جس طرح اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں کی سیا ست کے سینے میں دل نہیں ہوتا
با لکل اسی طرح یہ بات بھی ہر قسم کے شک و شبے سے مبرا ہے کہ بعض سیاستدانوں کے پاس
دماغ نام کی کوئی شے نہیں ہوتی یا کم از کم وہ اسے استعمال کرنے کی زحمت نہیں کرتے
اس کے ساتھ ہی یہ بھی اب بالکل واضح ہو چکا ہے کہ یہ سیاست دان عام افراد کو اپنے
سے ہر لحاظ سے کم تر اور حد درجہ گئی گذری مخلوق سمجھتے ہیںبلکہ اگر یہ کہوں تو با
لکل بے جا نہ ہوگا کہ ان کے نزدیک عوام کی ویلیوبھیڑ بکریوں کے ریوڑ سے زیادہ کچھ
بھی نہیں انہیں ہر پل صرف اور صرف اپنے مفاد سے غرض اور وہی ان کی سب سے پہلی ترجیح
بھی ہے ایک پیپلز پارٹی کیا یہاں ایک سے ایک بڑا فنکار موجود ہے کوئی ایک بھی نہیں
جو اپنی گذشتہ کل کی بات پر کم از کم ایک سیزن تو قائم رہ سکے یہاں جس طرح موت کا
نہیں پتہ کہ کب کس لمحے لمحہ قضا آن پہنچے اب بالکل اسی طرح اپنے ہاں کہ سیاستدانوں
کا بھی نہیں علم کہ کل کا، ن لیگی آج تک بھی نواز شریف کا سپاہی ہو گا اور کل تک
جیئے بھٹو اور زندہ ہے بی بی کے نعرے مارنے والا آج بھٹو کے بدترین دشمنوں کے ساتھ
آرام دہ کمرے میں پر لطف کھانوں کے مزے اڑا رہا ہوگا یہ لوگ ایک آشیانے پہ بسیرا
کرتے ہیں اور اس آشیانے سے مکمل آشنائی سے بھی پہلے اگلی منزل کی اڑان بھر لیتے ہیں
اور حیرت کا پہلو یہ کہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد انتہائی ڈھٹائی سے اپنے چاہنے والوں
کو بالکل گدھا سمجھ کر فرمان جاری کرتے ہیں کہ میں نے یہ سب کچھ ملک اور خصوصاً آپ
کے مفاد کے لیے کیا اور ہم ہیں کہ چلو اب کی بار کہہ کر ایک دفعہ پھر ان پر اعتماد
کر لیتے ہیں۔کوئی ایک شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے کہ جس نے کبھی دروغ گوئی اور جھوٹ
کا سہار ا نہ لیا ہو جس نے روز نت نئے پینترے نہ بدلے ہوں آصف زرداری نے البتہ ایک
قدم آگے بڑ ھ کر ہمت کر کے اعتراف کر لیا کہ وعدے قرآن اور حدیث نہیں ہوتے،اپنے صدر
مملکت کے اس قول کی پاسداری ہمارے ہر ہر سیاستدان نے بھر پور انداز میں کی اور کر
رہے ہیں یہ بھولے بنا کہ ہم کس مذہب کے پیروکار ہیں اور کمٹمنٹ یعنی وعدے کی
پاسداری کی کیا اہمیت ہے ہادی برحق اور فخر دوجہاںﷺ نے کفار سے معاہدہ کیا معاہدے
کی شرائط میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر مسلمانوں میں سے کوئی شخص بھاگ کر کافروں
کے پاس چلا گیا تو وہ اسے واپس نہیں کریں گے مگر اگر کوئی شخص کافروں سے بھاگ کر
مسلمانوں کے پاس آگیا تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پا بند ہوں گے کفار نے اس معاہدے
