عوامی نمائندہ

جوں جوں الیکشن قریب آتے جا رہے ہیں سیاسی سر گرمیاں تیز تر ہوتی جا رہی ہیں انقلاب کا نعرہ لیکر تمام جماعتیں میدان میں اتر چکی ہیں،وہی پرانے نعرے کچھ نئے نعروں کے اضافے کے ساتھ لگا کر عوام کی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے ،یہی چند دن ہوتے ہیں جب تمام لیڈر عوام کا نام بصد احترام لیتے ہیں اور نئے عزم و جوش کے ساتھ وہی وعدے دہرائے جاتے ہیں جو عوام کو بھی سن سن کر زبانی یاد رہ جاتے ہیں جب کہ لیڈر حضرات الیکشن کے بعد بھول جاتے ہیں، ما ضی میں عوام اتنی ٹھوکریں کھا چکی ہے کہ اگر کوئی نیک دل اور محب وطن انسان عوام کی خدمت کے جذبے سے آتا ہے تو اسے بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اردو میں کہاوت ہے کہ سانپ سے ڈرا ہوا رسی سے بھی ڈرتا ہے،یہی صورت حال عوام کی ہو چکی ہے ، اب توحالت یہا ں تک پہنچ چکی ہے کہ عوام ووٹ دینے کے جھنجھٹ میں پڑنا ہی نہیں چاہتی، الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پچاس فیصد سے بھی کم لوگ اپنا ووٹ ڈالتے ہیں، باقی لوگ اپنی قسمت کے فیصلے کوان حکمرانوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں۔

ملک کے اکثر حصوں میں تو ووٹ برادری ،قبیلے کے نام پر ملتا ہے ، بسا اوقات ووٹ ڈالنے والوں کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ جس کو ووٹ دیا جا رہا ہے وہ اس کا اہل ہے بھی یا نہیں، حا لانکہ ووٹ کی ایک شرعی حیثیت ہے اسے سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے، ووٹ کی شر عی حیثیت کے بارے میں مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ ووٹ ایک امانت ہے اسکا درست استعمال نہ کرنا سخت گناہ ہے ، کسی نااہل کو ووٹ دینے کا جو وبال آئے گا تمام ووٹر ا سکے کے ذمہ دار ہونگے، یہی وہ دن ہیں جب عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے، پرانے چہرے جو بار بار آزما ئے جا چکے ہیں ان پر مزید تجربہ کرنا خام خیالی ہوگی، لوڈشیڈنگ،دہشت گردی ،کرپشن کا لیبل چسپاں ہونے کے باوجود بھی اگر عوام دوبارہ انھیں لوگوں کو منتخب کرتی ہے تو پھر قصور وار عوام ہی ہے۔

اب عوام کو ایسے لوگ منتخب کرنا ہونگے جو عوام میں سے ہوں جنہوں نے لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگتا ہو ، جنہوں نے گھنٹوں قطار میں لگ کر بجلی ،گیس کے بل ادا کیے ہوں ،دہشت گردی کے عفریت کو سمجھ سکتے ہوں اور مقابلے کی ہمت بھی ہو،جو گھنٹوں انتظار کر کے بسوں پر لٹک کر سفر کرنا جانتے ہوں،جن کے گھروں میں مہنگائی کی وجہ سے فاقے ہوئے ہوں،جو پورا دن سی این جی کے لیے قطار میں لگ کر خوار ہوئے ہوں۔

ایسے لوگ عوام کی مشکلات کو ان کے دکھ درد کو سمجھ سکتے ہیں ،اور عوام کے لیے کچھ کر سکتے ہیں ،اور جو لوگ کبھی لوڈشیدنگ سے آشنا بھی نا ہوئے ہوں ،ہمیشہ چمکتی دھمکتی گاڑیوں پر سفر کرتے ہوں،جو کبھی بھی زندگی میں سی این جی کی خواری سے” لطف اندوز ‘ ‘ نا ہوئے ہوں ایسے لوگ عوامی مسائل کو کیا سمجھیں گے؟؟؟؟؟؟ اور کیا حل نکالنے کی کوشش کریں گے، ان کو تو اپنے پروٹو کول کے لیے سینکڑوں گاڑیاں چاہیے ہوتی ہیں، ان کو تو بڑی بڑی وزارتیں ،بیرون مملک اسفار ، اور بڑے بڑے محل چاہیے ،ان کو تو اتنی دولت چاہیے جس سے ان کی آنے والی نسلیں مستفید ہو سکیں۔

ان کو عوام سے کیا غرض کہ ایک غریب آدمی کا چو لہا کیسے چلتا ہے ، اس مہنگائی کا مقابلہ کس طرح کیا جاتا ہے ،اب عوام کو خود اپنا فیصلہ کرنا ہو گا کہ اگلے پانچ سالوں کے لیے وہی پرانی کہانی دہرانا چاہتی ہے یا پھر اپنے جیسا نمائندہ لانا چاہتی جو عوام کے مسائل کا ادراک جانتا ہو،فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
zubair
About the Author: zubair Read More Articles by zubair: 40 Articles with 70471 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.