار دےتے ہوئے ذمے داری قبول کی ۔اس امر پرغور کیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ امریکہ نے کبھی بھی کوشش نہیں کہ پاکستان عسکرےت پسندوں کے ساتھ پر امن مذاکرات میں باہمی اعتماد کو پروان چڑھائے ، اس کی مثال سانحہ ڈمہ ڈولا بھی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ پاکستانی حکومت اور عسکرےت پسندوں کے درمیاں مذاکرات کو پسند نہیں کرتا تھا اور اس کی تصدیق خود امریکی نامور مصنف و مورخ وہسٹر گذشتہ دنوں امریکی ٹاک شو پروگرام میں برملا کرچکے ہیں کہ امریکہ افغان جنگ کو پاکستان میں دھکیلنے میں کامیاب ہوا ، اب ہمارے سامنے جو صورتحال سامنے آرہی ہے اس میں کسی شک وشبے کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ امریکی پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے قطعی مثبت اور مخلصانہ جذبات نہیں رکھتا ہے۔پاکستان میں دہشتگردی کی تازہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ نئی جمہوری حکومت کے قیام کے لئے انتخابات کو خون آشام بنا کر مخصوص ذہنیت کو لوگوں کو سامنے لایا جارہا ہے ، ملکی سیاسی جماعتیں درپیش خطرات کے نئے معروضی حقائق سے نمٹنے کی ضرورت سے قاصر نظر آتی ہیں اور انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سر کچلنے کےلئے بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور میں بھی امریکہ کے خلاف بڑے محتاط روئےے کو اختیار کیا ہے۔لیکن یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک ملکی سلامتی اورداخلی امن و سکون اور ترقی کو لاحق خطرات کا تدارک نہیں ہوگا تو کسی طور ملک میں پائیدار جمہوری نظام یا موجودی نظام کی تبدیلی کی خواہش پوری نہیں ہوسکے گی اس امر میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ اولیت ملکی وقار کی سلامتی اور قومی یکجہتی اور خودمختاری کے تحفظ کو حاصل کرکے دہشت گردوں اور انتہا پسند عناصر کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہ دینے کی مشترکہ پالیسی اپنائی چاہے تھی ، ایک طرف تو مغرب اور یورپی ممالک پاکستان کو دہشت گردوں کی جنت قراردےتے نہیں تھکتے ، لیکن امریکہ کے کردار کو فراموش کردےتے ہیں کہ اس نے باقاعدہ طے شدہ اوقات کار اور طے شدہ منصوبے کے تحت پاکستان کو ٹکڑنے کرنے لئے اپنے مقامی ایجنٹوں کو ڈالروں کی چھاﺅں فراہم کررہا ہے ، مغربی اور یورپی ممالک کے الزمات بذات خوف شرم ناک اورافسوس ناک ہیں کیونکہ ان میں انتہائی درجے کی بزدلی ہے کہ اپنے مفاد کے خاطر امریکی ہٹ دھرمیوں کو مسلسل نظر انداز کرکے پاکستان جیسی نوزائیدہ مملکت کے قیام کے بعد سے مسلسل سازشوں میں مصروف ہے اور کسی ملک میں اتنی جرات نہیں ہوئی کہ امریکہ کو ویٹو کرسکتا ۔امریکہ کو پاکستان کی خود مختاری اوروقار کو پیش نظر رکھنا چاہیے ، پاکستانی انتخابات کے انعقاد کی سازشوں میں ٹانگ اڑانے کے بجائے ایسے علاقے کی حقیقی معروضی صورتحال کے تقاضوں کو اپنی سامراجی سوچ اور جنگی جنون کی سازشوں سے گریز کرنا چاہیے۔امریکی جاسوس حملوں کی جانب سے دوبارہ ڈرون حملے اقوام متحدہ کی جانب سے مرتب رپورٹ کے باوجود زیک زوردار طمانچہ ہے اوراس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اقوام متحدہ امریکہ کے سامنے کس قدر بے بس اور کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا ۔اخلاقی طور پر عالمی برادری کو پاکستان میں عالمی امن کے نام اخلاقی اور مادی امداد کرنی چاہیے اور کم ازکم تہذیب یافتہ مملکت کا فرض ادا کرتے ہوئے ،ملک میں خانہ جنگی پیدا کرنے کی سازشوں سے گریز کی راہ اختیار کرنی چاہیے ، جنوبی وزیر ستان ، سوات ،بلوچستان وغیرہ میں کیثر جہتی ترقی ، روزگار کے بہتر موقع اور خود کش حملوں کے ساتھ دہشت گردی کی روک تھام کےلئے شفاف اور مستحکم حکومت کے قیام کی اشد ضرورت ہے ، امریکہ کے ان مذموم عزائم کی روک تھام کےلئے سیاسی جماعتوں سے زیادہ عوام کو مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے انھیں ضبر وتحمل اور نام نہاد اسکروٹنیکے مرحلے سے گذرنے والے نام نہاد روایتی مورثی سیاست دانوں کو بھاری اکثرےت سے مسترد کرنا ہوگا ۔ خاموش اکثرےت ک ناراضگی اپنی جگہ درست ہے لیکن پاکستان کی بقا و سلامتی کا یہ آخری موقع ہے ۔ انھیں نئی قیادت اور اپنے حلقے میںرہنے والے غریب ، باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ایوانوں میں بھیجنا ہوگا ، اگر عوام اس بار بھی گریزاں ہوئے تو جھرلو پارلیمنٹ کے ذریعے اُن کے ذاتی خزانے بھرتے رہیں گے اور پانچ تو کیا پچاس سال میں بھی نظام و تبدیلی نہیں لاسکتے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 659381 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.