ریاست کی ذمہ داری صرف عوام کا تحفظ ہے سیاستدانوں کا نہیں

تحریر : محمد اسلم لودھی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو تاحیات مراعات اور سیکورٹی کانوٹیفیکشن معطل کرتے ہوئے کہاہے کہ ریاست کی ذمہ داری صرف عوام کا تحفظ ہے۔ تاحیات سیکورٹی ٬ کروڑوں کی مالی مراعات اور پروٹوکول غیر قانونی ہے ۔اس موقع پر کنٹرول جنرل پاکستان نے بتایا کہ صرف مذکورہ بالا دد شخصیات کی سیکورٹی پر سالانہ 29 کردڑ روپے خرچ ہوں گے ۔یہ تو صرف دو شخصیات کے پروٹوکول مالی مراعات اور سیکورٹی کا معاملہ ہے ۔ملک میں درجنوں کے حساب سے سابق وزرائے اعظم ٬ صدور اور وزرائے اعلی موجود ہیں۔پاکستان دنیا کا شاید وہ واحد ملک ہے جہاں موجودہ حکمرانوں تو قافلوں اور بلٹ پروف گاڑیوں کے جلوس میں شہروں اور شاہراہوں پر کرفیو کا سماں پیداکرکے نقل وحرکت کرنا پسند کرتے ہیں وہاں اقتدار سے اترنے اور عوامی مینڈیٹ کے خاتمے ہونے کے باوجود وزیر مشیر اور وزرائے اعلی بھی سیکورٹی کے پورے لاﺅ لشکر کے ساتھ زندگی گزارنا اپنا حق تصور کرتے ہیں بلکہ ان کے جتنے بھی بنگلے اور تعیش کدہ ہوتے ہیں وہاں بھی پولیس اور رینجر کے درجنوں جوان اور افسر تعینات کرنا اب رواج بن چکا ہے ۔ اگراس سیکورٹی حصار کو کوئی ختم کرنے کی بات کرتا ہے تو جواب یہ ملتا ہے کہ ان کی جان کی خطر ہ ہے گویا خطرے کو عیاشی کا سامان بنا کر نہ صرف اپنے پورے خاندان کے لیے پولیس والوں کی بٹالین مخصوص کر لی جاتی ہے بلکہ اس وقت تک روٹی ہضم نہیںہوتی جب تک وہ قومی خزانے کو باپ کی جاگیر تصور کرکے لوٹ مار نہ کرلیں۔یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہورہا ہے جہاں آدھی سے زیادہ آبادی پینے کے صاف پانی سے ترس رہی ہے جہاں آدھے سے زیادہ لوگ صرف ایک وقت کی روٹی کھا نے پر مجبور ہیں جہاں ایک کروڑ بچے صرف پیسے نہ ہونے کی بنا پر تعلیم حاصل نہیں کرپاتے ٬ جہاں آدھے سے زیادہ لوگ طبی سہولتیں نہ ملنے اور مہنگی ادویات نہ خریدنے کی بنا پر موت کی وادی میں جاسوتے ہیں ٬ جہاں مسلسل دس دس گھنٹے بجلی بند رہتی ہے۔ جہاں لاکھوں کی تعداد میں مزدور ٬ مزدوری نہ ملنے کی بنا پر خالی ہاتھ گھر واپس لوٹ جاتے ہیں ٬جہاں گیس کی سپلائی ہفتے میں ایک آدھ بار بھی نہیں آتی ۔جہاں چھت کے بغیر کروڑوں لوگ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔جہاں ایک کلو آٹا خریدنے کے لیے بھی سارا دن مزدوری کرنی پڑتی ہے جہاں لوگ سالن پکانے کے لیے بھی مہنگی سبزی خریدنے کی مالی استظاعت نہیں رکھتے ۔

امریکہ سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جب کوئی شخص اقتدار سے رخصت ہوتا ہے تو اس کی ذات سے وابستہ تمام مالی و دیگر سہولیات ختم ہوجاتی ہے وہ ایک عام شہری کی حیثیت سے سڑکوں پر خود گاڑی ڈرائیو کرکے سفر کرتا ہے وہ خود ہی بنکوں میں قطار میں کھڑا ہوکر گھر کے بل جمع کرواتا ہے وہ خود ہی ریاست کی جانب سے عائد تمام ٹیکس جمع کرواتا ہے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو ملکی قانون اسے اسی طرح سزا دیتا ہے جیسے ایک عام شہری کو ۔ اس کی نہ تو پانچ پانچ سو پولیس والے حفاظت کرتے ہیں اور نہ ہی دو ایس ایس پی ٬ پچیس پچیس رینجر کے اہلکار اس کی حفاطتی فرائض کرتے ہیں ۔امریکہ جس کا صدر پوری دنیا کا سربراہ تصور کیا جاتا ہے جس کے حکم پر دنیا بھر میں امریکی فوجیں نہ صرف ملکوں اور قوموں کو جائزاور ناجائز طور پر تہس نہس کردیتی ہیں جس کے حکم پر عراق اور افغانستان جیسے ملکوں میں لاکھوں انسانوں کو راکھ کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا جاتا ہے جس کے حکم پر پاکستان جیسے ایٹمی ملک میں بغیر بتائے فوجی آپریشن جاری رہتے ہیں جس کے حکم سے پاکستان جیسے ملک کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے تسلسل سے ہورہے ہیں جہاں ہزاروں بے گناہ معصوم شہری ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں۔ جب اس امریکی صدر کا عرصہ اقتدار ختم ہوتا ہے تواس کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ امریکہ سابق صدر کلنٹن ہوں ٬بش سنئیر ہوں یا جارج بش جونئیر ہوں سب اقتدار ختم ہوتے ہی پروٹوکول اور سیکورٹی کے بغیر عام شہریوں کی طرح ٹرینوں اور بسوں پر سفر کرتے ہیں کاشتکاری کرتے ہیں سنیما گھر جاتے ہیں اور پارکوںمیں بیٹھ کر دوستوں سے گپیں لگاتے ہیں ۔انہیں نہ تو سائرن بجاتی ہوئی پولیس موبائل کی ضرورت ہے نہ بلٹ پروف گاڑیاں ہی انہیں فراہم کی جاتی ہیں اور نہ ہی بنکوں٬ سرکاری دفتروں میں ان کو دوسروں پر ترجیح ملتی ہے ۔

حالانکہ اگر چاہیں تو امریکہ اور دیگر امیر ممالک اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ اپنے سابق حکمرانوں کی حفاطت اور پروٹوکول کے لیے سالانہ اربوں ڈالر خرچ کرسکتے ہیں لیکن وہ اس لیے یہ سب کچھ نہیں کرتے کہ وہاں عوام کے دیئے ہوئے ٹیکسوں کو عوام کی ملکیت ہی تصور کیاجاتا ہے اور ٹیکس دینے والے عوام حکمرانوں سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں ان کے دیئے ہوئے ٹیکسوں سے یہ شاہ خرچیاں کیوں کی جارہی ہیں لیکن پاکستان میں 90 فیصد سیاست دان اور حکمران نہ صرف ٹیکس دینا اپنی توہین تصور کرتے ہیں بلکہ عوام کے دیئے ہوئے ٹیکسوں سے ہی بلٹ پروف گاڑیاں ) ایک گاڑی کی قیمت اب چار کروڑ روپے سے کیا کم ہوگی( استعمال کرنا اپنا حق تصور کرتے ہےں ۔بات شریف برادران کی لامحدود سیکورٹی کی ہو یا راجہ پرویز اشرف اور رحمان ملک کی ۔لامحدود مالی مراعات اور حد سے زیادہ پروٹوکول پاکستانی کی قوم کی توہین اور ان کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے ۔ رہی بات حالیہ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کو فول پروف سیکورٹی فراہم کرنے کی ۔ تو سپریم کورٹ کاموقف بالکل درست ہے کہ ریاست کی ذمہ داری صرف عوام کا تحفظ ہے

امیدواروں اور سیاست دانوں کا ہرگزنہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جس کی جان کو خطرہ ہے وہ الیکشن میں حصہ نہ لے اور اگر اس نے الیکشن میں حصہ بھی لینا ہے تو وہ خود اپنی جیب سے تنخواہ دے کر جتنے چاہے سیکورٹی اہلکار ملازم رکھ لے ۔پاکستانی کی غریب قوم نے ان کی حفاطت اور پروٹوکول کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا وہ مسائل کی چکی میں اس قدر پس چکے ہیں کہ زندگی ان کے لیے عذاب بن کر رہ چکی ہے ۔

پاک فوج ہو رینجر ہو یا پولیس ان کا کام ملک میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکنا ان کی پناہ گاہوں میں پہنچ کر ان کے نٹ ورک کو توڑنا ٬ریاست اور عوام کو تحفط فراہم کرنا ہے ۔ یہ کس قدر ستم ظریقی ہے کہ ایک لاکھ سے زائد سیکورٹی اہلکار صرف موجودہ اورسابق حکمرانوں ٬سابق عوامی نمائندوں اور امیدواروں کو پروٹوکول اورسیکورٹی فراہم کررہے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد نہ صرف پورے ملک میں آزادی سے نقل و حرکت کررہے ہیں بلکہ وہ جہاں چاہتے ہیں بم دھماکے بھی کامیابی سے کررہے ہیں اگر یہی ایک لاکھ سیکورٹی اہلکار شخصیات کا تحفظ کرنے کی بجائے دہشت گردوں کا تعاقب کرے تو کیا پورا ملک امن کاگہوارہ نہیں بن سکتا ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف تمام سابق صدور ٬ وزرائے اعظم ٬ وزیروں اور مشیروں ٬ عوامی نمائندوں اور امیدواروں کی سیکورٹی یکسر ختم کرکے انہیں اپنی حفاطت خود کرنے کے لیے کہا جائے بلکہ موجودہ حکمرانوں کے لیے بھی بلٹ پروف گاڑیوں اور سیکورٹی کے لاﺅ لشکر ختم کرکے مختصر سیکورٹی کو یقینی بنایا جائے اور اس بات کا اہتمام بھی ہونا ضروری ہے کہ عوام کے دیئے ہوئے ٹیکسوں سے کوئی شخص اپنی ذات ¾ اپنے خاندان یا اپنے کوٹھی بنگلے پر کوئی خرچ کرنے کی جرات نہ کرے ۔کیمپ آفسوں کی آڑ میں غریب قوم کے کروڑوں خرچ کرنا کہاں کا انصاف ہے ۔سیکورٹی کے نام پر پروٹوکول کی یہ رسم سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں بھی حددرجہ رواج پاچکی ہے جس کی اگر روک تھام نہ کی گئی توپاکستان کا سارا بجٹ پروٹوکول اور سیکورٹی پر خرچ ہونے لگے گا۔

منصفانہ الیکشن کے لیے جہاں آزاد عدلیہ کے کردار کا ہر شخص ا عتراف بھی کرتا ہے اسی طرح قومی خزانے کا تحفظ فراہم کرنے اور اس میں سے اربوں روپے سیکورٹی کے نام پر خرچ کرنے کی بلا شبہ روک تھام بہت ضروری ہے اور سپریم کورٹ کو بلاامتیاز اور بلاخوف و خطر اس حوالے سے فیصلہ کرنا چاہیئے ۔ غلام احمد بلور کا یہ کہنا کہ اگر اب ان پر حملہ ہوا تو وہ آرمی چیف ٬چیف جسٹس ٬ چیف الیکشن کمشنر اور صدر پاکستان کے خلاف مقدمہ درج کروائیں گے کیا اس سرخ پوش کی زبان روکنے والا کوئی نہیں ہے ۔ پوری ریلوے کو کھا جانے والا یہ سرخ پوش اپنے تحفظ کے لیے ڈیڑھ سو سیکورٹی اہلکار بھرتی کیوں نہیں کرتا ۔ وہ چاہے پانچ سوافراد اپنی حفاظت کے لیے بھرتی کرلے اور چاہے تو دس دس بلٹ پروف گاڑیاں اپنی حفاطت پر مامور کرلے اسے کون روک سکتا ہے لیکن یہ سب کچھ غلام احمد بلور سمیت ہر امیدوار اپنی جیب سے کرے جس کو اپنی جان کا خطرہ ہے۔ نہ شریف برادران کا شمار غریبوں میں ہوتا ہے اور نہ ہی چودھری برادران کا ۔ نہ غلام احمد بلور کو غریب کہاجاسکتا ہے اور نہ ہی راجہ پرویز اشرف کو ۔ یہ سب اربوں روپے قومی خزانے سے ڈکار چکے ہیں لیکن پیٹ ان کا اب بھی نہیں بھرا ۔ یہ سب اربوں روپے اثاثوں کے مالک ہیں لیکن انتہائی پستیوں میں گھری ہوئی غریب پاکستانی قوم پر رحم کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ یہ امر یقینی بنایاجائے کہ عوام کے دیئے ہوئے ٹیکسوں میںسے ایک پائی بھی کسی سیاست دان ٬ عوامی نمائندے اور سابق حکمرانوں پر خرچ نہ ہو اور یہی پیسہ بجلی گیس کے بحرانوں کو حل کرنے کے خرچ کیاجائے تاکہ غریبوں کو دو وقت کی روٹی اور روزگار میسر آئے ۔سپریم کورٹ کو اس حوالے سے کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیئے راجہ اشرف پرویز اور رحمان ملک کی طر ح باقی تمام سابقین کاپروٹوکول اور سیکورٹی مراعات ختم کردی جائیں یہ غریب پاکستانی قوم کا اٹل فیصلہ ہے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126863 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.