مرزا اسداللہ غالب کتنے رکھ رکھاﺅ،دید،لحاظ
ا ور شرم رکھنے والے انسان تھے کہ انہیں حج ادا کرنے کے حوالے سے حقیقت پر
مبنی یہ بات شعر میں کہنا پڑی کہ کعبے کس منہ سے جاﺅ گے غالب شرم تم کو مگر
نہیں آتی-
لیکن شاید صدر آصف علی زرداری اس طرح کے طور طریقوں کے قائل نہیں ،اسی لئے
جس آزاد کشمیر کو انہوں نے اپنے ساتھیوں کی معاونت سے مختلف سازشوں سے
سیاسی طور پر فتح کیا ،اسے دیکھتے ہوئے لگتا نہیں تھا کہ وہ آزاد کشمیر کا
دورہ کریں گے۔ لیکن عرصہ صدارت کے آخری مہینوں انہوں نے یہ ” احسان“ بھی کر
ڈالا ۔اس دورے کی راہ یوں ہموار ہوئی کہ گزشتہ دنوں مسئلہ کشمیر کو
پاکستانی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں شامل کرانے،ان کی توجہ مسئلہ
کشمیر کی جانب مبذول کرانے کے لئے آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد یعقوب خان
،وزیر اعظم چودھری عبدالمجید،قائد حزب اختلاف راجہ فاروق حیدر
خان،عبدالرشید ترابی اور حریت رہنماﺅں کے مشترکہ گروپ نے پاکستان کی مختلف
سیاسی جماعتوں سے خود جا کر ملاقاتیں کیں۔اسی دوران انہوں نے مشترکہ طور پر
اسلام آباد میں صدر آصف زرداری سے ملاقات کی اور انہیں دورہ مظفر آباد کی
دعوت بھی دی۔صدر زرداری سے کشمیری سیاسی نمائندوں کی ملاقات مسئلہ کشمیر کے
حوالے سے کتنی فائدہ مند رہی اور اس سے فوری طور پر کیا حاصل ہوا؟یہ حقیقت
سب کے سامنے ہے کہ صدر آصف زرداری کی سربراہی میں گزشتہ پانچ سال سے
پاکستانی اور کشمیر کے ریاستی عوام کی زندگی مزید بری طرح مسائل و مشکلات
کا شکار چلی آ رہی ہے اور اس کا ایک نتیجہ الیکشن سے پہلے ہی اس صورت
دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ملک بھر میں خصوصا پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حالت
بہت خراب ہے۔
آزاد کشمیر کے سیاسی نمائندوں کے اس گروپ کی اس مشق سے سیاسی جماعتوں کو
مسئلہ کشمیر کی اہمیت کا کتنا احساس ہوا ،اس کا اندازہ تو بخوبی لگایا جا
سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے اس سرکاری سربراہی والے گروپ کی
صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کشمیر کاز کے حوالے سے فائدہ مند رہی یا اس
سے پیپلز پارٹی نے الیکشن کے دوران اپنی ” رسوائے زمانہ“ ساکھ کو سہارا
دینے کی کوشش کی ہے؟کیا صدر زرداری نے کشمیری رہنماﺅں کی یہ درخواست قبول
کر لی ہے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی سے متعلق انہیں حقیقی طور پر اعتماد
میں لیا جائے گا یا صدر زرداری نے حکم دے دیا ہے کہ پاکستان کی کشمیر
پالیسی میں کشمیری رہنماﺅں کی مشاورت بھی شامل کی جائے گی؟
پیپلز پارٹی نے پاکستان میں حکومت بناتے ہی آزاد کشمیر میں سیاسی سازشوں کے
جال بننے شروع کر دیئے جس کے نتیجے میں تین سال کے اندر تین بار ارکان
اسمبلی کی طرف سے عدم اعتماد کے ذریعے تین بار حکومتیں تبدیل کی گئیں اور
اس سے ایسی سیاسی پراگندگی پھیلی جس کے منفی نتائج کئی شعبوں میں واضح نظر
