ملک میں رجسٹرڈ 8کروڑ61لاکھ
ووٹرز ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کےلئے اپنا حق رائے دہی گیارہ مئی کو
استعمال کریں گے ، لیکن اس سے قبل ہی امیدواران کی جانچ پڑتال کے کمزور عمل
کی وجہ سے قرضوں کے نا دہندگان بھی کسی روک ٹوک کے بغیر انتخابات میں حصہ
لے رہے ہیں ، ریٹرنگ افسران کی غیر سنجیدگی کو پوری دنیا میں تنقید کا
نشانہ بنایا گیا ۔بعض سیاسی رہنماﺅں کی جانب سے بر ملا کہا جا رہا ہے کہ
انتخابی ٹریبونلز مالی بد عنوانی میں ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی سے
گریز کر رہے ہیں ، اسٹیٹ بنک کی جانب سے فراہم نادہندگان کی لسٹ کے مطابق
مکمل عمل درآمد نہ ہونے سے عوامی رائے میں الیکشن کمیشن کی ساکھ پر انگلیاں
اٹھائی جا رہی ہیں۔اصغر خان کیس اور بنکوں سے اربوں روپے معاف کرانے والے
نا دہندگان کی جانب سے ایک بار پارلیمنٹ پر تسلط قائم رکھنے کی تیاری کی
جاچکی ہے ۔ امیدواران کے انتخابات کےلئے قانون پہلے سے موجود ہے اور دور
آمریت کے بنائے گئے اس قانون پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہے کیونکہ آئین میں
جتنی بھی ترامیم ہوئیں اُس میں امید واران کی قابلیت کو صرف گریجویٹ کی سند
ہونے یا نہ ہونے کی حدتک ہی محدود رکھا گیا ۔سب جانتے ہیں کہ حکومتوں میں
ان نمائندوں کےلئے مخصوص معیار باوجود معلوم وجوہ کے توجہ کے قابل نہیں
رکھا گیا۔پارلیمنٹ میں موجود مورثی اور روایتی سیاست دانوں سے یہ توقع نہیں
رکھی جا سکتی کہ اسمبلی کے نمائندوں کےلئے مقننہ کی منظوری سے ایک ایسا
قانون بنا دیا جائے جو ، قومی اثاثوں کے امین و صادق ہوں ۔لیکن پاکستان میں
جو بھی پارلیمنٹ بر سراقتدار آئی اس نے اپنے فوائد کو ترجیح دی۔ قومی دولت
چوری کرنے جیسے افعال کی رائج الوقت قوانین میں صراحت کےساتھ کوئی مناسب
قانون سازی نہ ہونے کے سبب مفاد پرست عناصرطویل عرصے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں
جسکے باعث سالانہ اربوں روپوں کا قومی خزانے کو نقصان کا بوجھ عام عوام کی
جانب منتقل کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں کو حکومتی شاہانہ اخراجات
کی قیمتیں مہنگائی کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہی ہیں۔تو قع تو یہی کی جاتی
رہی ہے کہ الیکشن کمیشن اسکروٹنی کے عمل سے اربوں روپے ہڑپ کرنے والوں کو
انتخابی عمل سے اُن کے خاندان سمیت دور رکھے گا تاکہ یہ لوگ دوبارہ منتخب
ہوکر قومی اثاثوں کو اپنی نجی املاک سمجھ کر استعمال نہ کریں ۔میڈیا کے
ذریعے بار بار الیکشن کمیشن کو یہ شعور بھی اجاگر کیا گیا لیکن بعض اوقات
میڈیا کی توجہ بھی ریٹرنگ افسران کی جانب سے امیدواران کی تضحیک و توہین پر
زیادہ اور مناسب کردار ادا کرنے میں کم رہی۔ عوام کے اصل مسئلے کو درست
طرےقے سے الیکڑونک میڈیا سامنے لانے میں ناکام رہا ہے جس کا فائدہ صرف و
صرف مورثی اور روایتی سیاست دانوں کوپہنچا ۔ہر قسم کی تنصیبات، ریلوے ،
سڑکیں ، عمارتیں ، ٹرانسپورٹ قوم کے اثاثے ہیں لیکن معمولی مفادات کےلئے
انھیں بے دریغ نقصان پہنچایا گیا جس سے ایک طرف لاکھوں افراد محروم ہوئے
بلکہ اکثر عوامی اشتعال کے نتیجے میں اپنے غصے کے اظہار کے طور پر عوام نے
خود انھیں نامناسب طرےقے سے نقصان پہنچایا جس سے پوری قوم کو غیر معمولی
معاشی دباﺅ کا سامنا رہے گا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے ایسے نمائندوں کو بھی
