تبدیلی ٗ لوڈشیڈنگ ٗ بیروزگاری ٗ اور امن کے حوالے سے مختلف سیاسی پارٹیوں
نے خیبر پختونخواہ میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے لیکن امن و
امان کی ابتر صورتحال نے تمام پارٹیوں کو سائیڈ پر کردیا ہے اور بہت سارے
امیدواروں کے رشتہ دار اور ان کے مخصوص کارندے ہی ان کیلئے گھر گھر ووٹروں
سے رابطے کی مہم چلا رہے ہیں اور کارنرز میٹنگ بھی سیکورٹی گارڈز کی نگرانی
میں ہورہی ہیں زیادہ تر امیدواروں کے نعرے صرف پوسٹرز اور اخبارات کی حد تک
محدود ہیں خصوصا لالٹین والی سرکار کے امیدوار تو ایک طرف ان کیساتھ
سیکورٹی کیلئے رکھے جانیوالے پولیس اہلکار بھی ڈر ڈر کے گھروں سے نکلتے ہیں
کہ کہیں وہ دہشت گردی کا شکار نہ ہوں -لالٹین والی سرکار کو نشانہ بنانے
والے لوگ ان کی گذشتہ پانچ سال کی پالیسیوں کو بیان کرتے ہیں اپنے مخصوص
پالیسی اور عوام سے دوری کی وجہ سے لالٹین والی سرکارالیکشن مہم میں محدود
ہو کر رہ گئی ہیں-
گذشتہ دنوں اسی پارٹی کے رہنماء نے گلہ شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کھڈے
لائن لگایا گیا ہے اور بقول ان کے وہ عسکریت پسندوں کے اکیلے نشانہ ہیں
دوسری پارٹیوں کو اپنے حق میں کرنے کیلئے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ
مولانا فضل اللہ عرف ریڈیو ملا نے پنجاب میں کارروائیوں کیلئے ان سے راستہ
مانگا اور اب انکار پر ان کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا جارہا ہے - پختو نوں
کے لیڈر نے یہ نہیں بتایا کہ ریڈیو ملا نے انہیں کب فون کیا تھا اس وقت جب
وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر اسلام آباد ٗ دبئی اور یورپ کے دوروں پر تھے
یا موجودہ نگران دور میں ان سے رابطہ کیا گیا - اندر کی بات اللہ ہی جانے ٗ
لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ مولانا فضل اللہ عرف ریڈیو ملا اتنا کمزور ہوگیا
ہے کہ اب اجازت لیکر کارروائیاں کرتا ہے اور وہ بھی ان سے جن کے خلاف انہی
کے دور حکومت میں سب سے زیادہ کارروائیاں دونوں اطراف سے ہوئی- ویسے اگر
ریڈیو ملا نے ان کے دور حکومت میں ان سے رابطہ کیا تھا تو کیا اس وقت انہوں
نے خیبرپختونخواہ میں امن قائم کیاتھا جو ان سے رابطہ کیا تھا اور رابطے کے
حوالے سے بات انہوں نے اس وقت کیوں نہیں کی -کم از کم اگر ایسی بات ہوتی تو
ان کے سپورٹر بھی بڑھ جاتی -اور اگر ریڈیو ملا نے ان سے اب رابطہ کیا ہے تو
نگران سیٹ اپ میں کیا ان کی چلتی ہے جو ان سے اجازت لی جارہی ہیں اور اگر
ایسا تو پھر تو نگران سیٹ اپ صرف ڈرامہ ہے جو عوام کیساتھ رچایا جارہا ہے-
ویسے صوبہ خیبر پختونخواہ کے عوام اس بات کو ابھی بھی نہیں بھولے کہ کس طرح
ایک خودکش حملے کے بعد پختونوں کے علمبردار انہیں کھلے میدان میں چھوڑ گئے
اپنے رہنماؤں کی ہلاکتوں کا رونا رونے والے اس صوبے کے عوام کے بارے میں
کیا کہتے ہیں کہ انہی کے دور میں ہزاروں بچے یتیم ہوگئے اور سینکڑوں خواتین
