میرا ایک دوست پنجاب کے ضلع
چکوال کا رہنے والا تھا۔اس کی عادت تھی کہ گفتگو کے دوران عموما ایک یہ
جملہ بولتا تھا کہ ” یار کی کراں ،کُتیا چوروں دے نال ملی ہو ئی ہے “ (یار
کیا کریں ، کُتیا چوروں کے ساتھ ملی ہوئی ہے)۔مجھے آج ان کا یہ جملہ بار
باراس لئے یاد آ رہا ہے کہ وطنِ عزیز میں الیکشن کی گہما گہمی عروج پر
ہے،مکانوں،دکانوں اور بازاروں میں سیا سی جما عتوں کے جھنڈے مختلف رنگوں
میں لہراتے نظر آ رہے ہیں۔مگر جوچیز نہیں نظر آ رہی ہے۔وہ صاف،شفاف اور غیر
جا بدارانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔
آ ئیے ! اس بات کا جا ئزہ لیتے ہیں کہ الیکشن کمیشن،جس کا بنیادی فرض صاف و
شفاف الیکشن کا انعقاد ہے،وہ اس ضمن میں کیا کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ ایک جمہوری حکومت کے سائے تلے یہ پاکستان کا پہلا الیکشن ہے۔یہ
تو آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ 2008 کے انتخابات میں متعدد افراد جعلی ڈگریوں
کی بنیاد پر اسمبلیوں میں جا پہنچے تھے ۔چونکہ ان کے ہاں جعلی اور غلط کام
کرنا جائز تھا۔ لہذا انہوں نے مو قع ملتے ہی ملکی خزانے سے لو ٹ مار شروع
کر دی اور گذشتہ پانچ سالوں میں ٹرانسپریسی انٹر نیشنل کے مطابق ان بر سرِ
اقتدار اراکین نے تقریبا آٹھ ہزار ارب روپے کی لوٹ مار کی۔جو 180ارب ڈالر
کے برابر ہے۔جبکہ ہم امریکہ سے 2 ارب ڈالر کی سالانہ امداد منتیں کر کر کے
حاصل کرتے ہیں۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ ان جعلی ڈ گری ہو لڈروں نے ملک
کو کس طریقہ سے بری طرح نچوڑا۔اور یہ سب کچھ معزز عدلیہ اور پاک فوج کے رو
برو ہوتا رہا۔سار لوٹا ہوا مال بیرونِ ملک منتقل ہوتا رہا جبکہ ملکی صنعتیں
تباہ ہو گئیں۔اگر پانچ سال پہلے یعنی 2008کے انتخابات کے وقت آئین کے آ
رٹیکل باسٹھ،تریسٹھ پر عمل ہو تا تو یقینا پاکستان آ ج جس تبا ہی کے دہانے
پر کھڑا ہے اس سے محفوظ رہتا۔
خیر ما ضی میں تو جو ہوا، سو ہوا ۔لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اب
بھی احساسِ زیاں نہیں ہے اور ہما را الیکشن کمیشن اب بھی ” چوروں کو بچاؤ “
پالیسی پر چل رہا ہے اور ہر ممکن کو شش ہے کہ ان جعلسازوں کو جانچ پڑتال سے
چھٹکارا مل جائے اور اگلے انتخابات میں پھر سے بحیثیتِ امیدوار اہل قرار پا
ئیں۔الیکشن کمیشن نے ان ستائیس ارکانِ اسمبلی کو بھی اگلے عام انتخابات کے
لئے اہل قرار دے دیا ہے جن کی ڈ گریوں کو ہائر ایجو کیشن کمیشن نے با قاعدہ
جعلی قرار دے دیا تھا۔علاوہ ازیں 189 ارکانِ پار لیمنٹ ایسے ہیں جن کو
گذشتہ تین سال سے ہا ئیر ایجو کیشن کمیشن اپنے تعلیمی اسناد جمع کرنے کو
کہہ رہا ہے۔باربار یاد دہا نیوں کے با وجود انہوں نے جانچ پڑتال کے لئے
اپنی تعلیمی دستاویزات HECکے پاس جمع نہیں کرائیں۔بلکہ اب تو انہوں نے صاف
انکار ہی کر دیا ہے، ظاہر ہے یہ سپریم کورٹ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی
ہے۔اصولا ً اور قانوناً اگلے انتخابات کے لئے انہیں نا اہل قرار دے دینا
چاہئیے تھا مگر افسوس کہ ایسا بھی نہیں ہوا۔الیکشن کمیشن نے ایک خط جاری
کیا تھا کہ ۲۲ فروری تک 249 سابق ارکانِ صوبائی و قومی اسمبلی اپنے تمام
دستاویزات جمع کرائیں ورنہ ان کے ڈ گریوں کو جعلی تصور کیا جائیگا اور ان
کے خلاف فو جداری کاروائی بھی کی جا ئیگی۔ مگر افسوس کہ ۲۲ فروری کب کا گزر
چکا ہے مگر ان کے خلاف کوئی بھی کاروائی الیکشن کمیشن نے نہیں کی ہے۔
ہو نا تو یہ چا ہئے تھا،بلکہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت تھی کہ اگلی حکومت
صاف و شفاف کردار کے مالک افراد کے سپرد کی جاتی۔مگر افسوس کہ الیکشن کمیشن
” چوروں کو بچاو “ پالیسی کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے اور بقول میرے دوست
، یوں محسوس ہوتا ہے کہ کُتیا چوروں نال ملی ہو ئی ہے۔اب ایک ہی صورت باقی
ہے کہ ہم اپناووٹ بغیر کسی لالچ اور دباوء کے سوچ سمجھ کر استعمال کریں، ان
جعلی ڈگری ہو لڈروں،چوروں لٹیروں کو ٹھکرا دیں اور اپنے ووٹ سے ملک کی قسمت
بد ل دیں۔۔ |