آ رہے ہیں۔آزاد کشمیر کو سیاسی طور پر فتح کرنے کا ٹارگٹ وفاقی وزیر امور
کشمیر میاں منظور وٹو کو دیا گیا جنہوں نے آزاد کشمیر کی صدارت اور اسی طرح
کے دوسرے ”سبز باغ“ دکھاتے ہوئے آزاد کشمیر میں ایسا سیاسی انتشار پیدا کر
دیا جس سے پیپلز پارٹی کی قوت میں اضافہ ہوا۔صدر آصف علی زرداری کی بہن
فریال تالپور کو آزاد کشمیر کے سیاسی امور کی نگران بنا دیا گیا۔اس طرح
فریال تالپور آزاد کشمیر حکومت پرسیاسی حاکم کل بن گئیں ۔ فریال تالپور اور
میاں منظور وٹو کی اس آمرانہ حاکمیت اور برتر اختیار کی بدولت الیکشن سے
پہلے ہی آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کرنے کے لئے منظور نظر
الیکشن کمیشن سمیت تمام اقدامات مکمل کئے گئے اور الیکشن میں من پسند نتائج
حاصل کئے گئے۔
فریال تالپور اور میاں منظور وٹو کی سفارش پر آزاد کشمیر حکومت میں سیاسی
تقرریوں کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔آزاد کشمیر حکومت کو وفاق کی
طرف سے فنڈزکی فراہمی میں ایسی کٹوتی اور تعطل پیدا کیا گیا کہ پیپلز پارٹی
حکومت کے قیام سے اب تک آزاد کشمیر سنگین مالیاتی بحران سے گزر رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود آزاد کشمیر مالی طور پر سسک سسک کر دن
گزار رہا ہے۔ہر ماہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا مسئلہ پڑ جاتا ہے جس کی
ادائیگی کو یقینی بنانے کے لئے ہر ماہ کی25سے 8تاریخ تک تنخواہوں و مراعات
کے علاوہ ہر قسم کی سرکاری ادائیگیوں پر پابندی عائید رہتی ہے۔ سیاسی
بنیادوں پر کی جانے والی تقرریوں کے اخراجات پورے کرنے کے لئے آزاد کشمیر
کے عوام پر ’تحریک آزادی کشمیرٹیکس‘ عائید کر دیا گیا۔آزاد کشمیر پر حاکمیت
کرنے والوںنے آزاد کشمیر کے عوام کو آئینی ترامیم کا جھانسہ دیتے ہوئے
کشمیر کونسل کی نشستوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ،جو ان کا اصل مقصد تھا
لیکن جب سیاسی جماعتوں کی طرف سے آئینی ترامیم کے ذریعے آزاد کشمیر کو
سیاسی،انتظامی اور مالیاتی طور پر بااختیار بنانے پر مبنی ترامیم کی تجاویز
سامنے آئیں تو اس سارے عمل کو ہی سست روی ،،تعطل کا شکار کر دیا گیا۔ورنہ
اگر پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت پاکستان کی آئینی ترامیم کی طرز پر آزاد
کشمیر حکومت کو بااختیار بنانا چاہتی تو یہ عمل چند دنوں میں ہی مکمل کیا
جا سکتا تھا۔
صدر پاکستان محمد آصف علی زرداری نے 17اپریل بروز بدھ آزاد کشمیر کے
دارالحکومت مظفر آباد کا چند گھنٹے کا دورہ کیا۔صدر زرداری نے آزاد جموں و
کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب
کیا۔انہوں نے آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد یعقوب خان، وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید، قائد حزب اختلاف راجہ فاروق حیدر، قانون سازاسمبلی کے ارکان اور
حریت کانفرنس کے نمائندوں سے ملاقات بھی کی۔اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب
میںصدر آصف زرداری نے کہا کہ کشمیریوں کی تحریک مقامی اور تشدد سے پاک ہے،