بیوائیں بن گئیں ڈالر کماؤ کی اس پالیسی نے صوبے کو بارود کا ڈھیر بنا دیا
یہ سلسلہ حکومت میں پختونوں کے علمبرداروں کے ہوتے ہوئے بھی جاری رہا اور
اب بھی جاری ہے کسی کو یقین نہیں آتا تو جا کر ان معصوم بچوں سے پوچھیں جو
دو ہفتے قبل یکہ توت میں ہونیوالے بم دھماکے اپنی جانوں سے گزر گئے اور کئی
اپنے جسمانی اعضاء کھو بیٹھے ان معصوم بچوں کو کارنر میٹنگ میں یہ کہہ کر
بلایا گیا تھا کہ پروگرام ختم ہونے کے بعد ان بچوں کو پتنگ مفت میں ملیں گے
اور بسنت اور پتنگ کے شوقین معصوم بچے پتنگ کی خاطر جانوں سے ہاتھ دھو
بیٹھے -
خیبر پختونخواہ کے عوام کو اس بات سے اب کوئی غرض نہیں کہ حکومت میں کون
آتا ہے اور کون ان پر مسلط ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ ان کے
ساتھ کوئی بھی مخلص نہیں سب سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والا صوبہ سب سے زیادہ
لوڈشیڈنگ کا شکار ہیں سوئی گیس میں بھی یہی صورتحال جارہی ہے ٗ مال کماؤ
اور ایزی لوڈ کے اس چکر میں تیر ٗ لالٹین ٗ کتاب سب کی پالیسی ایک سی ہے
ہاں کتاب والوں کے حق میں یہ بات جاتی ہے کہ ان کے دور میں کسی حد تک صوبے
کے لیڈروں میں شرم نام کی کوئی چیز تھی اور وہ ہر ایک کو بکاؤ مال نہیں
سمجھتے تھے- رہی تبدیلی کا نعرہ لگانے والے تو ان کیلئے یہی بات ہی کافی ہے
کہ پارٹی کیلئے زندگیاں وقف کرنے والے کارکن انٹرا پارٹی انتخابات اور پھر
ٹکٹوں کی تقسیم میں پیسوں والے لیڈروں کے سامنے کچھ نہیں رہے اور سونامی کا
شکار اپنے ہی حقیقی کارکن ہوئے اور یہ واحد پارٹی ہے جو اپنے آپ کو قومی
پارٹی کہلااتی ہیں لیکن اس کی موجودگی کا سب سے زیادہ پتہ فیس بک پر چلتا
ہے -دیگر پارٹیاں تو پھر بھی مختلف صوبوں کی حد تک موجود ہیں لیکن یہ سوشل
سائٹس پر رہنے والی پارٹی ہے --
بات کہاں سے کہاں تک چل نکل پڑی ہے جن حالات میں آج کل مختلف سیاسی پارٹیوں
کی انتخابی مہم چل رہی ہے اس سے تو ظاہرہ ہورہا ہے کہ الیکشن ہوتے ہوئے
دکھائی نہیں دیتے-اور اگر الیکشن ہوں بھی تو پھر ووٹروں کا ٹرن آؤٹ پہلے کے
مقابلے میں مزید کم ہوگا کیونکہ اگر امیدوارلوگوں سے ڈور ٹو ڈور ملے گا
نہیں اور عام لوگ ان سے شکوہ ٗ جھگڑا نہیں کرینگے کہ کس طرح انہوں نے ان کا
بیڑہ غرق کیا یا پھرشہری اپنے ساتھ ہونیوالے کسی زیادتی ٗ بہتری کی بات کرے
اگر امیدوار پانچ سال گزارنے کے بعد بھی سامنے نہ آسکے اور شہری کی دل کی
بھڑاس نہ نکل سکے تو پھر کوئی پاگل ہے کہ ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے نکلے اور وہ
بھی اپنے خرچے پر ٗ ویسے جس طرح حالات ہمارے ہاں جا رہے ہیں اس سے اندازہ
ہوتا ہے کہ لوگ امن و امان کی ابتر صورتحال کی وجہ سے گھروں سے بھی نہیں
نکل سکیں گے- اس صورتحال کا اندازہ باجوڑ میں ہونیوالی خاتون خودکش حملہ
آور کے واقعے سے کیا جاسکتا ہے وہاں پر انتخابی مہم میں حصہ لینے والی ایک
خاتون امیدوار پر واہ واہ کی آوازیں تو بہت نکل رہی تھی جو اب خاتون خودکش
حملہ آور کے واقعے کے بعد کم ہوگئی ہیں- |