ایک طرف تو میڈیا میں گجرات کی
ترقی کے بلند بانگ دعووں کی قلعی کھلتی جارہی ہے دوسری طرف اپنے قومی عزائم
کی بدولت نریندر مودی پرسیاسی حملے بڑھ رہے ہیں۔ پارٹی صدر راجناتھ سنگھ کے
بار بار کے فرمانوں کے باوجود ان کے خلاف اندرسے اٹھنے والی آوازیں بندہونے
کے بجائے بڑھتی جاتی ہیں۔اب ان کی ریاست میں ان کے ہی پریوار کی ایک تنظیم
وی ایچ پی نے ایک بڑا چیلنج پیش کردیا ہے جس کو آر ایس ایس
کا بھی آشیر وادحاصل ہے۔
31 مارچ کووی ایچ پی کے انٹر نیشنل کارگزار صدر ڈاکٹر پروین توگڑیا نے اپنی
تنظیم کے قیام کی گولڈن جوبلی تقریب کے موقع پر احمدآباد میں منعقدہ جلسہ
میں اعلان کیا کہ وی ایچ پی گجرات کے تمام اٹھارہ سو گاﺅوں میں اپنی شاخیں
قایم کرکے سنہ 2015 تک گجرات کو ”ہندو ریاست“ قراردےدیگی۔یہ اعلان آر ایس
ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی موجودگی میں کیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اس
مہم کو ان کا آشیرواد حاصل ہے۔ یہ آشیرواد اس لئے اور معنی خیز ہے کہ ابھی
حال ہی میں سنگھ نے اپنے انگریزی ترجمان ”آرگنائزر“ اورہندی ترجمان ”پنچ
جنیہ“ کے مدیروں کو اس لئے ہٹا دیا کہ وہ مودی کی حمایت میں بہت آگے نکل
گئے تھے۔
وی ایچ پی نے اس مہم کو 'Hindu Ahead, for Hindu Security and Prosperity',
کا نام دیا ہے۔مطلب یہ کہ اپنی خوشحالی اور تحفظ کے لئے گجرات کے ہندو
خودآگے آئیں۔ وی ایچ پی اور سنگھ کو یہ ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ان نظر میں
مودی کی سرکار کو دس سال گزرجانے کے باوجود نہ تو گجرات کا ہندو خوشحال ہوا
ہے اور نہ محفوظ ہے ۔سچائی یہی ہے مودی گجرات کی جس ترقی کا ڈھنڈورہ پیٹتے
ہیں اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچا ہے، چاہے وہ ہندو ہی کیوں نہ ہوں۔ حیرت
کی بات ہے کہ ریاست کا ہندو بھی خود کو غیرمحفوظ محسوس کرتا ہے۔اس کا سبب
وہ پبلسٹی مہم ہے جو ہندو فرقہ پرست تنظیمیں ہندوؤں میں عدم تحفظ کا احساس
پیدا کرنے کے لئے چلاتی ہیں۔ گجرات کی نام نہاد ترقی کا فائدہ صرف سرمایہ
داروں اور صنعت کاروں کو پہنچ رہا ہے جن پر مودی اتنے مہربان ہیں کہ ریاست
پر قرض کا بوجھ ایک لاکھ 72 ہزار کروڑ سے بڑھ کر دس سال میں 46ہزار کروڑ
روپیہ ہوگیا ہے اور آدھی ریاست کے عوام کو پینے کا پانی نصیب نہیں۔
بی جے پی کے ترجمان کپیٹن ابھیمنیو نے مودی پر جے ڈی (یو) کے حالیہ حملے کے
جواب میں کہا ہے کہ گجرات ملک کا سب سے خوشحال اور محفوظ خطہ ہے کیونکہ
وہاں پچھلے 12 سال سے کوئی فساد نہیں ہوا۔لیکن وی ایچ پی کا نعرہ ہے گجرات
کے باشندے نہ حوشحال ہے اور نہ محفوظ ۔ ”ہندتووا“ کے دونوں علم بردار ہیں،
چال، چرتر اور چہرے کی بات کرتے ہیں، یہ فیصلہ کیسے ہوکہ داغی کون ہے؟ وی
ایچ پی کے اس نعرے کو ابھی عوام نے غور سے نہیں سنا ہے، حالانکہ اسے ہر
رائے دہندہ تک پہنچانے کی ضرورت ہے ۔ یہ اعلان اور اس پر بھاگوت کی تائیدپر
ہندتووا کے علمبرداروں کو بھی متوجہ ہونا چاہئے۔ مودی کی دس سالہ ایک چھتر