اجازت نامے جاری ہوگئے ہیں جن کا مقصد نوجوان نسل کو معاشی جدوجہد کےلئے
تیار کرنا نہیں ہے بلکہ انہیں ذمے دار شہری بنانے سے روکنے کے عمل میں
مورثی روایتی سیاست دانوں کی کامیابی میں الیکشن کمیشن کے کردار کو کبھی
نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا ۔انتخابات میں اس بار ایسی شخصیات سامنے آچکی
ہیں جن کے دیہی علاقوں میں اسکولوں اور اسپتالوں کی عمارتوں کو اوطاقوں اور
جانوروں کے باڑے کے طور پراستعمال کیا جاتا رہا ہے،یہ طبقات قیام پاکستان
سے آج تک قومی املاک کی لوٹ مار میں ، قومی امانت کو نقصان پہنچانے کے محرک
بنے ہوئے ہیں ، باشعور قوموں میں تبدیلی کےلئے ووٹ کا طریقہ استعمال کیا جا
تا ہے اور عوام اپنا احتجاج ووٹ کے ذریعے درج کرکے ایسے نا پسندیدہ عناصر
کو قانون ساز اداروں سے دور رکھ کر اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر
دےتے ہیں لیکن ہماری 70فیصد عوام خاموش ہوکر اپنے گھروں میں بیٹھے رہتی ہے
اور ان کی قسمت کے فیصلے 30فیصد ایسے ووٹر کر رہے ہوتے ہیں ، جو کسی وڈیرے
، جاگیردار ، خوانین ، ملَک ، سردار یا سرمایہ دار کے وارثتی غلام ہوتے
ہیں۔بحیثیت قوم ہم جب احتجاج درج کرنا چاہتے ہیں تو ان مظاہروں میں بھی ان
کی بے ربط اور نظم و ضبط کے فقدان کا مظاہرہ من الحیثیت قومی ذہینت کا
اظہار ہوتا ہے۔خاموش اکثرےت کے بارے میں ہر انتخابی مہم میں توقع کی جاتی
ہے کہ اس بار خاموش اکثرےت ، ملکی انتخابات میں اجارہ داری کے جمود کو
توڑنے کےلئے اپنا کردار ادا کرے گی ، لیکن ہر انتخابات میں ان کے خاموش
رہنے کی ٹھوس وجوہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ایسے نمائندوں کو حق نمائندگی
دے دینا ہے ، جو خاموش اکثرےت کے معیار پر پورا نہیں اترتے ، اس لئے وہ
بہتر سمجھتے ہوئے ایسی انتخابی عمل سے دور رہتے ہیں ، جس میں انھیں چھوٹے
یا بڑے چور کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی عاقبت خراب ہونے کا ڈر رہتا ہے، ووٹ
ایک مقدس امانت اور اللہ تعالی کے سامنے ایک ٹھوس گو اہی ہے کہ جیسے منتخب
کیا جارہا ہے وہ ملک وقوم کا امین اور صادق نمائندہ ہے ۔چھوٹے یا بڑے چور
کی کوئی اصطلاح اللہ کے قانون میں نہیں پائی جاتی ، سلئے خاموش اکثریت کے
سامنے یہ خوف دامن گیر رہتا ہے وہ کرپٹ نمائندوں کے کسی بھی قسم کی نا
پسندیدہ کاروائی میں ملوث نہ ہوں ، ان کے ہیرا پھیری کے افعال کا حصہ نہ بن
جائیں اور ان کے اس عمل سے ملک و قومکو مطلوب نتائج حاصل نہ ہوسکیں ، جب تک
وطن عزیز میں دہرے معیار اورقوانین کا خاتمہ نہیں ہوتا اور ان پر عملدرٓٓمد
بلا ماتیز نہیں کیا جاتا تو یہ خدشات بہ اتم رہیں گے کہ ملک کبھی بھی کرپٹ
نمائندوں کی وجہ سے ترقی کی منازل تو ایک طرف ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکے
گا ۔ضرورت اس بات کی ہمیشہ رہی ہے کہ قوانین پر عمل درآمد نہیں کرایا جاتا
اس لئے جب تک قوانین پر کماحقہ عملدآمد نہیں ہوگا اس وقت تک چاہیے کتنی
حکومتیں جمہوری مدت پوری کرلیں ، بد ترین حکمرانی ہی کہلائے جائے گی۔الیکشن
کمیشن نے خاموش اکثرےت کو شدید مایوس کیا ہے اس لئے عوام کی مجموعی قوت اس
بار بھی انتخابی عمل سے دور رہے گی ، اور خاموش اکثرےت کے بجائے فرشتے ان
ہی فرشتوں کو دوبارہ منتخب کریں گے جو الیکشن کمیشن کی نام نہاد اسکروٹنی
کے عمل سے گذر کر پاکستان کے اقتدار پر ایکبار پھر قبضہ کرلیں گے۔ |