وطن عزیز پاکستان میں عام
انتخابات کے انعقاد کا بگل بج چکا ہے۔ اس وقت پاکستان کے گلی کوچے سیاسی
اکھاڑے کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ ہر شخص اپنی بساط کے مطابق حالیہ انتخابات
پر تبصرہ کرنا فرض عین سمجھ رہا ہے سوچا ہم بھی اپنا حصہ ڈالتے جائیں۔
پاکستان کے عوام کے لیے بالعموم اور خود وطن عزیز کے لیے بالخصوص یہ بات
قابل تحسین ہے کہ پہلی مرتبہ ایک اسمبلی اپنی آئینی مدت جمہوری انداز میں
پوری کرنے کی متحمل ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ جمہوریت
دراصل پارلیمنٹ کی اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا نام ہے چاہے جتنی بھی
بدعنوان حکومت بر سر اقتدار کیوں نہ ہو ۔ ہم صرف اسمبلیوں کوہی 5سال گزارنے
کو کامیابی سمجھتے ہیں۔ خیر شکر ہے یہاں تک بھی پہنچ پائے اصل میں اسمبلیاں
تو اس جمہوری نظام کا حصہ ہوا کرتی ہیں جس میں عام آدمی کی مشکلات کو مد
نظر رکھتے ہوئے پالیسیاں تشکیل دی جائیں، جہاں تعلیمی نظام سب کے لیئے
یکساں ہو، انصاف عوام کی دہلیز پر میسر ہو، چادر اور چار دیواری کے تقدس کا
پاس رکھا جاتا ہو، زخیرہ اندوزی پر قابو پایا جاتا ہو، اخلاقیات کی پاسداری
کا رواج عام ہو، جوابدہی کے عمل سے گھبراہٹ پیدا نہ ہوتی ہو، خود احتسابی
کی جھلک رہنماؤں میں نظر آتی ہو، عدلیہ کے فیصلوں پر سر تسلیم خم کیا جاتا
ہو، سچائی کو شعار بنایا جاتا ہو، قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح نہ
دی جاتی ہو اور آئین کی بالادستی ہو قانون کی عملداری کا فارمولہ غریب امیر
سب کے لیئے یکساں ہو۔ ہمارے لیئے ابھی یہ ساری منازل طے کرنا شاید باقی ہیں
جس کے لیئے نیک نیتی کی سخت ضرورت ہے۔
حضرت سلیمانؑ کی حکومت اس دنیا میں واحد بے مثال حکومت رہی ہے جو بیک وقت
انسانوں، حیوانوں، جنوں اور آبی مخلوق پر یکساں قائم تھی۔ ایک مرتبہ حضرت
سلیمانؑ نے اپنی پوری سلطنت کی دعوت کی اور اس میں سب کو مدعو کیا گیا جب
کھانے کا وقت ہوا تو اس وقت سمندر سے ایک مچھلی نمودار ہوئی اور ایک ہی
لقمہ میں سب بوجھن کر لیااور واپس جانے لگی اور یہ ماجرا دیکھ کر حضرت
سلیمانؑ نے اس مچھلی کو روکا اور کہا کہ تو نے نا انصافی کی اور سارا کھانا
کھا لیا اب باقی مخلوق کیا کھانا کھائے گی،یہ سن کر مچھلی نے جواب دیا کہ
حضرت سلیمانؑ ؑ جو کھانا آپ نے پوری مخلوق کے لیے تیار کیا ہے ،رب ذوالجلال
اتنا کھانا سمندر میں مجھے دن میں دو مرتبہ کھلاتا ہے۔ ۔۔۔!!یہ واقعہ آپ کے
سامنے رکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی تو سیاسی و مذہبی جماعتیں
،آزاد امیداوار عوام کے حقیقی نمائندہ کہلوانے کے دعوے کر رہے ہیں اور ایسے
میں عوام کوسہانے خواب دیکھائے جا رہے ہیں۔عوام کے سامنے ان کے مستقبل کا
ایسا نقشہ کھینچا جارہا ہے کہ سادہ لوح عوام ان کی چکنی چپڑی باتوں میں
آکرنتائج سے بے خبر اپنے حقیقی نمائندوں کے جلسے کامیاب کرنے میں مصروف
ہیں۔عوام ضرور سیاسی جلسہ کامیاب بنائیں اپنے امیدوار کی اچھی اور جاندار
قسم کی انتخابی مہم چلائیں پر ساتھ میں یہ بھی یاد رکھیں کہ رزق اللہ نے
دینا ہے ان نمائندوں نے نہیں ،عوام آخرت کی فکر شروع کر دیں رزق خود ان کی
تلاش میں ان کے پیچھے آئے گا ۔۔۔۔!!
