تھیلاسیمیا، بسم اللہ چیریٹی برطانیہ اور ڈاکٹر ظفراقبال

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت سفیان ؒ اپنے اساتذہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت سلمان ؓ بیمار تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ان کی عیادت کرنے گئے تو حضرت سلمان ؓ رونے لگ پڑے۔ حضرت سعد ؓ نے ان سے کہا آپ کیوں رو رہے ہیں؟ آپ تو (انتقال کے بعد)اپنے ساتھیوں سے جاملیں گے اور حضور ﷺ کے پاس حوض کوثر پر جائیں گے اور حضور ﷺ کا اس حال میں انتقال ہوا کہ وہ آپ سے راضی تھے۔ حضرت سلمان ؓ نے کہا میں نہ تو موت سے گھبرا کر رہ رہا ہوں اور نہ دنیا کے لالچ کی وجہ سے بلکہ اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ حضور نے ہمیں یہ وصیت فرمائی تھی کہ گزارے کے لیے تمہارے پاس اتنی دنیا ہونی چاہیے جتنا کہ سوار کے پاس توشہ ہوتا ہے اور (میں اس وصیت کے مطابق عمل نہیں کر سکا کیونکہ) میرے ارد گرد یہ بہت سے کالے سانپ ہیں یعنی دنیا کا بہت سا سامان ہے، راوی کہتے ہیں کہ وہ سامان کیا تھا؟ بس ایک لوٹا اور کپڑے دھونے کا برتن اور اسی طرح کی چند اور چیزیں تھیں۔ حضرت سعد ؓ نے ان سے کہا آپ ہمیں کوئی وصیت فرما دیں جس پر ہم آپ کے بعد بھی عمل کریں۔ انہوں نے حضرت سعد ؓ سے فرمایا جب آپ کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرنے لگیں تو اس وقت اپنے رب کو یاد کر لیا کریں یعنی کوئی بھی کام کرنے لگیں تو اللہ کا ذکر ضرور کریں۔

قارئین یہ ایک سچائی ہے کہ ہر انسان نے ایک مخصوص وقت اس امتحان کے گھر دنیا میں گزار کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دار البقا کی جانب کوچ کر جانا ہے جو رب تعالیٰ نے آزمائش کے بعد جنت یا دوزخ کی شکل میں تیار کر رکھا ہے۔ بڑے بڑے دولتوں والے آئے اور چلے گئے بڑی بڑی طاقتوں کے مالک آخر کار بے بس ہو کر دائمی ٹھکانے کی طرف کوچ کر گئے بڑی بڑی فوجوں کے مالک جب دنیا سے گئے تو خالی ہاتھ تھے۔ یہ بات میں بھی مانتا ہوں آپ بھی مانتے ہیں اور دنیا کا ہر انسان چاہے وہ صاحب ایمان ہے یا نہیں، اللہ تعالیٰ کے وجود پر یقین رکھتا ہے یانہیں وہ اس سچائی کو تسلیم کرتا ہے لیکن بابا بلھے شاہ ؒ کے شعر کا وہ مصرعہ بار بار دوہرانے کی ضرورت ہے
وے بلھیا اساں مرنا ناہیں ، گور پیا کوئی ہور

یعنی ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ جیسے دنیا کا ہر فرد مر جائے گا لیکن شاید اکیلے اکیلے ہم ہی اس دنیا کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے زندہ رہیں گے اور ہوتے ہوتے وہ وقت قریب آ جاتا ہے کہ موت کا فرشتہ جان قبض کرنے کے لیے سر پر آن پہنچتا ہے اور اس وقت عمل کی مہلت ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کے ان ایام میں نیک عمل کرنے کی توفیق دے جب وہ رب تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کے قابل ہوتے ہیں ویسے تو اللہ کا نظام اور اس کی رحمت ہم گناہ گاروں کی سمجھ سے بالاتر ہے لیکن یہ بات حقیقت کا درجہ رکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غصے پر حاوی ہے اور وہ تو بہانے ڈھونڈتا ہے کہ کس طرح کسی پر رحمت نازل کی جائے۔