راج کے باوجود اگر گجرات یہ حال ہے توپھراس گمان کی کیا بنیاد ہے کہ مودی
وزیر اعظم بن گئے تو پورا ملک خوشحال اور محفوظ ہوجائیگا؟ ان کے لئے سوال
یہ بھی اہم ہے اگر مودی گجرات کو ”ہندو ریاست“ کا ماڈل نہیں بناسکے تو پورے
ملک کو ہندوراشٹرا کیسے بنادیں گے، جس میں ان کی ویسی زورزبردستی نہیں چل
سکتی جیسی گجرات میں چل رہی ہے؟ اس کے باوجود مودی کو آگے بڑھانے کا جو جو
ش اور جذبہ سنگھیوں میںنظرآتا ہے ،اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے
کہ اقلیتی فرقہ کے خون سے زمین کو رنگ دینے کی شقاوت کا جو تجربہ اور حوصلہ
مودی کو ہے وہ کسی اور کو نہیں۔ پروین توگڑیا کی نظر میں سنہ ۲۰۰۲ءکے مسلم
کش فساد اور اس کے بعد اقلیت کے خلاف پوری ریاست میں بدترین نفرت اور عداوت
کے ماحول کے باوجود اگر گجرات ابھی تک ”ہندو ریاست “نہیں بن سکا ہے تو ان
سے اور موہن جی سے یہ سوال بجا ہے کہ آخر ان کی نظر میں ہندو راشٹر کا تصور
کیا ہے؟ کیا گجرات اسی صورت میں ہندو ریاست قرار پائیگا جب اس میں کوئی غیر
ہندو باقی نہیں رہیگا، ان کی عبادت گاہیں ،درگاہیں، بارگاہیں اورمزارات نہ
رہیں گے؟اور وہ پوری طرح ہندو کلچر میں جذب ہو جائیں گے؟
ہرچند کہ آر ایس ایس کا کہنا ہے ہر وہ شخص جو ہندستان میں رہتا ہے ، ہندو
ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا ہدف یہ ہے کہ اس سرزمین پر کوئی غیر ہندو
باقی نہ رہے۔ ان کو غیر ہندوﺅں کی مراسم عبادت ، مثلاً نماز، روزہ اور
زکوٰة پر تو اعتراض نہیں لیکن ان کو یہ منظور نہیں کہ غیر ہندو اپنے مذہبی
شناخت برقرار رکھیں اور اپنے عائلی ، خاندانی اور اجتماعی معاملات میں اپنی
شریعت پر چلیں۔ اس کی اس مہم کا کچھ نہ کچھ اثر مسلم سماج بھی برضا و رغبت
غیر شعوری طور سے قبول کررہاہے اور اسی رنگ میں رنگتا جاتا ہے۔ مثال کے طور
پر بیاہ شادی کی رسموں پر غور کیجئے ۔ فرق صرف نکاح کا رہ گیا ہے ورنہ مسلم
گھرانوں میں تلک ، جہیز ، منگنی ، پلٹاوا جیسی ہر اس مکروہ رسم کی پیروی کو
لازمی سمجھا جانے لگا ہے جس کا ہماری تہذیب و روایات اور دینی اقدار سے
کوئی تعلق نہیں، بلکہ جو منشائے دین کے سراسر منافی ہیں۔ تقریبات میں
خواتین کے لئے پردہ ختم ہورہا ہے ۔خواتین کے غول کے غول غیر مردوں میں بے
تکلف کھاتے پیتے پھرتے ہیں اور فوٹو گرافی کی لعنت ہر محفل میں پھلتی
پھولتی ہے۔ بین مذاہب شادیوں کا چلن بھی بڑھتا جاتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ
ہم خود ہندو معاشرے میں جذب ہونے پر آمادہ ہیں۔ سنگھی اور کیا چاہتے ہیں؟
سنگھ پریوار کی نظر میں ہندو راشٹر کا مطلب چاہے کچھ ہو، سچائی یہ ہے کہ
دوقومی نظریہ کی بنیاد پر ملک کی تقسیم پر آمادگی کے ساتھ ہی ہمارے
حکمرانوں نے، جن میں ہندو احیاءپرستوں کو غلبہ تھا، ہندستان کو عملاً ایک
ہندو دبدبہ والی ریاست بنا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ سیکولر ہونے کا
دعوا توکیا اور آئین میں بھی ان خوبیوں کو سمویا جو کسی سیکولر آئین میں