نہتے کشمیری بشمول خواتین، بچے اور نوجوان اپنے حق خودارادیت کا مطالبہ کر
رہے ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی
قراردادوں پر مبنی اپنے اصولی موقف پر پختگی سے کاربند ہے۔ انہوں نے کہا کہ
پاکستان کے پارلیمان نے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے کئی
قراردادیں منظور کیں، کشمیر سے متعلق کئی اعتماد سازی اقدامات پر اتفاق کیا
گیا اورسرحد کے آرپار آنے جانے، بس سروس اور لائن آف کنٹرول کے آر پار
تجارت شروع کرنے سمیت اقدامات پر عملدرآمد کیاگیا، ان اقدامات کا مقصد
کشمیری بھائیوں کی مشکلات کو کم کرنا اور دیرینہ تنازعہ کشمیر کے تصفیہ
کیلئے سازگار فضاءپیدا کرنا تھا۔ صدر آصف زرداری نے اس امر پر اطمینان کا
اظہار کیا کہ جامع مذاکراتی عمل میں اتار چڑھاؤ کے باوجود اعتماد سازی
اقدامات ہوئے۔سیاسی نمائندوں سے ملاقات میں صدر نے کہا کہ پاکستان کشمیریوں
کے جائز نصب العین کیلئے اپنی اخلاقی، سیاسی و اخلاقی حمایت جاری رکھے
گاکشمیری عوام کے عزم،جرات اور ولولہ کو سلام پیش کرتا ہوں‘ عمر قید کی سزا
بھی حریت پسندوں کو روک نہیں سکی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آزادی کیلئے
ان کا عزم اور مضبوط ہوا ہے‘جاری احتجاجی تحریک کشمیری عوام کی جدوجہد میں
ایک نیا باب ہے۔قبل ازیں صدر آصف زرداری ہیلی کاپٹر کے ذریعے مظفر آباد
پہنچے تو آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم نے ان کا استقبال کیا۔
یوںصدر آصف علی زرداری نے مظفر آباد کا دورہ کرتے ہوئے ریاستی عوام کو دیا
تو کچھ نہیں لیکن انہوں نے اس دورے کے ذریعے الیکشن کے دوران سیاسی فائدے
اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے گزشتہ تقریبا پانچ
سال کے دوران متنازعہ ریاست کشمیر کے عوام کو کچھ دینا تو دور ، آزاد کشمیر
کے مظلوم خطے کو بھی بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا۔ریاست کشمیر کے ایک
عام باشندے سے پوچھیں تو وہ یہی کہے گا کہ ” زرداری صاحب آ پ کیا لینے مظفر
آباد گئے؟“۔
مظفر آباد میں ماحولیات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے افراد نے صدر زرداری
کے اس دورہ کے موقع پرہیلی پیڈ کے قریب چنار کا ایک درخت کاٹنے پر اختجاج
کرتے ہوئے کہا کہ یہاں آئے روز ہیلی کاپٹر اترتے رہتے ہیں اور یہ درخت کبھی
ہیلی کاپٹر کی لینڈنگ میں مشکل کا سبب نہیں رہا۔صدر زرداری کے دورہ مظفر
آباد میںچنار کا درخت تو کاٹ دیا گیا ،اب دیکھنا یہ ہے کہ اس دورے کی
کشمیریوں کو کیا قیمت ادا کرنا پڑی ہے اور پڑے گی کیونکہ زرداری صاحب کبھی
بھی کوئی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے ۔پانچ سال تو زرداری صاحب کو کشمیریوں کے
مصائب کا احساس نہیں ہوا ،اب صدارت کے چل چلاﺅ کے وقت ان کے دل میں
کشمیریوں کا احساس جاگا ہے تو ضرور کوئی بات ہو گی ۔جیسا کہ مہاورہ ہے کہ ”
بنئے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی نیچے گرتا ہے۔“ |