بڑے بوڑھے کہا کرتے ہیں، غلط کام بیٹا کرتا ہے اور جلی کٹی والدین کو
سننا پڑتی ہے، سابق کمانڈو صدر کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے۔
مشرف غدار ہے، مشرف آئین شکن ہے، مشرف کو پکڑو، مشرف کو لٹکادو، جیسے
مطالبات ہم سنتے رہتے ہیں حالانکہ بے چارے مشرف کو مرے ہوئے تو عرصہ بیت
چکا ہے۔ ناخلف اولاد کی وجہ سے باپ کو گالیاں پڑرہی ہیں، کیوں کہ سابق صدر
کا نام پرویز مشرف ہے، جبکہ مشرف ان کے والد کا نام ہے۔ اصل میں انگریزی
میڈیا شارٹ کٹ کے چکر میں بیٹے کو باپ بنادیتا ہے، اب یہ رواج اردو پریس
میں بھی چل نکلا ہے، حالانکہ شارٹ لکھنا ناگزیر بھی ہو تو پرویز پر اکتفا
کیا جاسکتا ہے، جو ان کا ”فرسٹ نیم“ ہے۔ ایک دوست کی فرمائش پر یہ چند جملے
لکھے ہیں، اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
پرویزمشرف جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، عدالت نے اپنے دور
اقتدار میں ججوں کو نظر بند کرنے کے مقدمے میں ان کی درخواست ضمانت مسترد
کرتے ہوئے انہیں حراست میں لینے کا حکم دیا تو وہ وہاں سے بھاگ نکلے۔ سابق
صدر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ فرار نہیں ہوئے تھے، کمانڈو جی کسی سے ڈرتے
ورتے تو ہیں نہیں، ہوسکتا ہے وہ پیشاب کے دباؤ کی وجہ سے عدالت سے بھاگتے
ہوئے اپنے فارم ہاؤس پہنچے ہوں۔ یار لوگوں نے بلاوجہ اسے ”کمانڈو کا فرار“
کا عنوان دے ڈالا۔ بہرحال عدالتی حکم کے 22گھنٹے بعد سابق آمر کو باضابطہ
طور پر حراست میں لے کر مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ مقدمہ چوںکہ
انسداددہشت گردی کی عدالت میں منتقل ہوگیا ہے، اس لیے اب ان کا وہاں آنا
جانا لگا رہے گا۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے جس میں کسی سابق ڈکٹیٹر
کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ آئین اور قانون کی فتح ہے مگر اس گرفتاری
نے کچھ سوالات کو بھی جنم دیا ہے جن کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔
سابق صدر کو عدالت کے واضح احکامات کے باوجود ناصرف سرکاری پروٹوکول میں
فرار کروایا گیا بلکہ انہیں گرفتاری سے بچانے کی بھی پوری پوری کوشش کی گئی۔
ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ پولیس پر بعض نادیدہ قوتوں کا دباو ¿
تھا۔ سابق صدر کو عدالت اور عوامی ردعمل کے خوف کی وجہ سے بادل نخواستہ
حراست میں تو لے لیا گیا مگر ان سے ملزم کی بجائے وی وی آئی پی مہمان جیسا
سلوک کیا جارہا ہے۔ مجسٹریٹ کی عدالت میں ہتھکڑی لگائے بغیر پیش کیا گیا۔
سوال یہ ہے اگر پرویزمشرف جیسا جرم کوئی بغیر وردی والا کرتا تو کیا اس کی
بھی اسی طرح خاطر مدارات کی جاتی؟ کبھی نہیں، وہ شخص کسی کال کوٹھڑی میں
پڑا سڑ رہا ہوتا۔
پرویزمشرف کے ساتھ روارکھے گئے خاص سلوک سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ بعض
قوتیں آج بھی خود کو ”خاص مخلوق“ سمجھتی ہیں۔ باوردی اور سویلین ملزم کے
لیے انصاف کے الگ الگ پیمانے ہیں۔ اصغرخان کیس میں بھی اس نوعیت کے انصاف
کی جھلک دیکھنے کو ملی تھی۔ عدالتی حکم کے باوجود سابق فوجی افسران پر کسی
