سانحہ لال مسجد کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آگئی

لال مسجد آپریشن سے متعلق فیڈرل شریعت کورٹ کے جج شہزاد شیخ کی سربراہی میں قائم ایک رکنی عدالتی کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم پر اپنی رپورٹ جاری کر دی ہے ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق آمر صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے حکم پر وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں واقع لال مسجد میں کیے جانے والے فوجی آپریشن سے متعلق تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔اس کمیشن نے چھ نکات سے متعلق تحقیقات کیں۔ ان نکات میں لال مسجد آپریشن کی وجوہات، اس آپریشن میں مارے جانے والے مرد، خواتین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی تعداد اور ان کی لاشیں شناخت کرنے کے حوالے سے بھی تحقیقات ہوئیں۔

وفاقی شرعی عدالت کے جسٹس شہزادہ شیخ پر مشتمل کمیشن کی تین سو چار صفحات پر محیط رپورٹ میں سابق وزرائے اعظم چودھری شجاعت حسین، شوکت عزیز، طارق عظیم اور اس وقت کی کابینہ کے ارکان نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو لال مسجد آپریشن کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق آپریشن سے پہلے امریکی ڈورن طیارے نے لال مسجد کی تصاویر لیں۔ آپریشن میں ٹرپل ون بریگیڈ سمیت منگلا سے بھی سیکورٹی فورسز نے حصہ لیا تھا۔ 30 جولائی 2007ءکو مسلح افواج کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ریکارڈ سے واضح ہے کہ اقتدار کے حامل اتحادی پارٹنر، خصوصاً وزیرِ اعظم اور کابینہ (اس معاملے پر) حتمی طور پر اندھیرے میں نہیں تھی، انہیں سب کچھ معلوم تھا۔ رپورٹ میں درج ہے کہ اس افسوسناک واقعے کے چھے سال بعد بھی اس کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے تک لانے کی لاپرواہی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ رویہ غیر ذمہ دارانہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ صدر، وزیرِ اعظم، کابینہ اور خصوصاً وزیرِ داخلہ، متعلقہ وزرا اور سیاسی جماعتیں اس آپریشن سے آگاہ نہ تھیں۔ مفروضے کے طور پر اگر ایسا مان بھی لیا جائے تو بھی اس واقعے کے متعلق سیاسی لیڈر شپ کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ رپورٹ میں فوجی قیادت کو تقریباً کلین چٹ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ لال مسجد پر دھاوا بولنے کے لیے اسلام آباد انتظامیہ نے فوج کو بلانے کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کیے۔ مسلح افواج کے رکن ہونے کی حیثیت سے، ہر فوجی پاکستانی آئین کی پاسداری کا عہد کرتا ہے اور رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کیا تھا۔ رپورٹ میں لال مسجد آپریشن کے دوران غلط اقدامات کے ازالے کے لیے چند فوری اور طویل المدتی اقدامات پر زور دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق 2007ءمیں لال مسجد میں ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی جانب سے طلبہ اور طالبات کے خلاف کیے گئے ملٹری آپریشن میں بے جا اور بے انتہا ظلم ہوا۔اس رپورٹ میں کئی قلیل المدتی اور طویل المدتی سفارشات دی گئی ہیں۔قلیل المدتی سفارشات میں کمیشن نے کہا ہے کہ جو لوگ شعائر اسلام کو پامال کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں ان کے خلاف شریعت کے مطابق کارروائی کی جانی چاہیے۔ شریعت میں قصاص اور دیت کے قانون کے تحت مرنے والوں کے اہل خانہ کو قصاص یا دیت دی جانی چاہیے۔ دیت صرف اس صورت میں دی جاسکتی ہے جب ورثاءقصاص معاف کر کے دیت پر رضامند ہو جائیں، مگر اہم بات یہ ہے کہ جہاں قصاص یا دیت کی بات کی گئی ہے وہاں اس بات کا رپورٹ میں کوئی ذکر نہیں کہ یہ قصاص یا دیت کس سے لی جائے۔ فوری اقدامات کے ضمن میں کمیشن نے سفارش کی ہے کہ آپریشن میں ذمہ داروں کے خلاف قتل کے مقدمات قائم کیے جائیں اور سابق حکمرانوں پر زور دیا جائے کہ وہ متاثرہ خاندانوں کو اسلامی شریعت کے لحاظ سے معاوضہ ادا کیا جائے۔ نیز آپریشن کے دوران معذور یا زخمی ہونے والے افراد کے علاج اور معاوضے کا انتظام بھی کیا جائے۔ اسی طرح کمیشن نے سفارش کی ہے کہ اس آپریشن کے دوران جن افراد کا مالی نقصان ہوا ہے اسے پورا کیا جائے۔جس پلاٹ پر جامعہ حفصہ موجود تھا اس پلاٹ کے بارے میں سفارش کی گئی ہے کہ اس کو جامعہ حفصہ کی انتظامیہ کو دے دیا جائے یا سی ڈی اے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اس جگہ پر جامعہ حفصہ کی عمارت تعمیر کر سکتا ہے۔اس رپورٹ کی طویل المدتی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ ”حکومت اپنی اسلام مخالف پالیسیاں ختم کرے“۔ دارالعلم کے قیام، مدرسوں کے نصاب اور رجسٹریشن جیسی سفارشات کے علاوہ یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ آبادی کے تناسب سے مدرسوں، مساجد یا مساجد میں قائم مدرسوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ مدرسوں کے نصاب میں اگر ہو سکے تو جدید علوم کو شامل کیا جائے۔ مدارس میں میرٹ پر مبنی امتحانی نظام وضع کیا جائے، اسے قومی نظام (تعلیم) سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ دیگر اداروں کی طرح ان کی سند کو بھی تعلیمی نظام کے ہم پلہ قرار دیا جا سکے۔

