تحفظ پاکستان کے نظریاتی تقاضے

سعد افضل

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایک ایسی ایٹمی میزائل قوت بنا دیا ہے جس کو فوجی بل بوتے پر فاتح نہیں کیا جاسکتا لیکن ایک انتہائی گہری سازش کے تحت پاکستان کی بنیادی اساس دو قومی نظریے کو ہی باطل ثابت کرنے کی کاوشیں جاری ہیں اس لئے پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے استحکام کے بعد اب محسن پاکستان کی قیادت میں نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کےلئے تحریک تحفظ پاکستان سماجی و معاشی انصاف کے ایجنڈے اور ریاست مدینہ جیسے خدوخال کے تحت تبدیلی بذریعہ پرچی کے لئے کوشاں ہیں۔ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان مسلم لیگ نے قائد اعظم کی قیادت میں بنایا تھا۔ پاکستان کی بنیادی اساس نظریہ پاکستان کو ایک سازش کے تحت متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

22 جون 1939ءمیں مسودہ قانون مال گزاری پر ہندو اکثریت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا”تمہاری تعداد سب سے زیادہ ہوا کرے اور تم سمجھا کرو کہ سروں کی گنتی ہی آخری فیصلہ ہے لیکن تم ہماری روح کو کبھی فنا کرنے میں کامیاب نہیں ہوگے تم اس تہذیب کو مٹا نہ سکو گے، اس اسلامی تہذیب کو جو ہمیں ورثہ میں ملی ہے۔ ہمارا نور ایمان زندہ ہے، زندہ رہا ہے اور زندہ رہے گا۔ تم ہمیں مغلوب کرو، ہمارے ساتھ بدترین سلوک کرو، ہم ایک نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر مرنا ہی ہے تو ہم لڑتے لڑتے مر جائیں گے“۔

13 نومبر 1939ءمیں یوم عید کے موقع پر قائد اعظم نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”ہمیں قرآنی دلائل کی روشنی میں اپنے اخلاق و عقائد کو درست کرنا چاہئے اور اسی روشنی میں حق و صداقت کی جستجو بھی کرنی چاہئے، اگر ہماری صداقت پرستی بے لاگ ہے تو ہم ضرور اپنی منزل کو پا لیں گے۔ صداقت کے راستے پر چلتے ہوئے ہمیں اتنے ہی حصے پر قناعت کرنی چاہئے جس کو ہم دوسروں کی حق تلفی کئے بغیر حاصل کرسکتے ہیں۔ آخر میں میری یہ تاکید نہ بھولنا کہ اسلام ہر مسلمان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی قوم کےساتھ مل کر اپنا فرض ادا کرے۔

قائد اعظم کا یہ تاریخی فقرہ جو انہوں نے 7 مارچ 1940ءکو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ایک تاریخی تقریر میں کہا تھا کہ ”پاکستان اس دن وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا غیر مسلم مسلمان ہوا تھا“۔ اگر غور سے اس بیان کا تجزیہ کیا جائے تو ساری فریڈم موومنٹ سمجھ میں آ جاتی ہے۔ دو قومی نظریہ کی اس سے جامع تعریف اور کیا ہوسکتی ہے۔

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ہی 2 نومبر 1940 ءکو قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا ”اسلام انصاف، مسادات، معقولیت اور رواداری کا حامل ہے بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں آ جائیں، ان کے ساتھ فیاضی کو بھی روا رکھتا ہے“۔ اسلامیہ کالج پشاور میں 13 جولائی 1948 ءکو طلباءسے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح کیا کہ ”اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سر چشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں“۔

23 مارچ 1940 ءکو مسلم لیگ لاہور کے اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے دو قومی نظریے کی وضاحت ان الفاظ میں کی کہ ”حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے قومی تصور اور ہندو دھرم کے سماجی طور طریقوں کے باہمی اختلاف کو محض وہم و گمان بتانا ہندوستان کی تاریخ کو جھٹلانا ہے۔ ایک ہزار سال سے ہندوﺅں کی تہذیب اور مسلمانوں کی تہذیب پہلو بہ پہلو موجود رہی ہےں۔ دونوں قومیں آپس میں میل جول بھی رکھتی چلی آئی ہیں مگر ان کے قدیم اختلافات اسی شدت سے موجود ہیں۔ یہ توقع رکھنا سراسر غلط ہے کہ جمہوری آئین کا دباﺅ پڑے گا تو ہندو مسلمان ایک قوم بن جائیں گے جب ہندوستان میں ڈیڑھ سو سال سے قائم برطانوی سیکولر حکومت انہیں ایک قوم نہ بنا سکی تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہندوستان کی مرکزی حکومت میں فیڈرل نظام کے جبری قیام سے وہ دونوں ایک قوم بن جائیں گے۔ مسلم لیگ کے جلسہ میں جس میں قرارداد پاکستان کا ریزولیشن پاس ہوا تھا اس کے خطبہ صدارت میں آپ نے فرمایا ”میرے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ آخر ہمارے ہندو بھائی اسلام اور ہندومت کی حقیقت اور اہمیت کو سمجھنے سے کیوں گریز کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں مذہب نہیں بلکہ ایک دوسرے سے مختلف معاشرتی نظام ہیں اور اس بنا پر متحدہ قومیت کا تخیل ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ یاد رکھئے ہندو اور مسلمان مذہب کے ہر معاملہ میں دوجداگانہ فلسفے رکھتے ہیں۔ دونوں کی معاشرت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ یہ دو الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بنیادیں متضاد تصورات پر ہیں۔ دو ایسی قوموں کو ایک نظام مملکت میں یکجا کردینا باہمی مناقشت بڑھائے گا اور بالآخر اس نظام کو پاش پاش کردے گا جو اس ملک کی حکومت کے لئے وضع کیا گیا ہو“۔

پھر انہوں نے مدراس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں خطبہ صدارت میں اپنے اس دعویٰ کا اعادہ کرتے ہوئے فرمایا۔

”مسلم لیگ کا نصب العین یہ بنیادی اصول ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ایک جداگانہ قومیت رکھتے ہیں۔ انہیں کسی دوسری قوم میں جذب کرنے یا ان کے نظریاتی ملی تشخص کو مٹانے کے لئے جو کوشش بھی کی جائے گی۔ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا“۔ قائد اعظم کے ان افکار اور دعویٰ کے شدومد دیکھ کر مخالفین کو بھی اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ دو قومی نظریے کی حقیقت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں۔
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 94889 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.