اس وقت وطن عزیز میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں میدان میں موجود ہیں اور
یہ بات نہایت خوش آئندہے کہ پاکستان میں اس وقت تک کسی بھی قابل ذکر بڑی یا
چھوٹی جماعت نے انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کیا ۔ اطمینان بخش امر یہ بھی ہے
کہ اس مرتبہ بلوچستان کی بھی تمام جماعتیں جن میں قوم پرست بھی شامل ہیں،
انتخابی عمل میں شریک ہیں جبکہ گزشتہ انتخابات میں ایسی مثال کم ہی ملتی
ہے۔پاکستان میں اس وقت ہر جماعت اپنے منشور اور امیدواروں کے ساتھ انتخابی
عمل میں کود چکی ہے تو اس ضمن میں اتنی گزارش کرتا چلوں کہ 80ء کی دہائی کے
بعد سے مسلسل کسی نہ کسی صورت میں عوامی خدمت کا موقع ملک کی ہر بڑی
نمائندہ جماعتوں کو حاصل رہا ہے ابھی تک تو یہ خود کو بدل نہیں پائے تویہ
ملک میں کیا تبدیلیاں مزیدلائیں گے۔ ملک بدلنے سے قبل پہلے خود کو بدلنا
اہمیت کا حامل ہے جس دن ہم نے خود کو بدل لیا،اس دن سے ہی ملک میں سب کچھ
اچھا ہے حقیقی معنوں میں اچھا کہلوانے کے لائق ہو جائے گا۔ آج کل وطن عزیز
پاکستان میں تبدیلی کی بات کی جارہی ہے اور نوجوان اس تبدیلی کا بنیادی
محرک و حصہ دکھائی دے رہے ہیں لیکن میں ذاتی طورپر پاکستان کے نوجوانوں سے
گزارش کروں گا کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی اس لیے بھیڑ چال کی روش کو
چھوڑ کر اور بنا کچھ سوچے سمجھے نوجوانوں کو کسی بھی مخصوص نعرے یا منشور
کی جانب بڑھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ تبدیلی کی خواہش توہر کوئی دل میں لیے
بیٹھا ہے لیکن سیاست میں تبدیلی نعروں سے نہیں عمل سے آیا کرتی ہے۔ ملک
چلانے کے لیے جذباتی انداز نہیں بلکہ ہوش اور اس سے بڑھ کرسنجیدگی اختیار
کرنا اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ عوامی جذبات سے کھیل کر اگر خدا نحواستہ
تبدیلی رونما نہیں ہوئی تو معاشرے کا وجود اورریاستی تشخص کا برقرار ہنا
انتہائی مشکل ہو جائیگا اور پھر ایسا نہ ہو کہ عوام کا اس نظام پر سے ہی
اعتماد اٹھ جائے اور آنے والے کل کو ہم خود کو ہی مورد الزام ٹھہرائیں اور
صد افسوس کے ہاتھ ملتے رہ جائیں۔قصہ مختصر پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی
جماعتیں اور ان کے قائدین قابل احترام اور ان جماعتوں کا انتخابی منشور
لائق تحسین ہے۔ بس اب عوام کو خود اپنی نظر میں بہتر دکھائی دینے والے
منشور کو منتخب کرنا ہے اور منشور کا انتخاب کرتے ہوئے اس بات کا خاص خیال
رکھنا ہے کہ روشن مستقبل نعروں سے نہیں عمل سے بنتا ہے کیونکہ عمل سے زندگی
بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔۔۔۔!! |