ہونی چاہئیں، کابینہ میں مسلم وزیروں کو بھی شامل کیا ،مگر انتظامیہ سے ان
کو بے دخل کردیا وہ سب کچھ کیا جو اقلیتی فرقہ کی تباہی کا باعث بنا اور اس
کو اس مقام تک لے آیا جس کی نشاندہی سنہ 2006ءمیں سچر کمیٹی کی رپورٹ میںکی
گئی ہے۔ فروری سنہ1835ءمیں لارڈ میکالے نے جب ہندستان کے طویل مطالعاتی سفر
کے بعد اپنی رپورٹ برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کی تو اس کا آغاز اس اعتراف کے
ساتھ کیا تھا کہ پورے ملک میں کہیں کوئی بھیک مانگنے والا نظر نہیں آیا،
مسلم خواندگی 90 فیصد سے زیادہ ہے اور تعلیم کا وسیع انتظام ہے۔ آج صورت یہ
ہے کہ کسی مسجد کے سامنے جاکر چند منٹ کے لئے کھڑے ہوجائےے،بھیک مانگنے
والے آپ کو عاجز کردیں گے اور یہ سب چہرے بشرے سے مسلمان ہیں۔ ہماری یہ بے
حسی اسقدر بڑھ گئی ہے کہ اب مساجد کے آئمہ بھی سوالی بن کر سرکار کے در پر
جانے میں شرم محسوس نہیں کرتے حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مساجد کے
ائمہ اور خطباءسرکاری وظائف کے تحت آئے ،دینی امور میں سرکاری عمال کی
مداخلت بڑھ گئی۔ خطبا ت تک میں حکام کا خوف در آیا۔ دوسری طرف کچھ نادان
آواز اٹھارہے ہیںکہ سرکار مدرسہ بورڈ بنائے، تاکہ مدرسین کو معقول تنخواہیں
مل سکیں۔ حالانکہ جن ریاستوں میں مدرسہ بورڈ قائم ہیں ان میں مدارس تباہ
ہوچکے ہیں۔ رام پور کا مدرسہ عالیہ جوعلوم شرعیہ اور عربی وفارسی کی درس
وتدریس میں عالمی شہرت رکھتا تھا، سرکار کے ہاتھوں میں جاکر تباہ و برباد
ہوگیا۔ ریاست کے انضمام کے وقت جب مدرسہ سرکاری تحویل میں گیا تو اس میں
تقریباً چالیس اساتذہ تھے اب چار یا پانچ اساتذہ ہیں،علوم شرعیہ، عربی و
فارسی کے شعبے مفلوج ہیں ۔ پرنسپل ایک غیر مسلم مسٹر ہمانشوہیں جو انگریزی
کے استاد ہیں جب کہ مدرسہ میں انگریزی مضمون پڑھایا ہی نہیں جاتا۔ یہی حال
بہار، اڑیسہ، مغربی بنگال اور یوپی وغیرہ کے مدرسہ بورڈوں کا ہے۔ خبریں یہ
ہیں بورڈ اسٹاف سے ساز باز کرکے ایک ایک شخص نے کئی کئی مدرسہ رجسٹرڈ
کرارکھے ہیں اور تنخواہ کے نام پر لوٹ ہورہی ہے۔ ان مدارس میں نہ تعلیم
ہوتی ہے اور نہ تربیت۔ بس امتحان ہوتا ہے اوربغیر لیاقت سند مل جاتی ہے ۔
مغربی بنگال کے مدرسہ بورڈ سے مدارس کے لئے وہی سب احکامات جاری ہوتے ہیں
جو دیگر اسکولوں کے لئے ہوتے ہیں اور حکم دیا جاتا ہے درگا پوجا کے لئے
مدارس کو بند رکھا جائے ۔
اہم سوال یہ ہے کہ اپنی مساجد اور مدارس کے لئے یہ کاسہءگدائی ہم کس کے در
پر لیکر جارہے ہیں؟ جن کو نہ ہمارے دین اور ایمان سے کوئی دلچسپی اور نہ
ہماری عزت اور آبرو اور جانوں کی فکر ہے۔وہ آئمہ جو صبر و قناعت سے اپنا
فریضہ انجام نہیں دے سکتے اور وہ منتظمین جو اپنے مدارس سرکاری امداد کے
بغیر نہیں چلاسکتے، خدارا خود کو الگ کرلیں اور ملت کی رسوائی و تباہی کا
باعث نہ بنیں ۔
خیر یہ ذکر تو برسبیل تذکرہ آگیا ورنہ بات توگڑیا کے اس اعلان کی چل رہی