کی مکمل پاسداری نہ کی مگر جب ایک شخص کفار کے مظالم سے تنگ آکر مسلمانو ں کے پاس
آپہنچا ادھر سے معاہدے کی رو سے واپسی کا تقاضا کیا گیا تو کئی ایک مخالف آرا کے
باوجوداللہ کے نبی ﷺنے اسے واپس کر دیا کہ ہم معاہدہ کر چکے ہیں یہ سیاستدان بھی
اسی نبیﷺ کے پیروکار اور اس کا کلمہ پڑھنے والے ہیںانہیں وعدے اور قسمیں تو دور کی
بات شاید یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے کل کا کھانا اور صبح کا ناشتہ کس چیز سے
کیا،طوطا چشمی اور موقع پرستی کی اعلیٰ ترین مثالیں اور نادر نمونے اگر کسی نے
دیکھنے ہوں تو اپنے ملک پاکستان کا رخ کرے،اور عوام کی سادہ لوحی دیکھیئے کہ پھر
انہی کو سر پر بٹھاتے ہیں جو ہر روز نیا دغا اور دھوکا دیتے ہیںحالانکہ ان کی مثال
تو اس لڑکی کی طرح ہے جو دو دن کے پیار کے بعد اپنے نام نہاد محبوب کے ساتھ بھاگ
جاتی ہے اور اس کی گود میں لیٹ کر اس کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھاتی ہے اور
محبوب صاحب جذبات کی عینک لگائے سب کچھ من و عن تسلیم کیے جارہے ہو تے ہیںیہ سوچے
بنا کہ جس نے اپنے ماں باپ کے ساتھ وفا نہیں انہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کے ان کا سر
معاشرے میں جھکا کے میرے ساتھ چل دی اس نے کسی اور کے ساتھ کیا وفا کرنی ہے بلکل
اسی طرح یہ اپنے ان لیڈروں کے ساتھ جو کروڑوں روپے انہیں دان کرتے ہیں غیر ملکی
دورے کرواتے ہیں ہر قسم کی عیاشی کرواتے ہیں یہ اور ان کے پالتو جن کے راتب پر پلتے
ہیں یہ ان کے وفادار نہیں تو ہمارے کیسے ہو سکتے ہیں عقل حیران ہے کہ ان میں اکثر
اپنے آبائی حلقوں کو چھوڑ کر سینکڑوں میل دور بسنے والوں پہ جا کرکرم فرمائی کرتے
ہیں اور وہاں سے جا کر الیکشن لڑتے ہیں گویا ان کے اپنے علاقے میں دودھ اور شہد کی
نہریں بہنا شروع ہو گئی ہیں اور علاقہ جنت نظیر بن گیا ہے عوام میں امداد لینے والا
تو دور کی بات زکوٰة صدقات لینے والا بھی کوئی نہیں رہا جو موصوف کو اب اتنی دور کی
سو جھی کہ ان لو گوں کو بھی قومی خوشحالی اور ترقی کے دھارے میں لایا جائے کوئی
ملتان سے اٹھ کر پنڈی سے جا الیکشن لڑتا ہے تو کوئی دہری شہریت بلکہ جس کے پاس کوئی
حلقہ تک نہیں وہ اٹک اور تھر پارکر سے الیکشن لڑتا ہے اور حیرت کی بات کہ وہ شخص
تھرپارکراور مٹھی سے تاریخ ساز ووٹ حاصل کرتا ہے جس نے زندگی بھر کبھی تھر پارکر
دیکھا تک نہیں میں بات کر رہا ہوں اپنے سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی موصوف نے نہ
کبھی پہلے مٹھی اور تھرپارکر دیکھا نہ الیکشن کے بعد ہی کبھی ادھر جانے کی زحمت
