عبرت انگیز ہیں اونچی اڑان

اللہ ہی زمین و آسمان اور جو کچھ انکے درمیان ہے کا خالق بھی ہے اور بلا شرکت غیرے مالک بھی ہے۔ نہ کوئی تخلیق میں اس کا شریک نہ کوئی ملکیت میں اس کا کوئی حصہ دار۔ انتہائی غیرمرئی ذرہ بھی اسکے سامنے ہے۔ تو اتنابڑا انسانی بت اس سے کسی حال میں اوجھل ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ ہر چیز کو محیط ہے۔ جس انسان کو اس نے صرف اس لیئے پیدا کیا کہ جیسا سورة الملک کی ابتدائی آئت میں ارشاد فرمایا کہ برکت والی ہے وہ ذات جس نے موت اور زندگی کو محض اس لیئے پیدا کیا کہ ظاہر کرے کہ تم میں سے کون اچھے کردار کا مالک ہے۔اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے انسانی کردار کی اہمیت کو اس قدر واضح فرمادیا کہ کسی قسم کا ابہام نہیں رہا۔ اچھے اعمال کا تعین فرمایااور اسکے بدلے اپنے انعامات کا غیر مبہم اعلان فرمایادیا اسی طرح اعمال بد کی وضاحت فرمائی اور غیر مبہم انداز میں ارتکاب بد کے مآل کا ذکر فرمادیا۔ جب نزول قرآن ہوا تو مشرکین و کفار منہ موڑ لیتے اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے یعنی انہیں نصیحت سننا گوارا ہی نہ تھا۔ لیکن ہم نے عملا یہ دیکھا کہ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے کی وجہ سے جو مسلمان ہیں ان کا طرز عمل قرآن و سنت کی نصیحتیں سننے میں مشرکین سے مختلف نظر نہیں آتا۔ مشرکین سے کئی قدم آگے یہود تھے کہ جن کا مطمع نظر مال و زر تھا۔ جس کے حصول کے لیئے جھوٹ فریب کا سہارا لینا تو معمولی بات تھی۔ انکی ان حرکات کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔ اس مال و زر کے لالچ نے انہیں اندھا اور بہرہ کردیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہم قوم و مذہب افراد کا بری طرح استحصال کرتے تھے۔ ان اعمال بد کا نتیجہ آخر لوگوں نے دیکھا اور آج تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے جبکہ موجودہ دور میں بھی یہودیوں کی بدکرداریوں سے دنیا تنگ ہے اور انکا اپنا وجود ایک ذلیل قیدی سے کم نہیں۔ جو لوگ مال و زر اور اقتدار کے حصول میں مذہبی اور اخلاقی حدود کو بری طرح پاما ل کرتے ہیں تو ہمہ وقت ہمہ جہت خبر رکھنے والے وحدہ لاشریک کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔شدید مصائب اور مشکلات کے پہاڑجب سید المرسلین ﷺ پر ٹوٹ پڑے تو اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو بار ہا مرتبہ تسلی دی کہ ہر تنگی کے ساتھ آسانی اور آسانی کے ساتھ تنگی۔ ستمگاروں اور اللہ کے دشمنوں کا یوم احتساب آگیا۔ بڑے بڑے خناس مقام بدر شریف میں جہنم رسید ہوئے تو رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے لیئے نصرت الہی پہلا بڑا تحفہ تھا۔ مسلمانوں کو قانون خداوندی کے نفاذ کا عملی نمونہ دکھا دیا گیا کہ ستمگارانجام کار ذلت و خواری سے دوچار ہوتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ہے کہ جب خون کی پھٹک سے وجود پانیوالا انسان خود سر ہوجاتا ہے۔ اپنے آپکو بے نیاز سمجھنے لگتا ہے ۔ تو اللہ تعالی اسکی گردن میں پھندہ تنگ کردیتا ہے پھر اسکے حواری اور جتھے اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ بے شک تیرے رب کی گرفت بڑی سخت ہے۔ کاش کہ مسلمان قرآن پڑھتے تو اپنے سیرت و کردار کو قرآنی سانچے میں ڈھال لیتے۔ جہاں تک میری محدود معلومات ہیں ہوش سنبھالنے کے بعد سے آج تک کسی ملک کے بارے نہیں سنا کہ عوامی نمائندے اتنی بڑی تعداد میں اپنے کرتوتوں کی بنا پر پس زنداں ہوئے ہوں جتنے ہمارے ہاں ہورہے ہیںاور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کی ترقی معکوس کے ذمہ دار ہمارے یہی نام نہاد نمائندے ہیں جنہوں نے دولت ،دھونس اور لوٹ مار کی سیاست کی ہے۔ انہوں نے اس ملک کے عوام کو بے کس و ناچار سمجھ کر عوام کی دولت اور وسائل پر غاصبانہ قبضے کیئے۔ انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ مظلوم مگر عوام پاکستان ساز عوام کا والی اور سرپرست وہ ہے جو ملک کا مالک ہے اقتدار دینے والا لینے والاہے عزت اور ذلت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔

عوام کے ایمان میں مزید پختگی آگئی جب انکے رب نے مگرمچھوں کا علاج شروع کیا۔ جو سزائیں پارہے ہیں وہ اپنے کیئے کا بدلہ پا رہے ہیں اور دوسروں کے لیئے عبر ت کا نشاں بن رہے ہیں۔ کچھ چور اچکے چھپے مگرمچھ باں باں کررہے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے جج صاحبان زیادتی کررہے ہیں۔ جب ان مگرمچھوں کے اشاروں پر یہی جج انصاف کا خون کرتے تھے تو کرپٹ حکمران انہیں ترقیاں دیتے تھے۔ آج وہی جج جب انصاف کرتے ہیں تو انہیں ناگوار گذرتا ہے۔کوئی کہتا کہ نماز، کلمے، دعائے قنوت وغیرہ کیوں سنی جارہی ہے؟کاش کہ اقتدار کے خواہشمند باشعور ہوتے تو اس عمل کو احسن الاعمال قرار دیتے۔ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے مقدس ایوانوں میں جانے والوں کو ضروریات دین کا علم ہونا چاہیئے بلکہ اس قدر ہوکہ وہ اسلامی اقدار کے مبلغ ہوں۔میں اپنے ایک کالم میں لکھ چکا ہوں کہ مسلمان قوم کے نمائندے قرآن کریم ناظرہ مع ترجمہ ، اعمال سے متعلق احادیث مبارکہ، اور ضروری فقہی تعلیمات سے بہرہ مند ہوں ۔ سنت رسول اللہ ﷺ سے قلبی محبت و مودت رکھنے والے ہوںکہ نماز میں امامت کے اہل ہوں۔ ہزاروں لاکھوں کے نمائندے دوسروں سے ممتاز ہوں۔ الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران کافی حد تک انہی خطوط پر کام کررہے ہیں۔ سوالات کے بارے صوبہ کے پی کے امیدواروں نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔ صرف پنجاب کے امیدواروں کی حالت غیر ہورہی ہے کیونکہ دونوں صوبوں میں اسلای تعلیمات اور اسلام پسندی میں بڑا فرق ہے۔ پنجاب کی مٹی تو اچھی ہے مگر مصنوعی کھادنے اسکی حقیقی پہچان ختم کردی ہے جیسا کہ سلمان تاثیر کے دیرینہ ہم نوالہ و ہم پیالہ اور ہم مشرب و مشروب نجم سیٹھی۔ملک کے عوام مجموعی طور پر استحکام پاکستان کے لیئے شفاف اور صالح قیادت کے منصوبوں پر کام کررہے ہیں اور (نظام سقہ)سیٹھی بسنت کی بحالی کا منصوبہ لے بیٹھے ہیں۔۔ سیٹھی صاحب اس عمر میں بھی جوان منچلے نکلے۔ ان کا مسئلہ اور ہے پتنگ بازی محض بہانہ سازی۔بوکاٹاحسیناﺅں کے بھرپور اندازجذبات خفتہ قلب پیرانہ سالی کی بحالی کی کوشش ہے۔ جناب کو معلوم نہیں دھاتی ڈور سے جتنے لوگ قتل ہونگے جناب سیٹھی کے خلاف مقدمات قتل درج ہونگے۔ اگر انکے خلاف ریفرنس دائر ہوجائے کہ جناب محض لطائف گو ہیں صحافی نہیں ہیں۔ سیکولر نظریات کا حامل وزیر اعلی پنجاب کیوں ؟
Prof Akbar Hashmi
About the Author: Prof Akbar Hashmi Read More Articles by Prof Akbar Hashmi: 2 Articles with 2649 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.