الیکش کا طبل بج چکا ہے الٹی
گنتی شروع ہے ،پورے پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی
انتخابی مہمیں چل رہی ہیں،پاکستان میں پنجاب کو اس لحاظ سے اہمیت حاصل ہے
کہ یہ وفاق میں حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ،پچھلے تمام الیکشنز
میں بھی یہاں پر دو بڑی جماعتوں کا کانٹے دار مقابلہ ہوتا ہے جن میں
پاکستان مسلم لیگ ن کا پلڑا ابھی تک بھاری ہی دکھائی دیتا آ رہا ہے ،اس بار
بھی مسلم لیگ ن کے مقابلے میں جس جماعت نے مقابلہ کرنا ہے وہ پاکستان تحریک
انصاف ہے ،بلا شک و شبہ تحریک انصاف 30اکتوبر کے” معجزاتی جلسے“میں ایک بڑی
جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی جس نے پاکستان مسلم لیگ ن کوہلا کر رکھ
دیا،لیکن میاں برادران ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں ،جنہیں حالات نے بہت
کچھ سکھا دیا ہے انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کو آسان ہدف کے طور پر نہیں
لیا،بلکہ مقابلہ کے لئے مناسب حکمت عملی اپنا لی۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف جسے کل تک لوگ تانگہ پارٹی کے نام سے یاد
کرتے تھے جس میں صرف ان کا چیئرمین ہی نظر آتا تھا ،آج پنجاب کی دوسری بڑی
سیاسی پارٹی کے طور پر سامنے آرہی ہے جس میں کئی سیاستدان شامل ہیں ،عمران
خان ،میاں برادران کی نسبت سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے کم ماہر دکھائی دیتے ہیں
جس کا فائدہ یقیناََ شریف برادران کو ہوگا۔ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی پاکستان
مسلم لیگ ن نے بڑے غوروخوض سے کام کیا ،جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف میں
امیدوار دھڑوں میں تقسیم نظر آئے اور کئی ایک نے پارٹی کو خیر باد بھی کہ
دیا۔
تبدیلی کا لفظ بڑا بھلا محسوس ہوتا ہے اور اس وقت پاکستان میں ہر شخص
تبدیلی کا خواہاں ہیں شاید اس لئے کپتان نے بھی پاکستانی قوم کے جذبات’
تبدیلی‘ کو اپنا نعرہ بنا لیا ہے اور قوم کو اک نیا پاکستان دینے کا عزم
کئے ہوئے ہیں ہر سیاسی جماعت کی طرح پاکستان تحریک انصاف کا منشور بھی
پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی ہی ہے لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو
کپتان صاحب چار حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں ،تین حلقوں میں ان کی جیتنے
والی پوزیشن کچھ مشکوک ہے ۔N-A 1 سے ان کا مقابلہ اے ۔این۔پی کے امیدوار
غلام احمد بلور سے ہو گا ،جنہیں اپنے ووٹ کے ساتھ کچھ بشیر احمد بلور اور
حالیہ سانحہ کی وجہ سے ہمدردی کا ووٹ بھی پڑے گا،جو انہیں آسانی سے جتوا
سکتا ہے ۔
N-A 56 پاکستان مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے یہ سیٹ ہمیشہ ن لیگ کے حصے میں آئی ہے
اور حنیف عباسی کا اپنا ووٹ بینک بھی اس میں کلیدی کردار ادا کرے گا،N-A
122 میں کپتان کا مقابلہ ایاز صادق سے ہو گا جس کی انتخابی مہم چلانے میں
پاکستان مسلم لیگ کی قیادت اہم کردار ادا کرے گی،اب رہ گیا کپتان کا آبائی
حلقہ۔۔۔
N-A 71 میانوالی کا حلقہ ہے، 2002ءکے الیکشن میں یہاں سے عمران خان نے نشست
جیتی تھی ،یہاں پر برادری سسٹم ووٹ کاسٹ ہوتا ہے اس حلقے میں کپتان کا
مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار خان عبیداللہ خان شادی خیل سے ہے
،واضح رہے کہ خان عبیداللہ خان کا اپنا ووٹ بینک بھی کافی زیادہ ہے لیکن اس
الیکشن میں ن لیگ کی قیادت نے یہاں پر بھی بڑے زبردست انداز میں حکمت عملی
کھیلی ہے اور اوپر نیچے دو مخالف گروپوں کو ٹکٹ دے کر روکھڑی گروپ اور شادی
خیل گروپ کو یکجا کرکے باہمی انتخابی مہم چلانے کا ٹاسک دیا ہے،یہاں یہ بات
بھی قابل ذکر ہے کہ یہ نشست اب تک روکھڑی گروپ جیتتا چلا آیا ہے اور ابھی
بھی اس کی پوزیشن مستحکم ہے ۔
N-A 71 میں کپتان کی انتخابی مہم محترمہ عائلہ ملک چلا رہی ہے جو دن رات
ایک کئے ہوئے ہے لیکن تاحال عمران خان نے اپنے حلقے کا دورہ نہیں کیا ہے جس
کی وجہ سے P-T-I کے ووٹرز بددلی کا شکار ہیں اگر یہی صورتحال رہی تو فرزند
میانوالی کا اپنے آبائی حلقے سے جیتنا آسان نہیں ہو گا ،اگر عمران خان اپنی
یہ نشست بچانا چاہتا ہے تو اسے انتخابی مہم خود چلانا ہو گی اور 2002ءکے
الیکشن کی طرح در در جانا ہو گا۔
کچھ قیاس آرائیاں یہ بھی ہو رہی ہیں کہ گیارہ مئی کو پاکستانی قوم کے ساتھ
فول ہو گا اور الیکشن بروقت ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ،اگر الیکشن بروقت نہ
ہوئے تو سب سے زیادہ فائدہ متحدہ قومی موومنٹ ،پاکستان مسلم لیگ ن،اورپیپلز
پارٹی کو ہوگا جبکہ سب سے زیادہ نقصان پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا لیکن
امید ہے کہ الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت الیکشن بروقت کروائے گی کیونکہ
الیکشن کی تاخیر پاکستان کے لئے کسی طرح سود مند نہیں ہے۔ |