قارئین آج کی اس تمہید کا مقصد ہمارے موضوع کے ساتھ ہے تھیلا سیمیا نام کی ایک موذی بیماری کا نام ہر کسی نے سن رکھا ہے جنیاتی طور پر کسی بھی بچے کو یہ بیماری پیدائش کے ساتھ ہی ملتی ہے اس بیماری کا شاخسانہ یہ ہوتا ہے کہ مریض کے جسم میں خون نہیں بنتا نارمل انسان میں ہڈیوں کے گودے (Bone Marrow)میں خون بنتا ہے لیکن جس انسان کو تھیلا سیمیا کی یہ بیماری لاحق ہوتی ہے اس کے ہڈیوں کے گودے میں خون بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ نے یہ نظام رکھا ہے کہ کچھ دنوں کے بعد انسانی جسم میں موجود خون کے خلیے ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہو جاتے ہیں اور ہڈیوں کے گودے میں نیا خون تیار ہو کر انسانی جسم میں شامل ہو تا رہتا ہے اور انسان زندہ اور صحت مند رہتا ہے۔ وہ بد قسمت یا آزمائش کا شکار انسان خون بنانے کی اس صلاحیت سے محروم ہو تا ہے جسے جینیاتی بیماری تھیلا سیمیا پیدائش کے ساتھ ہی ملتی ہے اس کی بنیادی وجہ وہ جینز ہیں کہ جو ماں اور باپ سے بچے کو ملتے ہیں اگر ماں اور باپ دونوں کی جانب سے تھیلا سیمیا کی بیماری کے حامل جینز بچے کو ملیں تو یہ بچہ سو فیصد بلڈ ٹرانسفیوژن کا محتاج ہوتا ہے۔ آزاد کشمیر کے سب سے بڑے شہر میرپور میں آج سے سات سال قبل تک ایسے مریضوں کو علاج معالجے کے لیے اسلام آباد، لاہور اور پاکستان کے دیگر شہروں میں جانا پڑتا تھا کیوںکہ شہر میں سرکاری اور نجی سطح پر ایک بھی ادارہ ایسا نہیں تھا کہ جہاں پر تھیلاسیمیا کے مریضوں کو طبی امداد کی سہولت میسر ہو سکتی ۔ ڈاکٹر ظفر اقبال جو چائلڈ سپیشلسٹ میڈیکل ڈاکٹر بھی ہیں اور میرپور کے ڈسٹرکٹ ڈرگ انسپکٹر بھی ہیں وہ مختلف سائنٹفک ورکشاپس میں شرکت کے لیے اندرون ملک لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور اور بیرون ملک برطانیہ سے لے کر دیگر ممالک جاتے رہتے تھے آج سے سات سال قبل وہ لاہور کسی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے گئے تو وہاں ان کی ملاقات پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی صدر اور سماجی خدمات کے حوالے سے پاکستان کے عالمی شہرت کی حامل شخصیت ڈاکٹر یاسمین راشد سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں ڈاکٹر ظفر اقبال نے چائلڈ سپیشلسٹ ہونے کی حیثیت سے علاج کی غرض سے اپنے پاس آنے والے مختلف بچوں اور ان کی بیماریوں کا تذکرہ کیا تو اتفاق سے ان بچوں کا ذکر بھی کر دیا جو تھیلا سیمیا کے موذی مرض میں مبتلا تھے ۔ڈاکٹر یاسمین راشد نے سوالات کا تانتا باندھ دیااور جب انہیں یہ پتا چلا کہ میرپور سمیت پورے آزاد کشمیر میں ایک تھیلا سیمیا سنٹر بھی کام نہیں کر رہا تو وہ ششدر رہ گئیں ۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے ڈاکٹر ظفر کو بتایا کہ پاکستان میں تھیلا سیمیا کے بین الاقوامی ادارے کی ذمہ داریاں آج کل ان کے پاس ہیں اور ان کی یہ خواہش ہے کہ میرپور میں اگر حکومتی سطح پر ممکن نہیں ہے تو اپنی مدد آپ کے تحت ڈاکٹر ظفر تھیلا سیمیا سنٹر قائم کریں اور ڈاکٹر یاسمین راشد اس ادارے کی ہر ممکن مدد کریں گی۔ ڈاکٹر ظفر اقبال میرپور واپس آئے تو ان کے دل کی دنیا بدل چکی تھی اور یہ جنون ان کے قلب و ذہن پر حاوی ہو چکا تھا کہ میرپور میں ہر صورت میں تھیلا سیمیا سنٹر قائم کرنا ہے انہوں نے آتے ساتھ میرپور میں اپنے قریبی دوستوں اور ہم خیال حلقہ احباب میں مشاورت شروع کی اور ممتاز بزنس مین ممتاز رسول میر ، ڈاکٹر محمد اکرم چودھری، سجاد علی، واجد رسول میر اور دیگر کے ساتھ ملکر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور میں اپنی مدد آپ کے تحت ”تھیلا سیمیا سنٹر میرپور“ قائم کر دیا وقت گزرتا گیا اور ڈاکٹر ظفر اقبال اور ان کی ٹیم کا یہ سفر جاری رہا آج سات سال گزرنے کے بعد یہ سنٹر ترقی یافتہ شکل اختیار کر چکا ہے اور اس سنٹر میں دو سو کے قریب مریض رجسٹرڈ ہو چکے ہیں ابتدائی مرحلے میں آزاد کشمیر کے سب سے پہلے بلڈ بنک کشمیر بلڈ بنک میرپور کے بانی صدر محمد عظیم خان آگے بڑھے اور اس سنٹر کو خون کی فراہمی کی ذمہ داری انہوں نے اپنے سر لے لی آج الشفاءبلڈ بنک اس سنٹر کو 80فیصد خون فراہم کر رہا ہے ایک مریض کا ماہانہ خرچ 4500روپے کے قریب ہے اور تمام مریضوں کو خون کی فراہمی اور علاج کی مفت سہولت فراہم کی جا رہی ہے سالانہ بجٹ کئی ملین روپے ہے اور تمام کی تمام رقم سول سوسائٹی اور مخیر حضرات مل جل کر فراہم کرتے ہیں۔

