حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ
فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے شراب پی رکھی تھی۔
حضور ﷺ کے فرمانے پر صحابہ ؓ نے اسے مارا۔ کسی نے اسے اپنی جوتی سے مارا
کسی نے ہاتھ سے اور کسی نے کپڑے (کوکوڑا بنا کر اس) سے مارا۔ پھر آپﷺ نے
فرمایا اب بس کرو پھر حضور ﷺ کے فرمانے پر صحابہ ؓ نے اسے ملامت کی اور اس
سے کہا تمہیں اللہ کے رسول ﷺ سے شرم نہیں آتی تم یہ (برا) کام کرتے ہو؟ پھر
حضور ﷺ نے اسے چھوڑ دیا جب وہ پشت پھیر کر چلا گیا تو لوگ اسے بددعادینے
لگے اور اسے برا بھلا کہنے لگے۔ کسی نے یہاں تک کہہ دیا اے اللہ !ا سے رسوا
فرما۔ اے اللہ! اس پر لعنت بھیج۔ حضور ﷺ نے فرمایا ایسے نہ کہو اور اپنے
بھائی کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بنو بلکہ یہ دعا کرواے اللہ! اس کی مغفرت
فرما۔ اے اللہ ! اسے ہدایت دے ۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ تم ایسے نہ کہو۔
شیطان کی مدد نہ کرو بلکہ یہ کہو اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے۔
قارئین پاکستان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ پاکستان
کو اگر ایک زندہ کرامت کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ 1947میں قیام پاکستان
کے فوراً ؓؑبعد ہندو رہنماﺅں کایہ خیال تھا کہ یہ لولی لنگڑی مملکت بہت جلد
دیوالیہ ہو کر ٹوٹ جائے گی اور دوبارہ ہندوستان کا حصہ بن جائے گی۔ لیکن
چونکہ مملکت خداداد پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں مخلص شہیدوں کا خون شامل
تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس خون کی لاج رکھی اور حیرت انگیز طور پر یہ
ملک نہ صرف دنیا کے نقشے پر قائم رکھا بلکہ ایسے ایسے واقعات پیش آئے کہ
پوری دنیا دانتوںتلے انگلیاں دبانے پر مجبور ہو گئی وہ ملک جہاں پر ایک
سوئی بھی مقامی سطح پر تیار نہیں کی جا سکتی تھی اور جو ”کنزیومرمارکیٹ“ کی
ایک طفیلی حیثیت رکھتا تھا اس ملک میں ایک ایسا کام ہوا کہ جس نے دنیا کی
سپر پاور ز کو ہلا کر رکھ دیا قائداعظم محمد علی جناح ؒ ، نواب زادہ لیاقت
علی خان اور ان کے دیگر رفقاءکار کے بعد اس ملک پر اقتدار کے پجاریوں نے
کبھی تو جمہوریت کے نام پر شب خون مارا اور کبھی انقلاب کے نام پر ڈکٹیٹر
شپ نافذ کی گئی دھوپ اور چھاﺅں کے اس سفر میں انٹرنیشنل ایجنسیز نے رپورٹ
کیا ہے کہ پاکستانی کرپٹ حکمرانوں، بیوروکریٹس، فوجی جرنیلوں اور جس جس کی
جہاں جہاں تک پہنچ تھی ان سب لوگوں نے مل جل کر کئی سو ارب روپے ملکی معیشت
سے لوٹے اور یہ تمام لوٹی ہوئی دولت اس وقت سوئس بنکوں سے لے کر امریکہ اور
یورپین ممالک کے علاوہ ہمارے سابقہ آقا برطانیہ اور ہمارے مذہبی عقیدت کے
مرکز سعودی عرب اور مڈل ایسٹ کی سرزمین پر موجود ہے۔ قائداعظم محمد علی
جناح ؒ نے قیام پاکستان کے فوراً بعد ایک دل شکن سچائی کا اظہار کیا تھا”
میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں“ اور اس سچائی کے حوالے سے عظیم رہنما سردار
عبدالرب نشتر نے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر یہ شعر پڑھا تھا ۔
بس اتنی بات پر چھینی گئی تھی رہبری ہم سے
کہ ہم سے قافلے منزل پہ لٹوائے نہیں جاتے