گوارا کی ایک اور صاحب جنھیں دوسروں کے حلقوں سے فقط پیسے کے زور پر الیکشن لڑنے کا
شوق ہے وہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی ہیں،مو صوف نے سارا زور ہمیشہ
ووٹوں کی خریدو فروخت پر رکھا ہے اور اچھا بھاﺅ تاﺅ کرنا جانتے ہیں،اپنے حلقے کو
چھوڑ کر دور درا ز کے علاقوں کے لو گوں کی خدمت کے شوقین ہیں،تین تین حلقوں سے
الیکشن لڑنے والے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاوہ سارے پاکستان میں کوئی لائق
اور ا ہل بندہ ہے ہی نہیں جو الیکشن لڑ سکے ان کا بس نہیں چلتا ورنہ سارے پاکستان
سے اپنے کاغذات جمع کروا دیں حالانکہ دوسرے حلقوں سے الیکشن لڑنے والوں کی مثال
دوسرے گاﺅںسے بیاہ کر آنے والی اس لڑکی جیسی ہے جسے ساس اٹھتے بیٹھتے یہ طعنے دیتی
ہے کہ اگر: اتنی چنگی ہوندی تے گراں وچ ای کوئی کر گنی آ:مگر یہ اس بات کو نہیں
سمجھتے نہ سمجھنے کو تیار ہیں کہ اگر اتنے چنگے ہوتے تو اپنے آبائی حلقوں سے ہی
الیکشن لڑ لیتے ،پچھلی دفعہ ان صاحب نے پاکستان کے تین حلقوں سے الیکشن لڑا دو پہ
بری طرح پٹ گئے ایک پہ مرمر کے عزت سادات بچی،موصوف نے حلقہ این اے61 تلہ گنگ میں ن
لیگ کے فیض ٹمن سے شکست کھائی وردی والے ان کے نہایت ہی اپنے(اس وقت)سید پرویز مشرف
جس کو دس دس دفعہ وردی میں منتخب کرانے کا مو صوف نے با ر بار عہد کیا (یہ بھی اس
وقت)اس وقت کے ضلعی ناظم سردار غلام عباس بھی مو صوف کے ڈرائیور کی ڈیوٹی سر انجام
دے رہے تھے تلہ گنگ کی اہم سرکردہ شخصیات بھی مو سم کے تیور دیکھ کر ان کے ساتھ
تھیں مگر فیض ٹمن نے جاگ تلہ گنگیا جاگ،تینڈی پگ گئی آ گجرات کا جذباتی
نعرہ(Emotionale Black Mailing )لگا کر لوگوں کی ہمدردیاں اپنے ساتھ کر لیں اور
جناب پرویز الٰہی کو چاروںشانے چت کر دیا،پھر یہی فیض ٹمن بقول ان کے میاں برادران
سے اختلاف جبکہ چہ مہ گوئیاں جعلی ڈگری کی وجہ سے اسمبلی سے مستعفی ہو گئے اور کچھ
عرصے بعد سونامی کا شکار ہو گئے ان کے ساتھ ہی پر ویز الٰہی کے ہمدم دیرینہ سردار
غلام عباس جنھوں نے انہی فیض ٹمن کے خلاف پرویز الٰہی کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا
اور پرویز الٰہی کی نوازشات کا شاید آخری نوالہ ابھی انکے منہ میں ہی تھا کہ جناب
اپنے سخت ترین حریف فیض ٹمن کے ہمراہ سونامی خان کے گلے مل گئے،ابھی قلابازیوں کی
یہ داستان ختم نہیںہوئی،کچھ لوگ جو شاید اس شدید ترین غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ
وہ شاید پیدا ہی اقتدار کے لیے ہوئے ہیں اور سدا حکمران رہیں گے ان ہی میں ہمارے
