تالیوں اور گالیوں کی سیاست

وطنِ عزیز میں آج کل سب کو الیکشن کا بخار چڑھا ہوا ہے،انتخابی امیدوارں کا اسکر وٹنی کے مراحل سے گزرنا ان کے لئے کونین کی گولی کھانے کے مترادف ہے،سیاسی جماعتیں ایک دفعہ پھر اپنے بلند بانگ دعوؤں ،ملک و قوم کی تقدیر بدل دینے جیسے منشور لے کر اس سیاسی کھیل کے میدان میں کود پڑی ہیں ۔ ،گا ، گے ،گی کی گردان ایک دفعہ پھر سننے کو مل رہی ہے ۔۔سوشل میڈیا ہو کہ الیکڑونک میڈیا ،اخبار ہو کہ رسائل سب کو ایک ہی دھن سوار ہے کہ کہیں سے بھی کوئی چٹ پٹی خبر ملے تو اسکی پورے لوازمات کے ساتھ نشرو اشاعت کر ے اوراسکا وہ حشر کریں کہ خود ہی اس کھیل سے آؤٹ ہو جائے اور توبہ توبہ کرتے ہوئے سیا ست سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کشی اختیار کر لے۔ اگر کسی کو جعلی ڈگری کیس میں سزا ہوئی تو اس کے رونے دھونے کے مناظر فل بیک گراونڈ میوزک کے ساتھ بار بار دیکھائے جاتے ہیں، ریٹرننگ آفیسرز کے پوچھے گئے سوالات کا جواب کیا غلط دے دیا،ایک ہی کلپ بار بار چلا کر اس کی مزید بے عزتی یا بِستی خراب کر دی جاتی ہے ۔

آفرین ہے اقبال کے ان شاھینوں پر کہ اپنے خلاف اتنا کچھ دیکھ کر بھی ان دیکھی کر دیتے ہیں اور اتنا کچھ سننے کے بعد بھی ان سنی کر دیتے ہیں۔ ایسے مستقل مزاج سیاست دان پورے کرۂ ارض پر کہیں نہیں ملیں گے،سوائے پاکستان کے ۔عوم کو بھی خوب تفریح کا موقع ہاتھ لگا ہے ۔اب کے تو بظاہر یوں لگتا ہے کہ جیسے ان سب کی شامت اعمال کچھ زیادہ ہی آگئی ہے ۔

جعلی ڈگری کیس کا معاملہ کیا کم تھا کہ اب آئین کے آرٹیکل 62 اور63 کی دفعات کے تنا ظر میں بنیادی اسلامی معلومات سے متعلق سوالات پوچھے جا رہے ہیں ۔جو ان کے سروں پر لٹکتی ہوئی تلوار کی مانند ہیں ،گویا کہ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ،اُدھرڈوبے اِدھر نکلے۔۔والا حساب ہے،جس میں اکثریت فیل ہوتی نظر آتی ہے۔حساب کتاب اگر اپنی دولت جمع کرنے سے متعلق ہوتا تو پھر یقینا کامیاب ہو ہی جاتے ۔کئی ایک تو ایسے بنیادی سوالات تھے کہ اگر چھوٹے بچے سے بھی پوچھے جاتے تو وہ بھی با آسانی فر فر ان کے جواب دے دیتا، اچھی بات ہے کے بچے سیاست میں حصہ نہیں لیتے۔۔۔اس سے تو بڑے ہی کھلواڑ کر سکتے ہیں۔

ہم پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کہتے نہیں تھکتے ،مگر افسوس کہ نہ جمہور یت کا مطلب پتہ ہے نہ ہی اسلام کی ابتدائی اور بنیادی معلومات کا علم ہے۔لوٹ کھسوٹ،کرپشن ،رشوت ،سفارش ،ملک و قوم کے پیسوں سے کی گئی سیروسیاحت،اور دولت کے انبار جمع کرنے سے فرصت ملے تو دینی علوم سیکھنے اور عمل کرنے کی طرف بھی توجہ ہو۔۔

قرآن پاک ہر مسلمان کے لئے قابلِ احترام اور مقدس کتاب کا درجہ رکھتاہے۔مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والے ہر بچے کی ابتدائی تعلیم ہی اس کتاب کے پڑھنے سے شروع ہوتی ہے۔ عوام کی خدمت کا نعر ۂ مستانہ بلند کرنے والے نام نہادسیاست دانوں کو اگر بسم اﷲ کی ب تک کا بھی علم نہیں ہے ۔کلمہ پڑھنا ،اورآسان ترین سورتیں سنانی بھی مشکل ہو رہی ہیں ، قومی ترانہ کے الفاظ تک یاد نہیں توایسے لوگ کس طرح پاکستان اور اسلام کی خدمت سر انجام دیں گے۔؟یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے ۔!

