آزاد کشمیر میں عبوری حکومت کی ضرورت

آزاد کشمیر کے2010ءکے الیکشن اس صورتحال میں ہوئے تھے کہ جب آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی مکمل تائید و حمایت سے مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان کی حکومت قائم تھی۔وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی مکمل کمانڈ میں آزاد کشمیر کے پارلیمانی الیکشن کرائے گئے۔پیپلز پارٹی نے اپنا چیف ا لیکشن کمشنر بنواتے ہوئے الیکشن میں اپنی کاروائیوں اور کامیابی کا راستہ ہموار کیا۔آزاد کشمیر میں ” وٹو فارمولے“ کے تحت بننے والی پیپلز پارٹی کی حکومت وفاقی حکومت کی بھرپور کوششوں سے قائم کی گئی جس کا نہ تو الیکشن کمیشن آزاد اور غیر جانبدار تھا اور نہ ہی ان انتخابات کو منصفانہ اور شفاف قرار دیا جا سکتا ہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی کے الیکشن میںوفاقی حکومت کی ”آشیر باد“ میں ہونے والی کھلے عام دھاندلی کے خلاف آزاد کشمیر کی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ(ن) نے پہلے اسمبلی میں نہ بیٹھنے کی بات کی لیکن پھر ”آزاد کشمیر کے حکومتی سسٹم کو جاری رکھنے “ کے لئے اسمبلی میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا گیا۔یوںپاکستان کی طرح آزاد کشمیر میں بھی الیکشن سے پہلے عبوری حکومت کا قیام ضروری ہے تا ’کہ الیکشن پروسیس ‘میں وفاقی حکومت اور آزاد کشمیر حکومت اثر انداز نہ ہو سکے۔اس حوالے سے آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت کی قانونی حیثیت کا سوال بھی سامنے آتا ہے جس کی ساکھ پہ بڑا سوالیہ نشان ہے۔

آزاد کشمیر میں ایک بار پھر 1974ءکے عبوری آئین میں ترامیم کی بات ہو رہی ہے۔حکومت و اپوزیشن کی آئینی کمیٹی کے اجلاس گزشتہ دنوں دوبارہ منعقد ہوئے ہیں۔پاکستان میں گزشتہ حکومت کے دور میں ہونے والی آئینی ترامیم کے نتیجے میں آزاد و غیر جانبدار الیکشن کمیشن اور الیکشن سے پہلے عبوری حکومت کے قیام کے دو اہم اقدامات شامل ہیں اور انہی آئینی ترامیم کے نتیجے میں ایسے اکثر موضوعات،اختیارات صوبوں کو منتقل ہو گئے جو پہلے وفاق کے پاس تھے۔تاہم اب تک وفاق سے صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کا عمل مکمل طور پر پائیہ تکمیل کو نہیں پہنچا ہے۔پاکستان میں تو آئینی ترامیم کے ذریعے اختیارات وفاق سے صوبوں کو منتقل کر دیئے گئے لیکن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ان آئینی و سیاسی ثمرات سے محروم رکھا گیا ہے جو پاکستانی عوام کو دیئے گئے ہیں۔تاہم فرق یہ ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے آئینی اختیارات سے کشمیر کونسل ” انجوائے“ کر رہی ہے۔ کشمیر کونسل سے متعلق کئی اہم امور کی ”بداعمالیوں“ سے آج کشمیر کونسل کے خاتمے کا مضبوط مطالبہ سامنے آ یا ہے۔کشمیر کونسل آزاد کشمیر اسمبلی کے ساتھ مقننہ کے طور پر آزاد کشمیر کے اخراجات پر ہی قائم ہے اور کونسل انتظامی اختیارات بھی استعمال کر رہی ہے جس کا اسے کوئی آئینی اختیار حاصل نہیں ہے۔

پاکستان میں الیکشن سے پہلے کی عبوری حکومت میں دوا ہم عہدوں پر سینئر صحافیوں کا تقرر خوش آئند ہے۔ایک سینئر صحافی کی وزیر اعلی پنجاب اور ایک اور سینئر صحافی کی بطور وفاقی وزیر اطلاعات تقرری ایک مثبت اقدام ہے۔آزاد کشمیر میں ”ون ٹو کا فور ، فور ٹو کا ون“ پر مبنی ارکان اسمبلی کی جمع تفریق سے حکومتوں کی بار بار تبدیلی نے آزاد کشمیر کے خطے میں سیاسی و عوامی انتشار کو مزید ہوا دی جس سے آزاد کشمیر کے تمام شعبے بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ آزاد کشمیرکے الیکشن کو منصفانہ،شفاف اور قابل قبول بنانے کے لئے الیکشن سے پہلے مختلف شعبوں کے نیک نام افراد پر مشتمل عبوری حکومت قائم ہونی چاہئے تا کہ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر و گلگت بلتستان میں ہونے والے اسمبلی الیکشن پر ریاستی عوام اور عالمی اداروں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہو سکے۔

بر سر تذکرہ کہ اگر پاکستان میں دو اہم حکومتی عہدوں پر دو صحافتی شخصیات کا تقرر ہوا ہے تو آزاد کشمیر میں بھی ایسا ہونے کو یقینی بنایا جا سکتا ہے خصوصا آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے صحافیوں کو بھی ٹیکنو کریٹ کی فہرست میں شامل کرنے کے فیصلے کی روشنی میں۔لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ ان تجاویز پر آزاد کشمیر کی مختلف برادریوں کی نمائندگی کے دعویدار اخبارات کے مالکان آزاد کشمیر کی عبوری حکومت میں شامل ہونے کے لئے ابھی سے ”لابنگ“ شروع کر دیںکیونکہ آزاد کشمیر کی سیاست کی ایک رسم یہ بھی ہے کہ اگر کوئی حکومتی یا سرکاری عہدیدار بیمار بھی ہو جائے تو اس کے عہدے پر نظریں جمانے والے واسکٹیں پہن کر وہ عہدہ حاصل کرنے کی ”تگ و دو “ میں لگ جا تے ہیں۔

المختصر یہ کہ پاکستان میں گزشتہ پانچ سال میں ہونے والی آئینی ترامیم کی روح کی روشنی میں تمام آئینی،انتظامی ،حکومتی و مالیاتی اختیارات کشمیر کونسل سے آزاد کشمیر حکومت کو منتقل کرنا ضروری اور ریاستی باشندوں کے پاکستان پر اعتماد کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔اختیارات کے حوالے سے آزاد کشمیر حکومت کی اس نامناسب حالت کی بڑی ذمہ داری آزاد کشمیر کے کئی سیاستدانوں پر بھی عائید ہوتی ہے جن کی ترجیحات میں اس طرح کے امور غیر ضروری ہیں اور ان کے لئے اس سے اہم خاندانی، قبیلائی اوراضلاعی مفادات ہیں۔ آزاد کشمیر کے ایک سینئر قلم کار جناب اشفاق ہاشمی نے انہی امور پر بات کرتے ہوئے بجا کہا ہے کہ اب آزاد کشمیر کی تمام کہانیاں تین چار برادریوں کے مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔#
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699348 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More