ملک کے اکثر سیاستدانوں کی طرح یہ سرداران بھی آتے ہیںاور یہ سارے کے سارے یہ دائمی
اصول بھول جاتے ہیں کہ سدا بادشاہی اور حکمرانی فقط اللہ تعالیٰ کی ذات کو روا
ہے،سردار غلام عباس نے ق لیگ اور سردار فیض ٹمن نے ن لیگ کو جس تیزی کے ساتھ چھوڑا
اور PTI کی کشتی پر سوار ہوئے اس سے زیادہ تیزی سے اس کشتی سے باہر چھلانگ بھی لگا
دی مگر بجائے کسی کنارے لگنے کے دونوں گہرے پانیوں میں جا پھنسے جہاں سے نکلنے کی
کوئی سبیل نہ پا کر ایک دفعہ پھر چوہدریوں کی سایئکل کا کیرئیر پکڑ لیا اور دوبارہ
ق لیگ کے ہمنوالہ و ہم پیالہ بن گئے،عوام ان کی گھمن گھیریاں دیکھ دیکھ کر حیران و
پریشان ہیں کہ یہ کون اور کیسے لوگ ہیں یہ کل سہی تھے یا آج سہی ہیںاور وہ عام لوگ
جو زبان کی خاطر کٹ مر جاتے ہیں اور اپنی زبان سے نہیں پھرتے وہ انگشت بانداں ہیںکہ
یہ سب کیا ہو رہا ہے میں نے خود صرف زبان کی پاسداری اور وعدے کی خاطر پریس کلب کی
رکنیت چھوڑ دی آج احساس ہوا کہ شاید میں نے غلط کیا یا میں ان جتنا سمجھ دار نہیں،
ہم کن کے پلے پڑ گئے ہیں یا یہ کون ہمارے پلے پڑ گئے ہیںآج پھر الیکشن کی آمد آمد
ہے اور موسمی پرندوں نے پھر گیلی زمینوں کا رخ کر لیا ہے اور وہی پر ویز الٰہی آج
پھر حلقہ این اکسٹھ سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں،سردار عباس جو کبھی بے نظیر بھٹو
کے دست راست تھے پھر مشرف بہ مارشل لاءہوئے اور ق لیگ پھر پاکستان تحریک انصاف اور
ن لیگ کی منتوں ترلوں کے بعد ایک دفعہ پھر پرویز الٰہی کی پرا ڈو کی ڈرائیونگ سیٹ
پر براجمان ہو چکے ہیںان کے ساتھ وہ فیض ٹمن بھی ق کی جھولی میں گرنے کو بے چین ہیں
جو سابقہ الیکشن میں نہ صرف پرویز الٰہی کے مد مقابل تھے بلکہ جب 2008میں پرویز
الٰہی کاغذات جمع کروانے تلہ گنگ پہنچے تو ان کی گاڑی پر انہی فیض ٹمن اور ان کے
حامیوں نے جوتوں کی بارش کی، ن لیگ میں جانے کے بعد ق کے آفتاب اکبر اور ن کے فیض
ٹمن کی ٹی ایم اے تلہ گنگ میں جھڑپ تو ابھی کل ہی کی بات ہے،تو کیا وہ سب ٹوپی
ڈرامہ یا ڈبلیو ڈبلیو کی نو را کشتی تھی،اور وہ جو نعرہ لگایا گیا کہ جاگ تلہ گنگیا
جاگ ،پگ گئی آ گجرات وہ سب کیا تھا ،مگر جہاں صرف مطمع نظر حرص وہوس لالچ اور ذاتی
مفاد ہو وہاں کیسی پگ اور کیسی عزت،وہاں سگا ماموں دشمن نظر آتا ہے اور سینکڑوں میل
دور کا چوہدری یار خاص،عوام نے آپ کے نعرے کو سچ سمجھ کر اگر اس وقت علاقے کی پگ
بچا لی اورخدانخواستہ اگر پگ جاتی بھی تو صرف سر ہی ننگا ہوتا مگر آج آپ نے تو
علاقے کی پگ کے ساتھ ساتھ دھوتی بھی ان کے حوالے کر دی،،،،،،،،،،،،اللہ ہم سب پر
رحم فرمائے- |