یقینا پھر ایسے حکمران ہی سامنے آتے ہیں جو اﷲ کے نام کا ورد کرنے کی بجائے، دولت، دولت کی تسبیح کرتے نظر آتے ہیں، وہ احساس سے عاری ہوتے ہیں ۔بے حسی ان کے رگ ورپے میں سراعت کرچکی ہوتی ہے۔۔خوفِ خدا ان کے دل سے نکل گیا ہوتا ہے ، ان کے دل سخت ہو چکے ہوتے ہیں ۔ ان کی آنکھوں پر پردہ ہوتا ہے ۔ظلم ہوتا ہوا دیکھتے ہیں ،مگر اس کا تدارک نہیں کرتے ۔ان کے کانوں میں مظلوم وبے کس ،مجبور غریب عوام کی صدائیں اور چیخوں پکار پہنچ نہیں پاتی نہ ہی سنائی نہیں دیتی۔

ان حکمرانوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ قرآنِ پاک جواہرات کی تھیلی ہے ۔اس پاک کلام کی فرمودہ باتیں ایسے قیمتی ہیرے اور موتی ہیں کہ اگر ان پر نیک نیتی سے عمل کیا جاتا ،تو ہر حکمران اپنے ہی ملک کی جڑیں نہ کاٹ رہا ہوتا ،بلکہ نیکی اور تقوی کی دولت سے مالامال ہوتا ۔جس کام کی ابتداء اﷲ تعالٰی کے بابرکت نام سے نہ کی جائے ،اس میں کیا خاک برکت ہو گی۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اور ملک اﷲ تعالی کی ،رحمتوں اور فضلوں سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ باوجود اس کے کہ اس ملک میں اﷲ تعالی کی بیشمار نعمتیں موجود ہیں ۔حب الوطنی جو کہ دین و ایمان کا حصہ ہے،ناپید ہوتی جا رہی ہے ۔ کسی کو خوفِ خدا نہیں ۔

وہ حکمران جو بظاہر عوام کے سامنے آپس میں دست و گریباں تھے،نازیبا اور قابلِ اعتراض گفتگو سے بھی گریز نہ کرتے تھے حکومت کی مدت ختم ہوتے ہی شیروشکر ہو کے،یوں ساتھ ساتھ بیٹھے ہیں کہ جیسے کبھی ایک دوسرے کے خلاف کچھ کہا ہی نہ ہو۔بلکہ عوام کو بیوقوف بنانے پر ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس ہنس کے گفتگو کر رہے ہیں۔۔اور پاکستانی عوام ،’’محو حیرت ہوں کہ کیا سے کیا ہو جائے گا‘‘ کی تصویر بنی حیرت سے ان کو تک رہی ہے۔

حکمران ، رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ معاشرے کے عکاس اور آئینہ دار ہوتے ہیں ۔حکمران اپنے آپ کو جس سانچے میں ڈالیں گے ان کی دیکھا دیکھی عوم بھی ویسے ہی اپنے آپ کو ڈھالتی چلی جائے گی۔