یاد رہے کہ کچھ ہی روز قبل سپریم کورٹ نے لال مسجد جوڈیشل انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو خفیہ رکھنے کی حکومتی استدعا کو مسترد کرتے ہوئے اسے عام کرنے کا حکم دیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ رپورٹ کے ساتھ منسلک دستاویزات کو مناسب وقت آنے پر مشتہر کیا جائے گا۔ عدالت نے طارق اسد کو عدالتی معاون مقرر کر تے ہوئے آئی جی اسلام آباد اور ان کے اسسٹنٹ کو ملنے والی دھمکیوں پر اس کی سیکورٹی یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی تھی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ معلومات تک رسائی آئین کے آرٹیکل2اور 19 کے تحت ہر شہری کا حق ہے۔گزشتہ دنوں سانحہ لال مسجد تحقیقاتی کمیشن کی سفارشات منظر عام پر آئیں۔ کمیشن نے قرآن پاک کی بے حرمتی اور بے گناہ افراد کے قتل پر شریعت کے مطابق کارروائی کی سفارش کی تھی۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی خفیہ رپورٹ کو بھی کمیشن کی رپورٹ میں شامل کیا گیا۔ شرعی عدالت کے جج جسٹس شہزاد شیخ پر مشتمل ایک رکنی کمیشن کی رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ آپریشن کے دوران مبینہ طور پر گمشدہ افراد کو بازیاب کرایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ وزارت داخلہ فوجی آپریشن کے حوالے سے اس وقت کے وزیر اعظم کا تحریری حکم پیش نہ کرسکی۔ بے گناہ لوگوں کے قتل میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔ قرآن پاک اور شعائر اسلام کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف شریعت کے مطابق کارروائی کرنی چاہیے۔

گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان نے لال مسجد آپریشن میں لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین کی درخواست پر ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2007ءکے حکم پر من و عن عملدر آمد کو یقینی بنایا جائے اور کیسوں کی ترجیحی بنیادوں پر تحقیقات کرائی جائیں، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے مکمل تعاون کیا جائے، لواحقین کو بلاامتیاز معاوضہ دے کر عدالت میں رپورٹ پیش کی جائے۔ جب پولیس ایف آئی آر درج کرے تو کسی بھی ادارے کو غیر ضروری طور پر ملوث نہ کیا جائے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے یہ تعین کس بنیاد پر کیا کہ کون گناہگار اور کون بے گناہ تھا جبکہ پولیس کی جانب سے سپریم کورٹ کو تو ابھی تک ریاست کے خلاف مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا کوئی ریکارڈ نہیں ملا۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہاکہ چند افراد کے مظاہرے کو ریاست کے خلاف جنگ نہیں کہا جاسکتا ویسے بھی آپریشن کے وقت ملک کے حالات زیادہ خراب نہیں تھے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701319 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.