یہ بے حیائی بلکہ بدکاری کی یلغار ہے جو ہمارے ملک پر ہوئی ہے اور یہ اخلاق کے قلعے
کو مسمار کرتی چلی جارہی ہے۔ ہمیں اس یلغار کو روکنا ہے مگر ہم اس کے خلاف بات کرتے
ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو فحاشی ہے۔ اس طرح صورتحال یہ بن گئی ہے کہ فحاشی کی
تباہ کاری کو ہم نے قبول کرلیا-
ایک طوفان ہے جنسی بے راہ روی اور انحراف کا جس کی لپیٹ میں ہمارا نوجوان طبقہ آیا
ہوا ہے۔ ایک تو انحراف اور بے راہروی کے برے اثرات ہیں جو جسمانی اور نفسیاتی تباہی
کی طرف لے جاتے ہیں ان میں کچھ اور اثرات شامل ہوجاتے ہیں جو تباہی کے عمل کومکمل
کردیتے ہیں۔ میں متاثرہ نوجوانوں کو دہشت زدہ اور مایوس نہیں کرنا چاہتا لیکن میں
اس حقیقت کو چھپا بھی نہیں سکتا‘ بعض افراد تباہی کے اس مقام تک جا پہنچتے ہیں جہاں
سے واپسی تقریباً ممکن نہیں رہتی۔ جسمانی لحاظ سے تو ہم انہیں واپس نارمل حالت میں
لاسکتے ہیں لیکن ان میں چونکہ نفسیاتی بگاڑ پیدا ہوگیا ہے اس لیے وہ جسمانی علاج کو
قبول نہیں کرتے۔ وہ اپنے تجزیے خود کرتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹروں کوکچھ
بھی معلوم نہیں۔میں اس کی کچھ مثالیں پیش کروں گا:
بعض کو آوازیں سنائی دیتی ہیں اور وہ اپنے آپ کو ان آوازوں کے تابع سمجھتے ہیں۔ وہ
کوئی اچھا کام کرنے لگتے ہیں تو یہ آوازیں انہیں اس کام سے روکتی ہیں۔ ان آوازوں کو
وہ حقیقی سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو انہی کے حوالے کردیتے ہیں۔
بعض اپنے آپ میں کسی انجانی طاقت یا پراسرار قوت کی موجودگی محسوس کرتے ہیں اور
کہتے ہیں کہ ان کا ہر قول اور فعل اس کے تابع ہے اسے وہ حقیقت سمجھتے ہیں۔
ایک اس مقام پرجاپہنچتے ہیں جہاں وہ اللہ کے وجود کے منکر ہوجاتے ہیں اور اپنی
بہنوں کوتصوروں میں محبوبہ سمجھ لیتے ہیں۔ ان کی نگاہوں میں ان کی بہنیں سڑکوں پر
گھومتی پھرتی عام سی لڑکیاں بن جاتی ہیں۔ وہ مذہبی‘ معاشرتی اور دیگر تمام اخلاقی
ضابطوں سے باغی ہوجاتے ہیں۔
ایسے بھی ہیں جو مردانگی کو ترک کرکے عورت کا رول ادا کرنا پسند کرتے ہیں۔
ہمارے بعض قارئین شاید یہ تسلیم نہ کریں کہ میں نے جو کیس بیان کیے ہیں ان کا حقیقت
کے ساتھ کچھ تعلق ہے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ایسے کیس آتے رہتے ہیں۔ یہ کیس کوئی
عجوبہ نہیں۔ یہ ایک نفسیاتی مرض ہے جسے SCHIZOPHERANIA کہتے ہیں۔ اس مرض میں انسان
حقیقت سے رشتہ توڑ کر تصورات کی دنیا میں چلا جاتا ہے اور تصورات کو حقیقت سمجھتا
ہے۔
میں اس مضمون کو آگے چلانے سے پہلے ایک نہایت اہم بات کہنا چاہتا ہوں ہمارے معاشرے
میں جنس کا صرف نام لینے کو ہی معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ اسلام نے تمام مسائل واضح
طور پر بیان کیے ہیں اوریہ نئی نسل کا اپنے بزرگوں پر حق بھی ہے۔ آج ہمارے بزرگ
اپنی اولاد کو رہنمائی دینے کو تیار نہیں جبکہ یہی کام میڈیا نے سنبھال لیا ہے جس
کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان نسل اس طوفان میں بہتی چلی جارہی ہے۔ جنس کے متعلق کوئی
جائز اور فائدہ مند بات کرو تو اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ یہ توفحاشی اور عریانی ہے۔
ذرا غور فرمائیے کہ ہمارے ملک پر فحاشی اور عریانی کا کتنا شدید حملہ ہوا ہے۔