قارئین غلام محمد سے لے کر سابق جنرل مشرف جیسے ڈکٹیٹر تک ایک عجیب و غریب
داستان ِ طلسم ہوش ربا پاکستان کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے رب کعبہ کی قسم
اگر کوئی اور ملک ان حادثوں اور بد عنوانیوں کا شکار ہوتا جن سے ہمارا ملک
گزرا ہے تو نجانے کب کا صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا لیکن یہ ان لاکھوں عظیم
شہداءکے خون کا صدقہ ہے کہ جس کی وجہ سے مملکت خداد داد پاکستان قائم دائم
ہے اور انشاءاللہ تعالیٰ وہ وقت دور نہیں کہ جب یہ ملک پوری دنیا کی قیادت
کرے گا۔ اس ملک میں عظیم ایٹمی سائنسدان فخر امت مسلمہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان
نے ایٹم بم بنا کر اسلامی ممالک کو عزت کے ساتھ جینے کی وجہ فراہم کی۔ زرا
اندازہ کیا جائے کہ وہ ملک کہ جہاں سوئی سے لے کر ہوائی جہاز تک ہر چیز
بیرون ملک سے آتی ہے اور جہاں پر کسی بھی قسم کی ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے
وہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی پوری ٹیم نے اتنا بڑا کارنامہ سرانجام
دے دیا۔ اگریہ ایک اور زندہ کرامت نہیں تو اور کیا ہے اس بات پر غور کریں۔
قارئین جنرل پرویز مشرف تک کی کہانی سب لوگ جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں
کہ کس طریقے سے ایک عظیم ایٹمی سائنسدان اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر
خان کو جنرل پرویز مشرف نے ایک سازش کے تحت ”جھوٹا اقبال جرم“کروایا کہ وہ
”جوہری سمگلنگ“ میں ملوث رہے اور انہوں نے مختلف ممالک کو ایٹمی ٹیکنالوجی
کے لیے حساس نوعیت کی معلومات فراہم کیں اس اقبال جرم کے لیے جنرل مشرف نے
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو یہ دھوکہ دیا تھا کہ اگر انہوں نے تمام الزامات
اپنے سر پر نہ لیے تو پاکستان کو ایک دہشت گرد سٹیٹ قرار دیا جا سکتا ہے
اور امریکہ کے اشارے پر پوری دنیا بائیکاٹ کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان
نے اپنی پوری زندگی اس پاکستان کے لیے خرچ کی تھی اور پاکستان ان آئیڈیل
اور محبتوں کا مرکز اور محور تھا اور ہے بھی۔ انہوں نے ناکردہ گناہ قبول کر
لیا اور اس کے بعد جو سلوک ڈکٹیٹر مشرف نے اس عظیم انسان کے ساتھ کیا وہ
اخلاقیات کی روشنی میں ناقابل بیان ہے۔ لیکن دنیا مکافات عمل ہے اور صدائے
باز گشت کی طرح انسان کا اپنا عمل لوٹ کر اس کے سامنے آتا ہے۔ جنرل پرویز
مشرف نے اس ملک کے آئین کو توڑا ، ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹا اور
دس سال تک اس ملک میں ”اصلاحات اور انقلاب“ کے نام پر وہ وہ کارنامے انجام
دیئے کہ جو آج کانٹوں کی فصل بن کر پورے ملک میں تباہی اور بربادی پھیلا
رہے ہیں۔ کیا کسی کو یاد نہیں کہ جب انکل سام نے افغانستان پر یلغار کرتے
ہوئے جنرل مشرف ہی کی دی گئی ”لاجسٹک سپورٹ“ کے ذریعے نہ صرف لاکھوں
مسلمانوں کا قتل عام کیا بلکہ اس سے ایک قدم آگے جاتے ہوئے ”دہشت گردی کے
خلاف عالمی جنگ“ کے نام پر پاکستان میں بلیک واٹر اور سی آئی اے کے ہزاروں
ایجنٹس داخل کر کے ”بگ گیم شروع کر دی۔
قارئین امریکہ کی اس تمام گیم کے اندر کرپٹ سیاستدان ، کرپٹ فوجی قیادت،
کرپٹ بیوروکریٹس اور ابلیس کے وہ تمام حواری مہرے بن کر کام کر رہے ہیں کہ
