ہر موسم کی اپنی اپنی خصوصیات
ہوتی ہیں جوایک دوسرے سے مختلف ہونے کی وجہ سے اس موسم کی پہچان کا باعث
بھی بنتی ہیں جیسے خزاں میں درختوں کا بے رونق ہونا ، بہار میں چارسوگل و
خوشبو کا بکھرنا ، برسات میں بارشوں کی فراوانی کے ساتھ ساتھ حبس و گھٹن
ہونا ۔انسانی فطرت میں پائی جانے والی پیچیدگی اور تفریق کچھ کو بہار کا
شیدائی بناتی ہے تو اس کے برعکس خزاں کے چاہنے والے بھی بے شمار ہوتے ہیں
کوئی بارشوں کو اپنی شاعری کا حصہ بناتا ہے تو کوئی گرمیوں کی چاندنی راتوں
کا دیوانہ ہے۔غرض چاہنے والے بھی بے شمار اور نہ چاہنے والے بھی بے شمار۔یہ
انسانی خصلتوں میں سے ایک خصلت ہے کہ انسان اپنے مزاج اور اپنی پسند و
ناپسند میں عالمگیریت رکھتا ہے شاید تب ہی انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ
دے کر سب جمادات و حیوانات میں سے افضل کر دیا گیا ۔
پاکستان میں موسم بہار تقریبا ً ختم ہوچکی ہے اور گرمیاں عروج پر ہیں اس کے
ساتھ ساتھ ایک اور موسم بھی شروع ہو چکا ہے جسے جمہوریت پسند ممالک میں
الیکشن کا موسم کہا جاتا ہے ۔یہاں حال کچھ یوں ہے کہ ہر چلے ہوئے اور نہ
چلے ہوئے کارتوس سے وہ گن گرج ہورہی ہے کہ فضا ایک عجیب سے حصار میں قید
دکھائی دیتی ہے اور شایدہے بھی کہ ہر طرف الیکشن کا واویلا ہے۔یہ واویلا
اتنا شدید ہے کہ فضاء ذومعنی ہے۔بلند وبانگ دعوے ، نعروں کی گونج گرج ،
کندھوں کی سواریاں ،عوام کی خستہ حالی کا درداور ملک خداداد پاکستان کی
فکراس موسم کی چیدہ چیدہ نشانیاں ہیں ۔
موسم الیکشن میں کیے جانے والے دعوؤں میں صرف اور صرف حیرانگی کے سوا کچھ
نہیں ہے مگر پھر بھی تالیاں بجانے والے ، نعرے لگانے والے، کندھوں کی
سواریاں دینے والے سینہ پھلا کر دعویٰ کرنے والے کو سپورٹ کرتے ہیں ۔مگر ان
دعوؤں کے درمیان کچھ دعوے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ یہ متوالے اور جیالے بھی
حیران ہوجاتے ہیں مگر خاموش تب رہتے ہیں کہ دعویٰ کرنے والا ان کا رہنما
ہوتا ہے ان کے دکھ درد کی دوا اور ان کے شان دار مستقبل کا ضامن۔لیکن اگر
پچھلے پینسٹھ سالہ دورانیہ کا چیدہ چیدہ مطالعہ کیا جائے تو ان کے دعوؤں پر
جہاں بے شمار سوالات جنم لیتے ہیں وہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ’’ان کے
دعوے سچ ہوسکتے ہیں مگر کون کرے گا؟‘‘
ایسا ہی چند دن پہلے ہوا جب ملک خداداد پاکستان کی 50فیصد سے زائد آبادی پر
5سال بادشاہت کرنے والے عوامی لیڈر نے جوش خطابت میں دعویٰ کیا ۔موصوف نے
دیکھا کہ ملک خداداد میں غربت ، افلا س ، بھوک و ننگ اتنی شدت اختیار کر
چکی ہے کہ بات چوری چکاری سے بہت آگے بڑھ کر قتل و غارت اور خودکشیوں تک
پہنچ چکی ہے تو موصوف نے ان معاشرتی قباحتوں کا سہارہ لے کر عوام سے دعویٰ
کیا کہ اگرپسی ہوئی عوام نے چھٹی بار پنجاب ان کی پارٹی کے حوالے کیا تو یہ
موصوف غریب عوام کی چھینی ہوئی دولت کو غرباء کے پاؤں میں نچھاور کر دیں
گے۔
کوئی ان سے پوچھے کہ ان کے 5سالہ دور بادشاہت میں غریب جب لٹتے رہے ، پستے
رہے ، مرتے رہے تب تب ان کو عوام کا دل جیتنے کے لیے یہ ڈائیلاگ کیوں یاد
نہ آیا ۔وہ کون سی ہتھکڑی تھی کہ طاقت ہونے کے باوجود ان سے غریبوں کے لیے
نہ ٹوٹ سکی۔ان کا یہ دعویٰ من و عن پورا ہوسکتا ہے مگر دعویٰ کرنے والے سے
نہیں اس لیے تو یہ دعویٰ سن کر اور دعویٰ کرنے والے کے دور بادشاہت کا
مشاہدہ کرکے زبان پھسل کر کہتی ہے ـ’’مگر کون‘‘
جس دن مذکورہ بالا دعویٰ نظر سے گزرا عین اسی دن بڑے بادشاہ سلامت کی خبر
بھی خطا کار نگاہ سے گزری ۔خبر کچھ یوں ہے:’’صدر زرداری نے اپنی بیٹی کے
ساتھ کراچی کے ایک ہوٹل میں کھانا کھایا اور 6000روپے بطور ٹپ دئیے‘‘
میں یہ نہیں کہتا کہ ان چھ ہزار سے کتنے بھوکی بچیوں کو کھانا مل جاتا نہ
میں یہ کہتا ہوں کہ ان چھ ہزار سے کتنے بھوکے ننگے بچوں کو لباس و خوراک مل
جاتی اور نہ ہی میں پاکستان میں بھوک و ننگ کے تجزیے پر بحث کرنا چاہتا ہوں
کیوں کہ پاکستانی کیا دنیاکے اعلیٰ ترین تجزیہ نگاروں نے بھی ان حکمرانوں
کی آنکھوں کے سامنے سے پردہ چاک کرنے کے لیے کیسے کیسے تجزیے اور سروے پیش
کیے مگر انہیں نہ پہلے کچھ اثر ہوا اور نہ ہی مستقبل میں ہونا ہے کیوں کہ
بے حسی ان کے من میں رچ بس چکی ہے ۔
یہ خبر پڑھ کر مجھے اس حکمران کی یاد آگئی جو 3براعظموں کے بادشاہ تھے، ان
کے دور بادشاہت میں عوام میں خوشحالی کا یہ عالم تھا کہ تینوں براعظموں میں
زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں تھا، اس بادشاہ کی بیوی 7نسبتوں سے ملکہ تھی
۔مگر اس بادشاہ کی اولاد کا یہ حال تھا کہ ایک رات اپنی صاحبزادیوں کے پاس
تشریف لے گئے تو والد کی آہٹ پاتے ہی اس بادشاہ کی صاحبزادیا ں منہ پر ہاتھ
رکھ کر دروازے کی جانب لپکیں ۔بادشاہ سلامت نے اپنی صاحبزادیوں کا منہ چھپا
کر دروازے کی جانب لپکنا دیکھا تو فرط جذبات سے خادمہ سے پوچھا کہ میرے
صاحبزادیوں کو کیا ہوا؟ جس پرخادمہ بولی کہ آپ کی صاحبزادیوں کے پاس کھانے
کے لیے کچھ نہیں تھا مجبوراً انہوں نے مسور کی دال اور پیاز سے پیٹ بھرے ان
کو گوارہ نہیں ہوا کہ آپ کو ان کے منہ سے بو محسوس ہو۔یہ سن کر وہ بادشاہ
سلامت رو پڑا کہ جس نے تین براعظموں میں بھوک و ننگ ختم کی مگر اپنے گھر
میں بھوک کا وہ عالم کہ بیٹیاں بھوک مٹانے کے لیے پیاز سے گزارہ کر رہی ہیں
۔عید کا موقع تھا کہ اسی بادشاہ کی ملکہ جو کہ سات نسبتوں سے ملکہ تھی آپ
رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس آئیں اور اولاد کے لیے کپڑوں کی طلب کی مگر بادشاہ کے
پاس پیسے نہیں کہ اپنی اولاد کو عید کے لیے نئے کپڑے بنوا دیں ۔
یہ حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمۃ اﷲ علیہ تھے کہ جنہوں نے اپنے گھر میں کچھ نہ
رکھا مگر عوام کو وہ سب کچھ دیا کہ خوشحالی کا دور دورہ تین براعظموں میں
ایسا تھا کہ ڈھونڈنے سے بھی زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا تھا ۔یہ ہماری تاریخ
ہے مسلمانوں کی تاریخ کہ جس میں حکمرانوں نے صرف اور صرف عوام کی خوشحالی
کے لیے کام کیے اصلاحات کی ۔یہ آج بھی ہوسکتا ہے ایسے حکمران آج بھی مل
سکتے ہیں مگر ان میں سے نہیں کہ جنہوں نے عوام کو اپنا غلام اور پاکستان کو
اپنی جائیدداد سمجھا ہوا ہے۔ |