قارئین گزشتہ روز برطانیہ سے قاضی عبدالعزیز چشتی جو ایک معروف دینی سکالر ہیں اور برطانیہ کے شہر لوٹن میں ”بسم اللہ چیریٹی “ کے نام سے ایک رفاعی ادارہ چلا رہے ہیں ایک وفد کے ہمراہ تشریف لائے برطانیہ سے آنے والے اس وفد کے اعزاز میں خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا اور قاضی عبدالعزیز چشتی ، محبوب چشتی، سراج چشتی، عبدالکبریا چشتی اور دیگر کے اعزاز میں ایک تقریب تھیلا سیمیا میں منعقد ہوئی جہاں برطانیہ سے آنے والے ان مہمانوں نے تھیلا سیمیا میں مبتلا ان مریضوں میں تحائف تقسیم کیے۔ اس موقع پر راقم بھی موجود تھا اور راقم اس کیفیت کو محسوس کر رہا تھا جس سے اس موذی مرض میں مبتلا معصوم بچے یا تو گزر رہے تھے اور یا پھر اپنی معصومیت کی وجہ سے اس بیماری کی سنگینی سے ناآشنا تھے۔ راقم کے ذہن میں جو جذبات و احساسات موجود تھے وہ چچا غالب کی زبان میں شاید کچھ اس طرح تھے۔
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغ دل گر نظر نہیں آتا
بوبھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبے کس منہ سے جاﺅ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