کو ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں ہورہی ہے۔ جمعے کو سینیٹ کی متفقہ قرارداد میں
بھی قانون پر عمل درآمد کی ان الگ الگ صورتوں پر اظہار تشویش کرتے ہوئے
پرویز مشرف کے ساتھ عام ملزموں جیسا سلوک کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ
مطالبہ عوام کے دل کی آواز ہے، مقتدر حلقوں کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
پرویزمشرف کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی اصل ذمہ داری سیاست دانوں پر عاید
ہوتی تھی لیکن انہوںنے مصلحت اور غیرملکی دباؤ کی وجہ سے کسی کارروائی کی
بجائے خود کو محض بیانات تک محدود رکھا۔ آج کل سابق صدر کے خلاف جو قانونی
کارروائی ہورہی ہے وہ صرف عدلیہ کی مرہون منت ہے۔ آج کل سیاست دان بڑے زور
و شور سے مطالبہ کررہے ہیں کہ پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6کے تحت آئین
توڑنے کے جرم میں غداری کا مقدمہ چلایا جائے مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ یہ
مقدمہ عدلیہ خود نہیں چلاسکتی، بلکہ اس کے لیے وفاقی حکومت کو آگے بڑھ کر
کیس فائل کرنا پڑتا ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ برسوں کے دوران پرویزمشرف پر غداری کا مقدمہ
چلانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ پی پی نے سابق آمر کو بے نظیر بھٹو کا
قاتل قرار دیا تھا لیکن مقدمے کی بے دلی سے پیروی کی۔ سیاست دانوں کا یہ
رویہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ابھی تک آزادانہ فیصلے کرنے کی ہمت اور جرا ¿ت سے
محروم ہیں۔ یہ لوگ خود فیصلے کرنے کی بجائے اندرونی اور بیرونی قوتوں کے
اشاروں کے منتظر رہتے ہیں۔ سیاست دان چاہتے ہیں عدلیہ خود مقدمے درج کرے،
کیس چلائے، سزا سنائے اور تارامسیح کا کردار ادا کرے، وہ محض بیانات دیں گے
اور تماشائیوں کی طرح تالیاں پیٹیں گے۔ پرویزمشرف کا معاملہ سیاست دانوں کے
لیے ٹیسٹ کیس ہے اگر وہ ہمت دکھائیں تو ملک کی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آمریت سے
جان چھوٹ سکتی ہے۔
بلاشبہ پرویزمشرف کی وجہ سے پاک فوج کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا
ہے۔ اس شخص نے فوج کے ساتھ بڑاظلم کیا ہے۔ اس کی وجہ سے ملک کے قابل فخر
ادارے پر لوگوں کو انگلیاں اٹھانے کا موقع ملا۔ معاملہ عدالتوں میں جانے سے
پاک فوج کے بارے میں ایسے سوالات بھی سامنے آسکتے ہیں جو مقتدر حلقوں کے
لیے انتہائی تکلیف دہ ہوسکتے ہیں، اس لیے عسکری ماہرین کی اس تجویز کو ضرور
سنجیدگی سے لینا چاہیے جس میں فوج کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ کسی عدالتی
فیصلے کا انتظار کیے بغیر خود پرویزمشرف کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی
شروع کردے۔ عام افراد پرویزمشرف کو فوج کا نمایندہ سمجھتے ہیں، اس لیے ان
کے ہر فیصلے کو پاک فوج سے منسوب کردیا جاتا ہے۔ اگر فوج خود وردی کے
غیرآئینی اور غیرقانونی استعمال پر اپنے سابق سربراہ کو کٹہرے میں لے آئے
تو اس پر لگے دھبے دھلنے میں کافی مدد مل جائے گی۔ |