تھی کہ دو سال کے اندر گجرات کو ہندو ریاست بنادیا جائیگا جس میں ہندو
محفوظ اور خوشحال ہوگا۔ اور ہم کہہ یہ رہے تھے کہ اس ملک کو تو عملاً ہندو
ملک بنادینے کا سلسلہ آزادی کے بعد ہی ہوگیا تھا اور اب خود ہم کو بھی اس
بات کا خیال نہیں رہا کہ جانے انجانے اسی منزل کی طرف بڑھے چلے جارہے ہیں
جس میں ہماری عائلی معاملات اور مساجد تک میں سرکار کی مداخلت کے دریچہ
کھلتے جارہے ہیں اور اس ملت کو غار مذلت میں دھکیلنے میں اب وہ امام بھی
شامل ہوگئے ہیں جو صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر دنیا کی تھوڑی سے
آسائش کے لئے سرکار کے سامنے دست سوال دراز کررہے ہیں اور خود ہم کو اس بات
کا خیال نہیں اپنی مسجدوں اور مدرسوں کے خدمت گاروں کی ضروریات کو بافراغت
پورا کردیا کریں۔
توگڑیا نے سب سے پہلے گجرات کو ”ہندو ریاست“ بنانے کے عزم کا اعلان کیا ہے
جہاں کے در دیوا رپر 2002 ءکے خون کے چھینٹے آج بھی تروتازہ ہیں اور جس میں
وی ایچ پی کا بھی رول تھا۔شاید توگڑیاکاجی اتنے خون سے نہیں بھرا۔ان کو صاف
صاف کہنا چاہئے کہ اب ان کا ارادہ کیا ہے؟ان سے ہم نہیں گجرات کی مودی
سرکار نمٹے کی جس کی ستا میں سیندھ لگانے کی انہوں نے دھمکی دی ہے۔
وی ایچ پی کی اس مہم سے ہوسکتا ہے گجرات کی مسلم آبادی کی مشکلات کچھ اور
بڑھ جائیں مگر اس مہم کا اصل نشانہ تو نریندر مودی کی سرکار ہے۔وہ وی ایچ
پی تو گجرات میں اپنا حصہ چاہتی ہے جس پر مودی بلاشرکت غیرے قابض ہیں۔ مودی
وزیر اعظم کے اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے اپنا چولا بدل لینا چاہتے ہیں
اور یہ دکھانے پر آمادہ ہیں کہ سنہ 2002ءکے فساد کے باوجود اب وہ اقلیتی
فرقے کے لئے فکر مند ہیں۔ چنانچہ حال ہی میں احمدآباد کی مسلم اکثریتی سلم
آبادی جوہو پورا میں ایک اسکول ، صحت مرکزاورآنگن واڑی کے لئے وسیع عمارت
کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے اور اعلان کیا گیا کہ علاقے کی گلیاں، سڑکیں
اورنالیاں بھی پختہ کی جائیں گیں۔ ایک دوسرا انگلش میڈیم اسکول اندرون شہر
مسلم اکثریتی آبادی شاہ پور میں کھولنے کا اعلان ہوا ہے جس کی فیس سالانہ
صرف 18 روپیہ ہوگی ۔اور بھی کچھ اقدامات وہ کررہے ہیں تاکہ یہ ظاہر کرسکیں
کہ سرکار کواقلیت کی بھی فکر ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وہ قومی سطح پر قابل قبول
ہوجائیں۔ اب اگر توگڑیا یہ پیغام دیتے ہیں گجرات میں توہندو بھی خوشحال اور
محفوظ نہیں تو اس کی زد مودی کے قد پر ہی پڑیگی۔ ان کا دعوا ہے کہ گجرات نے
مثالی ترقی کی ہے۔اس کا مطلب تو یہی ہونا چاہئے کہ ریاست کے باشندے خوشحال
ہوئے ہیں۔ ان کا دوسرا دعوا یہ ہے کہ اس دس سال میں کہیں کوئی فتنہ فساد
نہیںہوا۔ اب اگر توگڑیا یہ کہتے ہیں کہ ریاست میں ہندﺅں کی خوشحالی اور
تحفظ کے لئے ان کو میدان میں اترنا پڑیگا تو اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہی نا کہ
مودی کے دعوے جھوٹے ہیں۔ہندتووا کے دو علمبرداروں کے درمیان اس جنگ میں ہم
فریق کیوں بنیں؟ |