قارئین برطانیہ سے بسم اللہ چیریٹی لوٹن کے وفد کے اعزاز میں تقریب منعقد کی گئی اس تقریب کا احوال کچھ یوں تھا کہ ڈاکٹر ظفر اقبال نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ میرپور () برطانیہ کے شہر لیوٹن سے چیئرمین بسم اللہ چیرٹی برائے تھیلا سیمیا قاضی عبدالعزیز چشتی کے ہمراہ برطانوی وفد کی میرپور آمد اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور میں قائم اپنی مدد آپ کے تحت تھیلاسیمیا سنٹر کا دورہ انتہائی خوش آئند ہے ۔اس وقت میرپور میں آزادکشمیر کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا تھیلا سیمیا سنٹر کا م کررہاہے جہاں ننھے منے بچوں سے لے کر مختلف عمروں کے مریض زیر علاج ہیں۔تقریب کی صدارت ڈاکٹر اکرم چوہدری صدر پرائیویٹ ہاسپٹل ایسوسی ایشن وتھیلا سیمیاسنٹر میرپور نے کی جبکہ مہمانان گرامی میں قاضی سراج ،قاضی عبدالعزیز چشتی ،محبوب چشتی اور ڈاکٹر عنایت اللہ شامل تھے ۔تقریب میں ڈپٹی کنٹرولر ریڈیو پاکستان محمد شکیل چوہدری،ڈاکٹر مشتاق چوہدری ،ممتاز میر ،الطاف حمید راﺅ ،سجاد جرال ،سجاد علی ،راقم ، محمد رمضان چغتائی، چودھری خالد، ڈاکٹر ریاض احمد، ڈاکٹر ریاست علی چودھری، راجہ آزادحسین ،رضوان اکرم ،راجہ سہراب خان ،ڈاکٹر اصغر چوہدری ،واجد رسول میر ،چوہدری عنصر ،ڈاکٹر طاہر محمود ،چوہدری طارق ،سجاد بخاری ،راجہ جاوید ،ڈاکٹرز وکلاءانجینئر ز صحافیوں اور ہر مکتبہ فکر سے بہت بڑی تعداد میں اہل علاقہ نے شرکت کی ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ تھیلا سیمیا کو کنٹرول کرنے کیلئے سائنسی بنیادوں پر کام کرنا انتہائی ضروری ہے جینز سے جنم لینے والی اس بیماری کو کنٹرول کرنے کیلئے میڈیکل ٹیسٹ اس مرحلے میں کروانا ضروری ہیں کہ جب ماں کو حمل ٹھہرے ، مفتیان کرام فتویٰ دے چکے ہیں کہ اگر پیدائش سے قبل ابتدائی حمل کے دوران میڈیکل ٹیسٹس سے پتہ چل جائے کہ تھیلی سیمیا کا مسئلہ درپیش ہے تو ایبارشن Abortionکروایا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر ظفر چودھری نے بتایا کہ اس سال ہم نے دو ہزار چوراسی 2084خون کی بوتلیں مریضوں کو فراہم کیں۔ میرپور تھیلی سیمیا سنٹر میں 198مریض رجسٹرڈ میں اور یہاں روزانہ 14مریضوں کو بلڈ ٹرانسفیوژن کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر اکرم چودھری نے صدارتی خطاب میں اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم اپنی بساط کے مطابق اس موذی بیماری میں مبتلا مریضوں کی مدد کرتے رہیں گے۔ بسم اللہ چیرٹی لیوٹن برطانیہ کے چیئرمین قاضی عبدالعزیز چشتی، قاضی محبوب چشتی، قاضی سراح چشتی اور ان کی پوری ٹیم انتہائی مبارکباد کے مستحق ہیں وہ انسانیت خدمت کا عظیم فریضہ انجام دینے کیلئے محنت کر رہی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کوارڈینٹر دیا فاﺅنڈیشن نے کہا کہ اگر ہر انسان یہ سمجھ لے کہ ایک دن اس نے اس جہان فانی سے چلے جانا تو وہ ہمیشہ زندہ رہنے والے نیکی کے کام کرے اور انسانیت کی خدمت کرنے والے ادارے قائم کرے انہیں بنائے۔ ڈاکٹر اکرم چودھری ، ڈاکٹر ظفر اقبال، ڈاکٹر مشتاق چودھری، چودھری طارق ممتاز اور ان کی پوری ٹیم انسانیت کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی قاضی عبدالعزیز چشتی نے کہا کہ میرے اپنے بیٹے کو تھیلی سیمیا کا مرض لاحق ہے۔ اسی سے مجھے اندازہ ہوا کہ مرض کس قدر خوفناک ہے آج ہم بسم اللہ برطانیہ کی طرف سے 500انجکشن 14کا رواچ اور دیگر اشیاءکا عطیہ دے رہے ہیں اور 5بچے کے علاج کیلئے تمام اخراجات ہم ادا کریں گے۔ اللہ اسے قبول فرمائے صاحب ثروت لوگ اس سنٹر کی بھرپور مدد کریں ۔

قارئین یہ اس تقریب کا احوال تھا جو ہم نے آپ کے سامنے رکھ دیا تھیلاسیمیا کے مرض کی سنگینی وہی انسان سمجھ سکتا ہے جو یا تو خود اس کرب سے گزر رہا ہو اور یا پھر اس کا کوئی قریبی عزیز اس بیماری میں مبتلا ہو ہم آج کے کالم کی وساطت سے تمام صاحب دل اہل ایمان سے درخواست کرتے ہیں کہ میرپور میں قائم اس ادارے سمیت ایسے تمام اداروں کی بھرپور مدد کریں جو تھیلا سیمیا سمیت دیگر موذی امراض میں مبتلا دکھی انسانیت کی خدمت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔بسم اللہ چیریٹی لوٹن برطانیہ کے قاضی عبدالعزیز چشتی ، ان کے نوجوان بیٹے سراج چشتی ، محبوب چشتی اور ان کی پوری ٹیم نے ڈاکٹر ظفر اقبال اور ڈاکٹر محمد اکرم چودھری کے قائم کردہ اس سنٹر کی مدد کر کے ایک زندہ مثال قائم کی ہے یقین رکھیے کہ باقی رہنے والا مال وہی ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا جائے۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے۔
ایک پادری دوزخ کے بارے میں وعظ دے رہا تھااس نے تمام تفصیل بیان کر دی تو ایک بچے نے اس کا گاﺅن تھام لیا اور معصومیت سے پوچھا
”فادر آپ دوزخ کی اتنی تفصیل جانتے ہیں کیا آپ وہیں سے آئے ہیں ؟“

قارئین تھیلا سیمیا جیسی موذی بیماری کے متعلق جان کر آپ بھی یہی محسوس کریں گے کہ ایک معصوم بچہ جو اس مرض میں مبتلا ہو اس کے دکھ درد میں اور کرب کی کیفیت کیاہے اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اپنی امان میں رکھے اور ہم سب کو یہ توفیق دے کہ ہم اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ان رفاعی کاموں میں اپنا نام لکھوا سکیں آمین۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 380547 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More