PS-93 سے کٹی پہاڑی تک

کراچی کے دو حلقے دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ہیں ، انھیں پی ایس ۹۶ اور پی ایس ۹۳ کے علاوہ عرف عام میں کٹی پہاڑی کے نام سے بھی پوری دنیا میں جانا جاتا ہے ۔کٹی پہاڑی بنیادی طور پر ایک پہاڑی سلسلہ ہے جو پٹھان کالونی سے لیکر منگھو پیر اور پھر بلوچستان تک دراز ہے ، یہ بلند و قامت پہاڑ نہیں ہیں ، لیکن میڈیا کی وجہ سے انھیں تورا بورا کی طرح ایک ایسا پہاڑی سلسلہ سمجھا جاتا ہے ، جس میں غار ہیں اور ان میں عسکریت پسند چھپ کر کراچی میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرتے ہوں ، جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے ، کٹی پہاڑی پر چالیس سال زائد عرصے سے مختلف قومتیوں سے وابستہ بڑی تعداد میں ہزاروں خاندان آباد ہیں ، جن میں سب سے زیادہ علاقہ صوبہ خیبر پختوخوا کے ضلع تور غر سے وابستہ خیلوں کی ہے جو روزگار کے سلسلے میں کراچی آئے تو اپنی روایت کے مطابق یہاں بھی اپنے علاقہ تورغر(کالا ڈھاکہ) کی طرح پہاڑوں پر خود کو آباد کرلیا ، اس بات سے بے پروا ہوکر کہ انھیں پانی ، بجلی ، گیس کی سہولیات میسر آئیں گی یا نہیں ، کیونکہ ان کے آبائی علاقوں میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔جبکہ پٹھان کالونی کے علاقے میں سوات کے آباد کارقیام پاکستان سے قبل اس طرح آباد ہوئے کہ اب یہ علاقہ کسی صورت میں پہاڑ پر آباد لگتا ہی نہیں ہے ۔پی ایس ۹۳ اور پی ایس ۹۶ کے پختون آباد علاقوں میں دو باتیں بڑی مشترک ہیں ، ایک یہاں عسکریت پسندوں نے بڑی تعداد میں اپنے مخالفین پر کریکر حملے کئے ۔ تحریک طالبان(افغانستان) کے بڑے رہنما ؤں کو پی ایس ۹۶ کے علاقے کنواری کالونی، پیر آباد ، پٹھان کالونی ، میٹرول سے گرفتار کیا گیا ، جن میں کچھ طالبان کو پاک ،افغان مفاہمتی عمل میں امریکہ کے احکامات پر امن کے نام پر کچھ ہفتوں قبل رہا کیا گیا۔اسی طرح ان دونوں حلقوں میں طالبان کے نام سے پختون برداری کے سرکردہ رہنماؤں سے کروڑوں روپے بھتے بھی مانگے گئے ، لیکن وزیرستان میں موجود مولوی نذیر گروپ اور حکیم اﷲ محسود گروپ نے شدید تردید کی کہ ان کے نام سے بھتہ وصول کرنے والوں کا ان کی تحریک سے کوئی واسطہ نہیں ،ان کے مطابق یہ عمل پختون قوم پرست سے تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ افراد کر رہے ہیں۔ ان دونوں حلقوں میں بھتہ نہ دینے پر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے گھر پر کریکر حملے بھی کئے گئے۔گو کہ پی ایس ۱۲۸، ، ۹۴ ، ۹۷،۸۹ اور سلطان آباد ، پختون آباد ، کے علاوہ سہراب گوٹھ جیسے علاقوں کے بارے میں خود پولیس کے سینئر افسر نے میڈیا میں اعتراف کرلیا ہے کہ یہاں عسکریت پسندوں کی حکمرانی اور پولیس اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن پی ایس ۹۶ ، پی ایس ۹۳ میں کئی باتیں مشترک اور کٹی پہاڑی کے حوالے سے سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک انکشاف کرچکے تھے کہ یہاں طالبان نے مورچے بنا لئے تھے جنھیں کلیئر کراکر چوکیاں بنائی گئیں ۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ پیرآباد سے لیکر کنواری کالونی تک پہاڑی پر رینجرز نے آٹھ سے زائد پختہ چوکیاں بھی بنائی ہوئی ہیں ، لیکن ان میں کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار موجود نہیں ہوتے۔ایک چوکی میں ایف سی کے اہلکار بھی ہوتے ہیں اور رینجرز کے اہلکار بھی نیچے پختہ چوکی میں چوبیس گھنٹے موجود ہوتے ہیں ، لیکن عوام سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ اہلکار "کن"کی حفاظت کیلئے معمور کئے گئے ہیں ۔پی ایس ۹۳ میں عوامی نیشنل پارٹی کو ۲۰۰۸ ء کے الیکشن میں جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کی وجہ سے اتفاق سے کامیابی ملی تھی ، جس کے نتیجے میں صوبائی وزیر امیر نواب برسر اقتدار آئے اور اتنی" اچھی کارکردگی" کا مظاہرہ کیا کہ اے این پی نے شرم کی وجہ سے اس بار پارٹی ٹکٹ ہی فراہم نہیں کیا ، موصوف وزیر کی اقربا پروری ، رشوت خوری اور بد عنوانیوں نے کراچی کی تاریخ کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ، پی ایس ۹۳ کے حوالے سے اے این پی کو خوش فہمی ہے وہ" اچھی کارکردگی" کی بنیاد پر ایک بار پھر یہ نشست جیت جائیں گے لیکن عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کی کارکردگی کیا ہے ، جس کا یہ دعوی کر رہے ہیں ؟ ۔اگر ان کی کارکردگی اچھی ہوتی تو صوبائی وزیر محنت سندھ کوٹکٹ فراہم کردیا جاتا ، جوکہ سائٹ ٹاؤن کے ٹاؤن ناظم بھی رہ چکے تھے لیکن پی ایس ۹۳ کی عوام بخوبی جانتی ہے کہ جعلی اپائمنٹ لیٹر جاری کرکے عوام کو بے وقوف بنانے والے اے این پی کے سینئر رہنماء یہ نشست کامیاب تو کیا ، اپنی ضمانت بھی نہیں بچا سکتے اس لئے اے این پی سندھ کے جنرل سیکرٹری بشیر جان کو ٹکٹ دیا گیاجو ۲۰۰۸ ء میں صوبائی ٹکٹ نہ ملنے پر کچھ عرصہ پارٹی سے کنارہ کش ہوگئے تھے ،پی ایس ۹۳ کی ایک بڑی عجیب بات یہ بھی ہے کہ یہاں اے این پی کے ناظم بھی منتخب ہوتے رہے ، جس میں یو سی ۵ ، یوسی ۶ ،اور یوسی ۷ سائٹ ٹاؤن شامل ہیں ، لیکن ان کی کارکردگیوں کا یہ حال رہا ہے کہ عوام ان کی جماعت کے بینرز اور چاکنگ کو اپنے گھروں سے مٹا کر اے این پی سے شدید بیزاریت کا اظہار کر رہے ہیں ۔پی ایس ۹۳ کی ایک بڑی خصوصیت اور بھی ہے کہ کراچی کے واٹر مافیا کی وافر قیادت بھی یہاں پائی جاتی ہے جن کی وجہ سے کراچی کی عوام پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں ۔پی ایس ۹۳ کی بڑی خصوصیات میں ایک اور بھی ہے کہ یہاں منشیات کے بڑے اڈے بلا خوف و خطر چلائے جاتے ہیں اور کئی مرتبہ علاقہ تھانہ پر عوام نے مظاہرے اور احتجاج بھی کئے لیکن انھیں سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے ناکامی کا سامنا پڑا۔پی ایس ۹۳ کی پختون عوام قیام پاکستان سے قبل یہاں آباد ہیں لیکن انھیں زندگی کی بنیادی سہولیات سے ہمیشہ محروم رکھا گیا ، یہ بات نہیں ہے کہ یہاں پختون کے علاوہ کسی اور قومیت کا نمائندہ کامیاب ہوتا رہا ہے ،بلکہ جس جماعت کا بھی امیدوار کامیاب ہوا ہے وہ پختون قومیت سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ اب مذہبی جماعت نے اپنی آبائی کامیاب سیٹ پرایک افغانی امیدوار کو نامزد کیا ہے ۔، سابقہ بلدیاتی نظام میں یو سی ۴ کے ناظم بھی رہ چکے ہیں مذہبی جماعت کے سابقہ ناظم اعلی کراچی کے منہ بولے بیٹے کہلاتے ہیں۔لیکن یہ بھی پاکستانی سیاست کا المیہ ہے کہ ایک غیر پاکستانی ، بلدیاتی ناظم بھی بن جاتا ہے اور اب صوبائی نشست پر امیدوار بھی ہے اور اسکروٹنی کے عمل سے بھی کامیاب ہو کر ایک افغانی ، پاکستانی شہری بن کر قومی انتخابات میں حصہ لے رہا ہے۔پی ایس ۹۳ کی عوام پریشان ہیں کہ پختون قومیت کے نام پر سیاست کرنے والوں نے انھیں لاشوں ، بے امنی ، بھتہ خوری ، واٹر مافیا ، منشیات اور غنڈا کلچر کے علاوہ کچھ نہیں دیا اور ہمیشہ ترقیاتی کاموں سے محروم رہے اور دوسری جانب ایک افغانی کو بھی ووٹ نہیں دینا چاہتے ، کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مذہبی جماعت کا دعوی کرنے والی جماعتوں نے افغان، روس جنگ میں لاکھوں پختونوں کو جہاد کے نام پر تباہ کرایا اور اب امریکہ کی مخالفت کے نام پر افغانستان میں ہزاروں سواتیوں کے امریکی کلسٹر بموں اور میزائیل سے شہادتوں کی ذمے دار بھی مذہبی جماعتوں کو سمجھتے ہیں ، اس لئے ان کے سامنے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے امیدوار رہ جاتے ہیں ، جو کبھی بھی اس حلقے سے کامیاب نہیں ہوئے ، لیکن دونوں ا میدواران کا تعلق بھی پختون قوم سے ہے ، پیپلز پارٹی کے امیدوار اس سے قبل ۲۰۰۸ ء میں پی ایس ۹۶ کے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اور یو سی ۸ کے ناظم بھی رہ چکے ہیں ، لیکن پی ایس ۹۶ کے بجائے پی ایس ۹۳ سے الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ ایم کیو ایم نے پہلی بار ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پختون امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے کہ بار بار آزمائی جانے والی جماعتوں کو آزمانے کے بجائے انھیں موقع فراہم کیا جائے تو پی ایس ۹۶ کی طرح کٹی پہاڑی والے علاقوں میں لاتعداد سرکاری اسکولز ، گرلز کالج ، کرکٹ اسٹیڈیم ، پارک، کیمونٹی سینٹر اور واٹر پمپنگ اسٹیشن بنا کر کراچی کی پختون آبادیوں میں پی ایس۹۳ کو بھی ایم کیو ایم کے امیدوار مثالی بنادیں گے ۔ ایم کیو ایم پی ایس ۹۳ کی راویتی سیاست کو ختم کرکے یہاں بھی تاریخی ترقیاتی کام کرانا چاہتی ہے لیکندیکھنا یہ ہے کہ پی ایس ۹۳ ، پی ایس ۹۶ کی کٹی پہاڑی کے پختون عوام ترقیاتی کاموں کے حوالے اور خدمت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی کس سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔نفرت کی آگ کو محبت سے بجھایا جا سکتا ہے ، گیارہ مئی کے انتخابات آپ کے علاقوں کی ترقی ، مستقبل کے معماروں کی بقا اور روایتی سیاست کے خاتمے کا دن ہوسکتا ہے اگر پختون عوام اپنے درست نمائندوں کا انتخاب کریں۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 652817 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.