انگریزی کے ننگے رسالے اور فحاشی سے بھرپور ناول دھڑا دھڑ ہمارے ملک میں آرہے ہیں
اور نوجوان طبقے میں مقبول ہوچکے ہیں۔
فلموں کی جو بھرمار ہے وہ آپ سب دیکھ رہے ہیں فلم بینی کو تو غذا کا درجہ حاصل
ہوگیا ہے جیسے اس کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہو فلمیں چونکہ گھروں میں دیکھی جاتی
ہیں اور چھوٹے بڑے‘ مرد عورتیں باپ بیٹی اکٹھے بیٹھ کر دیکھتے ہیں اس لیے گھروں سے
شرم اور حجاب نکل گیا ہے اور اس کی جگہ رومان پرستی آگئی ہے اور یہیں سے ذہنی لذت
کی عادت شروع ہوئی۔ اس کا قدرتی نتیجہ جو سامنے آیا ہے اسے روکا نہیں جاسکتا۔ یہ ہے
خود لذتی۔
اخباروں میں عورتوں کی رنگین تصویریں اور اشتعال انگیز پوز لڑکوں کو ہی ذہنی طور پر
خراب نہیں کرتے بلکہ لڑکیوں پر ان کابہت برا اثر ہوتا ہے۔ ذہنی لذت پرستی کے یہ
تمام سامان ہماری نوجوان نسل کو مغربی ممالک کے مادر پدر آزاد معاشرے کے رنگ میں
رنگ چکے ہیں۔
یہ بے حیائی بلکہ بدکاری کی یلغار ہے جو ہمارے ملک پر ہوئی ہے اور یہ اخلاق کے قلعے
کو مسمار کرتی چلی جارہی ہے۔ ہمیں اس یلغار کو روکنا ہے مگر ہم اس کے خلاف بات کرتے
ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو فحاشی ہے۔ اس طرح صورتحال یہ بن گئی ہے کہ فحاشی کی
تباہ کاری کو ہم نے قبول کرلیا لیکن اس کے خلاف مورچہ بندی کا ذکر آتا ہے تو ہمیں
کوئی ایسا لفظ بھی لکھنے کی اجازت نہیں جو فحاشی کے زمرے میں آتا ہو۔ اس کا مطلب یہ
ہوا کہ ذہنی لذت پرستی پھلتی پھولتی رہے گی مگر اس کا یا اس کے اثرات کا ذکر نہ
آئے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ دشمن کی یلغار کو روکیں لیکن تلوار ہاتھ میں
نہ لیں۔
میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی نوجوان نسل کو اس تباہی سے بچائوں لیکن یہاں تو یہ
صورت پیدا ہوگئی ہے کہ بات پردے میں کرنے کی پابندی لگی ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے
کہ نوجوان پردے پردے میں تباہ ہورہے ہیں۔ نہ ان کے والدین ان کیلئے کچھ کرتے ہیں نہ
سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ۔ کسی بھی باپ سے اس کے نوجوان بیٹوں اور بیٹیوں کی
پرائیویٹ زندگی کے متعلق پوچھو تو وہ ان کے چال چلن کی تعریف کرتا اور کہتا ہے کہ
میری اولاد کے خیالات اتنے گندے نہیں۔ یہ حضرات اپنے آپ کو خوش فہمی میں مبتلا کیے
رکھتے ہیں۔ یہی وہ حضرات ہیں جو جنسی جبلت کے متعلق تعمیری بات سن کر بھی کہتے ہیں
کہ تو بڑی ننگی باتیں ہیں لیکن عملاً جو تباہی پھیل رہی ہے میں اس کی بات کروں گا۔
میرے پیش نظر وہ نوجوان لڑکے او رلڑکیاں ہیں جنہوں نے قومی آزادی کا اور ملک کے
وقار کا دفاع کرنا ہے۔ ان کے والد صاحبان کی اَنا اور جھوٹے وقار کے ساتھ مجھے کوئی
دلچسپی نہیں۔
جب تک والدین اپنی اولادکی تربیت کیلئے وقت نہیں نکالیں گے اور اساتذہ اپنے طالب
علموں کو اپنی اولاد نہیں سمجھیں گے تب تک ہماری نوجوان نسل جنسی بے راہ روی کے
سیلاب میں بہتی چلی جائے گی اور تمام والدین یہ سوچ کر مطمئن ہوتے رہیں گے کہ ہمارے
بچے ایسے نہیں ہیں۔
معاشرے کے اس پھیلتے ہوئے اس ناسور کے آگے بند باندھنے کا سب سے بہترین ذریعہ یہی
ہے کہ ہم اپنی اولاد کودین کے راستے پر چلائیں اور خود مناسب انداز میں ان کے
جسمانی تبدیلیوں اور جذباتی پہلوئوں سے متعلق آگاہ کریں |