ایک طرف تو عشقِ رسول کا دعوی ہے ،اسلام سے سچی محبت کا زبانی کلامی پرچار بھی دن رات کیا جاتا ہے ،دوسری طرف عمل صفر ہے ،امتیازی قوانین کا نفاد تو ہو گیا ،مگر اس کے غلط استعمال کو روکنے کی ہمت اور جراًت پیدا نہ ہو سکی،اسلام کس قدر پیارا،پرامن اور سلامتی والا مذہب ہے ، مگر اس سے محبت و وفاداری کا یہ حال ہے کہ بنیادی اسلامی معلومات سے ہی نابلد ہیں۔ ہم مقرر یہ سوال دُہرانے میں حق بجانب ہیں کہ کیا،دین سے سچی محبت کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ کم از کم بنیادی اورصیح معلومات کا ادراک ہو ،؟؟کیا ملک و قوم سے محبت اور ہمدردی کا یہ تقاضا نہیں کہ ملک کی تاریخ سے واقفیت ہو اور کچھ نہیں تو کم از کم قومی ترانہ ہی یاد ہو۔ کیاایسے نمائندگان پاکستان اور اسلام کی خدمت کا بیڑہ اُٹھائیں گے،؟؟

جن نمائندگان کی سیاست جھوٹ،کرپشن،رشوت،اور ناقص معلومات پر مبنی ہو وہ کیا خاک اس ملک کی تعمیر و ترقی کاخیال کریں گے ،ایسے شخص کی تو بس ایک ہی سوچ ہو گی کہ جتنا ملک باقی رہ گیا ہے اسے بھی لوٹ کے کھا جاؤ۔

ریٹرننگ آفیسرز کے ہاتھوں ان بچارے نمائیندگان کی یہ حالت دیکھ کر کچھ کو ان پر رحم آگیا اور کئے گئے سوالات پر اعتراض کردیا گیا ،ارے بھئی !جب آپ نے ایک قانون بنا ہی دیا ہے تو اس پر عمل کرنے دیں، کیا ایسے لوگ ہمدردی کے مستحق ہیں،بار بار یہ بات دہرائی جا رہی ہے کہ جس طرح کے سوالات پوچھے جا رہے ہیں وہ اﷲ اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے ،۔۔بجا۔۔ تو کیا پھر ان سے یہ سوالات پوچھے جائیں،کہ آپ نے کتنے بنکوں سے قرضہ لیا اور کتنوں کو واپس کیا۔اپنے اور خاندان کو فائدہ پہنچانے کے علاوہ ملک و قوم کی کیا خدمت کی ہے۔ملک سے دہشت گردی اور غربت کے خاتمے کے لئے کون سے عملی اقدامات کئے ہیں ،آپ جو اس قدر ملوں اور کارخانوں کے مالک ہیں تو کیا ٹیکس بھی دیتے ہیں؟؟پاکستان کے خزانے میں کچھ چھوڑا بھی ہے کہ خالی کر دیا ہے ،ریٹرننگ آفیسرز کو یقینا ان کے جوابات کا پتہ ہو گا کہ وہ کیا ہوں گے ،اور آپ سب کو بھی پتہ ہے ۔۔۔کیا ان سوالات سے متعلق اﷲ کے حضور کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی؟۔۔فرق صرف اتنا ہے کہ اُن سوالات کا تعلق حقوق اﷲ سے ہے ،اور اِن سوالات کا تعلق حقوق العباد سے ہے،اور دونوں کی ادئیگی فرض ہے۔

الغرض پاکستان کی سیاست کے عجیب ہی رنگ ڈھنگ ہیں،نت نئے ڈھونگ رچا کر عوام کے جزبات و احساسات سے کھیلا جا رہا ہے ،گالیوں ،تالیوں اور ہوشربا الزامات لگا کر سیاسی اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے۔کسی کے خلاف بیان بازی کرنی ،کسی کے عیب گنوانے ہوں،الزامات کی بارش کرنی ہو ،تو علم و معرفت اور معلومات کا یہ خزانہ دلائل اور ثبوت کے ساتھ وافر مقدار میں دستیاب ہو گا۔

ان سب باتوں کے باوجود عوام کو خدا کے بعد ان حکمرانوں سے اایک امید سی بندھی ہوئی ہے۔ایک آس کا
دامن تھاما ہوا ہے کہ شاہد اب کے سیاست میں اور ملکی حالات میں کچھ مثبت تبدیلی آئے گی،جو کہ ان کی تقدیر بدل دے گی ،مگر یہ بھی یاد رہے کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ، جس کو اپنی حالت کے بدلنے کا خود خیال نہ ہو۔
مریم ثمر

Saima Maryam
About the Author: Saima Maryam Read More Articles by Saima Maryam: 49 Articles with 49281 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.