جو نہ تو پاکستان کے قیام کے وسیع تر مقاصد کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی روز
جزو سزا پر یقین رکھتے ہیں۔ اس وقت جنرل مشرف کے بعد ”جمہوریت ہی سب سے بڑا
انتقام ہے “ کے نام پر پانچ سال اس ملک کی نظریاتی اساس سے لے کر معاشی
بنیادوں کی جڑیں ہلا دینے والے ”زرداری بھٹو“کاک ٹیل حکومت نے اٹھارہ کروڑ
پاکستانی عوام کو انقلاب اور تبدیلی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور
کر دیا۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل سے لے کر دنیا بھر کی مختلف تنظیموں نے
پاکستان میں حالیہ پانچ سالوں کے دوران کی جانے والی کرپشن کے حوالے سے جو
حقائق اور اعداد و شمار پیش کیے ہیں وہ دل ہلا دینے والے ہیں۔ عوامی زبان
میں بات کریں تو پانچ سالوںکے دوران قوت خرید میں بے تحاشا کمی واقع ہوئی
جس کی وجہ کھربوں روپے کے کرنسی نوٹ چھاپتے ہوئے ملکی کرنسی کو ڈی ویلیو
کرنا تھا اور دوسری جانب اشیاءخور د و نوش سے لے کر ہر چیز کی قیمت میں سو
فیصد سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ غربت ، بھوک
اور فاقوں کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی، پٹرول گیس، ڈیزل
سمیت ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے غریب عوام اس وقت دو وقت کی
روٹی پوری کرنے سے قاصر ہیں اور اس کا تمام تر سہرا جاتا ہے کرپٹ ترین
جمہوری زرداروں اور ان سے پہلے گزرے فوجی آمروں اور دیگر کرپٹ حکمرانوں کے
سر۔ ۔۔
ٓقارئین حالیہ آمدہ انتخابات میں پوری قوم اگر کرپشن اور کرپٹ حکمرانوں سے
جان چھڑانا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ قیام پاکستان کے مقاصد کو سمجھے
اور اقبال کا مومن اور شاہین بن کر تبدیلی کے لیے عملی جدوجہد کرے۔ بقول
علامہ اقبال ؒ
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایہءجبریل ؑا میں بندہ خاکی
ہے اس کا نشین نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیارا س کے ارادے
دنیا میں بھی میزان قیامت میں بھی میزان
جس سے جگرلالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاﺅں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب و روز
آہنگ میں یکتا صفت ِسورہءرحمن
بنتے ہیں مری کارگہِ فکر میں انجم
لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان
قارئین انتخابات کے دوران ہمیں پورا یقین ہے کہ پاکستان کی نظریاتی اساس کے
دشمن شکست فاش سے دو چار ہوں گے اور ایسی قیادت سامنے آئے گی جو قیام
پاکستان کے وسیع تر مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی۔ یہی
وقت کا تقاضا ہے ۔
آخر حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ماسٹر صاحب نے بچوں کو خاموشی کے فائدے بتائے اور سیر حاصل لیکچر کے بعد یہ
ثابت کیا کہ زیادہ بولنے والا حماقت کرتا ہے انہوں نے بچوں سے سوال کیا”جو
شخص مسلسل بولتا ہواور کسی دوسرے کو بات کرنے کا موقع نہ دیتا ہو اسے کیا
کہیں گے“
کلاس کے آخری کونے سے آواز آئی
”ماسٹر صاحب“
قارئین ہمیں لگتا ہے کہ ہم بھی کرپشن کے خلاف جو آواز بلند کر رہے ہیں اور
مسلسل بولتے اور لکھتے جا رہے ہیں شاید ہم بھی چھوٹے موٹے ”ماسٹر صاحب “ بن
چکے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔آمین۔ |