عین اس وقت جبکہ ملک کراہ ارض کی
تاریخ میں پہلی بار بدترین آمریت کے بعد جمہوریت پررواں ہے اور جیسی بھی
حکومت تھی اب ایک آئینی طریقہ کار کے مطابق اقتدار کا مرحلہ عمل میں لایا
جا رہا ہے جس میں عوام کارکردگی کی بنیاد پر اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں
گے اور عوام اپنے اِس عمل سے خود پر مسلط کئے جانے والے مہنگائی کے طوفان
اور متوسط طبقے و معاشی بد حالی و بے امنی کا شکار کرنے والے نام
نہادلیڈروں کا محاسبہ کرنے کے اُن نمائندوں کا انتظار کر رہے ہیں جو پانچ
سال اپنے حلقے سے غائب رہے اور اب شومئی قسمت سے اِن کے دروازے پر ووٹ کی
بھیک مانگنے کےلئے آنا چاہتے ہیں تو نام نہاد قوم پرست و سیاسی نمائندوں کو
مظلوم بنانے کےلئے طے شدہ منصوبوں کے مطابق ٹارگٹڈ نشانہ بنایا جا رہا ہے
اور انھیں اس قدر مظلوم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسے ان کے ہاتھ پیر
باندھ کر عوام کے پاس جانے سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہو۔پانچ سال اقتدار
کے مزے اڑانے والے ایزی لوڈ و اقربا پروری کے ایجاد پرست اَب اپنے نامہ
اعمال کا حساب دینے کےلئے میدان عمل میں اتریں ہیں تو اِن ہی کے دور میں
طاقت پکڑنے والے والے انتہا پسندوں نے انھیں نشانہ بنانے کا ڈرامہ رچایا
ہوا ہے۔ شطرنج کا اصول ہے کہ شاہ کو بچانے کےلئے پیادوں، گھڑ سواروں، و
زراءکو قربانی دینی پڑتی ہے ، سیاست کا میدان بھی شطرنج کی چالوں موافق
کھیلا جاتا ہے ۔جس میں شاہ کو بچانے کےلئے اپنے پیادے اوروزرا کو مروا
کرشاہ کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے
واقعات قابل مذمت ہیں لیکن موجودہ حالات میں کئے جانے والے دہماکے نہیں
انتخابی تماشے ہیں ، کون نہیں جانتا کہ خیبر پختونخوا کے با اثر افراد کے
تعلقات شدت پسندوں کے ساتھ ہیں ،بنوں جیل کا واقعہ تو اسکی عبرت انگیز مثال
ہے جس میں بڑی تعداد میں عسکرےت پسندوں کو ناقص سیکورٹی کی نام پر جیل توڑ
کر فرار کرایا گیا۔مملکت کی بدترین کرپشن اور اقربا پروری کے واقعات نے قوم
کا سر شرم سے جھکا دیا گیاہے۔لسانیت کے نام پر ایک رکشہ والا ، اربوں روپوں
کی تیل چوری ، لینڈ مافیا، ڈرگ اسمگلراور بلٹ پروف گاڑیوں کی افغانستان کے
راستے اسمگلنگ کرکے کھرب پتی بن چکا ہے ۔کراچی کو خون میں ڈوبو کر اپنی
تقاریر میں نفرت کی نہ بجھنے والے آگ لگانے کے بعد خود بم پروف بنکر میں
رہنے اور گاڑیوں میں کود محفوظ سمجھنے والا ، کراچی کی معروف رہائشی
وتجارتی بلڈنگوں پر بےروزگار نوجوانوں سے قبضے کرواکر مختلف جماعتوں سے
قومیت کے نام پر جنگ وجدل کرواتا رہا اَب اِن ہی لوگوں کو دہشت گرد اور
اپنی لاتعلقی کا اعلان کرتا نظر آتا ہے۔اپنے من پسند افراد کو منشیات چلانے
کے اڈے اور ہائی ڈرینٹ کے علاوہ سرکاری املاک پر قبضے کروانے والا آج مظلوم
بن کر خود کو حسینی قافلے کا مسافر کہہ رہا ہے ۔بے روزگار نوجوانوں کو با
عزت روزگار دینے کے بجائے نام نہاد لیڈروں نے کلاشنکوف تھما کر بھتوں اور
اغوا کاروں کے آلہ کار بنا دئےے جو آج جیلوں میں سڑ رہے ہیں ، نادرا آفسوں
میں اپنے اہلکاروں کو ایجنٹ بنا کر افغانیوں اور بنگالیوں کے جعلی شناختی
کارڈ بنانے والے آج انھیں پاکستانی شہرےت دینے کے بعد بیرونی عناصر کی
سازشوں کا رونا روتے ہیں ۔خیبر پختونخوا صوبے کو نام دیا تو اس کریڈٹ نے
خیبر پختونخوا کی عوام کو اس قدر منقسم کردیا کہ انگریزیوں نے ڈیورنڈلائن
میں بھی تقسیم نہیں کیا تھا ،ہزارہ ، فاٹا اور سوات میں علیحدہ صوبے کی
تحاریک نے پختون قوم کو تقسیم کردیا ہے ۔سیلاب متاثرین کی پرسان حالی کے
بجائے ، ان کے فنڈز خرد برد کرنے والے سوات کی حالت زار تو دیکھیں ، ملک
بھر میں تعلیم کی شرح میں سب سے زیادہ رہنے والے طلبا و طالبات کو جدید
تعلیم سے محروم کرتے ہوئے ، خواتین کو ووٹ دینے کے حق سے بھی محرو م کرنے
کی مثالیں میڈیا دیکھا چکا ہے ، خیبر پختونخوا تو پانچ سال سے ان نام
نہادمشران کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کو دیکھیں کہ رشوت اور حرامخوری کے
بعد ان کے چہروں پو کتنی پھٹکار اور ان کے پیٹ کتنے بڑھ گئے ہیں ۔لیکن
انھیں عوام کے سامنے پیش ہونے سے روکنے کےلئے کچھ عناصر ایسی کاروائیاں کر
رہے ہیں جس سے ان کی دل میں ترس کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں ، جب کوئی بھکاری
کسی کے دروازے پر آتا ہے تو پھر اپنا رونا دھونا کرکے کسی نہ کسی سے اپنے
جھولی میں خیرات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔یہ دہماکے اور شدت پسندوں
کی کاروائیاں انھیں عوامی ردعمل سے روکنے کی سوچی سمجھی سازش ہے ۔ ان کے
نامہ اعمال ایسے ہے نہیں کہ یہ غیور پختون کا سامنا کرسکیں ، انھیں عوام
دہماکوں سے نہیں بلکہ اپنے جوتوں سے مارنا چاہتی ہے۔ایس ایم ایس کے ذریعے
انقلابی اشعار چلا کر ووٹ نہیں ملا کرتے ،کیونکہ ایس ایم ایس کے ذریعے صرف
ایزی لوڈ ہی مانگا گیا ہے ۔دہمکیوں کے اس ماحول کو بنا کر یہ لوگ اپنی ناقص
اور بدترین کارکردگی سے منہ چھپانے کے بجائے اپنے لئے ووٹ حاصل کرنا اور
انتخابی مہم چلانے کو جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھتے ،انہیں مظلومیت کا
لبادہ دہشتگرد فراہم کر رہے ہیں ۔عسکرےت پسند ان نام نہاد پختون لیڈروں
کوانتخابی ماحول میں آزاد چھوڑ دیں ، انھیں مظلوم مت بنائیں ، انھیں عوام
کی عدالت میں جانے دیں جو کام تم بم دہماکوں سے کرنا چاہتے ہو کہ یہ
انتخابی عمل سے دور ہوجائیں توعوام پہلے ہی ان پر جلی بھنی بیٹھی ہے عوام
کو موقع دیں کہ ان کی ضمانتیں ضبط کروادیں ۔بم دہماکے کرکے انھیں فرار کی
راہ فراہم کرنے میں مدد نہ کریں یہ لوگ پانچ سال کھربوںروپوں کی کرپشن کر
چکے ہیں ،انھیں عوام کے سامنے جواب دہ ہونے دیں ، انھوں نے ملائیشا اور
دوبئی میں اربوں روپوں کی جائیدایں ، شو روم بنا کر اپنے اہل و عیال کو
آباد کرکے غریب سے منہ کا نوالہ چھین لیا ہے انھیں پختون روایات کا سامنا
کردیں ۔ انھیں بم سے اڑانے کی ضرورت پیش نہیں آئیگی اگر یہ غیرت مند ہوئے
تو خود ہی سیاست سے دور ہوجائیں گے حالاں کہ ان سے یہ امید بالکل نہیں ہے۔
پختون حقوق کے لئے قربانیاں ،پختون قوم نے دی تھی۔ نام نہاد پختون لیڈرون
کوایک بار عوام کے سامنے جانے دیں ان کا نوشتہ اعمال عوام کے پاس موجود ہے
ان کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ عوام کرچکی ہے ۔انھیں سیاسی مظلوم نہ بننے دیں
، انکے ملکی تاریخ کے کرپٹ ترین دور اور لاکھوں پختونوں کی معاشی بد حالی
کا حساب کا دن اب آگیا ہے تو انھیں سیاسی شہید بنا کر ان کے گناہوں کو مٹ
چھپانے دیں۔عوام بخوبی سمجھتے ہیں کہ وہ مرنے والوں کے ساتھ دلی ہمدردی کا
اظہار کرتے ہیں واقعات کی شدید مذمت کرتے ہیں ،لیکن پٹرول ، ڈیزل چور اور
گاڑیوں اور منشیات کے اسمگلروں کے چہرے سے اصل نقاب اتر چکے ہیں ۔پانی
چوروں اور سرکاری ٹھیکے لیکر قوم کے نام پر سیاست کرنے والے اب مکمل بے
نقاب ہوچکے ہیں ، دہشت گردی کو بام عروج پر پہنچانے والے اور کرپشن کے
شہنشہاہوں کو عوامی عدالت میں جواب دہ ہونا ہوگا ۔مریکہ کی گود میں پختون
قوم کے خون اور لاشوں کا سودا کرنے والوں کو پختون معاشرے میں کوئی عزت
نہیں دی جاتی ۔ دہشت گردی کے ہاتھوں شہید ہونے والوں سے دلی ہمدردی ،غم اور
صدمہ ہے اور تمام پختون سمیت تمام قومیتں ان کے غم میں برابر کی شریک ہیں ،
لیکن یہ مکافات اعمال ہے کہ انھیں پھر بھی ناکامی ہوگی ، انھیں شرمندگی
ہوگی (اگر انھیں شرم آتی ہو)۔پختون ثقافت کو تاراج کرنے والوں کہیں سے بھی
راستہ نہیں ملے گا۔ |