سب ”نورے “ ہی ”نورے“

اس ملک کی ہر چیز نرالی ہے یہاں جو نظر آتا ہے وہ اصل میں ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا۔ بعض اوقات محسوس ہوتا کہ اداروں میں تصادم کی صورتحال ہے ہر کوئی ایک دوسرے کو گرانے کے درپے ہے مگر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ بہت زیادہ شوروغل کے بعد یکایک ہرچیز ایسے نظر آنے لگتی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ فری سٹائل کے پہلوان آپس میں کشتی کے دوران انتہائی سفاک نظر آتے ہیں۔ ایک دوسرے کو لگتا ہے مار ہی دیں گے۔ لوگ دم بخود ہوتے ہیں۔ ان کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ جاتی ہے۔ مگر کشتی ختم ہوتی ہے تو پہلوان آپس میں شیر و شکر ہورہے ہوتے ہیں۔ پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک انٹرٹینمنٹ (Entertainment) تھی یعنی نورا کشتی تھی۔ یہاں بھی یہی صورتحال ہے۔ سب نورے ہیں اور اگر نورے نہ ہوتے تواس ملک کی صوتحال بدل گئی ہوتی۔ شہباز شریف اور نواز شریف زرداری کو جتنی مرضی گالیاں نکال لیں لیکن سچ یہی ہے کہ اُن کی مکمل حمایت کے بغیر زرداری حکومت پانچ تو کیا ایک سال بھی نکال نہیں سکتی تھی۔ طے تھا کہ پانچ سال زرداری کے اور پھر بعد میں باری نواز شریف کی اور اب نواز شریف کی بے قراری نظر آرہی ہے۔ ہاں کوئی ناپسندیدہ مہرہ ان کے کھیل میں آجائے تو انہیں پریشانی تو ہوتی ہے۔ عمران خان کی آمد کسی کو بھی پسند نہیں۔ مگر عمران اب ایک حقیقت ہے۔ اس سارے کھیل میں پرویز مشرف کی کہیں بھی کوئی جگہ نہیں بنتی۔ پتہ نہیں کون کس مقصد کے لیے اُسے بیچ میں لایا ہے۔ لیکن کچھ انہونی نہیں ہو گی۔ مشرف جلد آؤٹ ہو جائے گا۔ وہ کسی کا کچھ بگاڑے گا نہ کوئی اُس کا کچھ بگاڑ پائے گا۔ اس کا آنا بھی ایک انٹرٹینمنٹ ہی سمجھا جائے ۔ مشرف کا کھیل ختم ہونے والا ہے۔ ہر چیز معمول پر آجائے گی۔

اس وقت پرویز مشرف اپنے گھر میں بند ہیں اُن کے گھر کو اڈیالہ جیل کی سب جیل قرار دیا گیا ہے۔ گھر میں ہونے کے باوجود انہیں دو کمروں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ فون، انٹر نیٹ اور دیگر سہولتوں پر مکمل پابندی ہے۔ اُن کے مخالفین خوش ہیں کہ مکافات عمل ہے اور مشرف کو اب بہت سی چیزوں کا حساب چکانا ہو گا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پرویز مشرف اور پرویز مشرف کی آڑ میں فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مقصد شاید یہ ہے کہ فوج آئندہ کسی مہم جوئی کی متحمل نہ ہو سکے۔ مگر فوج مہم جوئی کبھی بھی خود نہیں کرتی۔ یہ سیاستدان ہیں جن کے اعمال افعال اور کردار فوج کو دعوت دیتے ہیں ۔ اور جب فوج آتی ہے تو کوئی اُسے روک بھی نہیں سکتا۔1999ءمیں جب پرویز مشرف نے حکومت سنبھالی تو دو تہائی اکثریت حاصل کرنے والے میاں نواز شریف نامقبولیت کی انتہا کو چھو رہے تھے۔ عوام نے اُن کی رخصتی پر باقاعدہ جشن منائے او رمٹھائیاں بانٹیں۔ لوگ بہت تنگ تھے۔ فوج کو اس وقت ہر طبقے نے خوش آمدید کہا۔ سیاستدان، جج ، جرنلسٹ کون تھا کہ جس نے اس وقت فوج کی پذیرائی نہیں کی۔ آج لوگ ماضی بھول جائیں تو کیا کہا جا سکتا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ضیا الحق کی حکومت کے بطن سے جنم لیا تھا اور مسلم لیگ (ق) کا جنم پرویز مشرف کی حکومت کے بطن سے ہوا تھا۔ نواز شریف تو اپنے محسن کا نام سن کر شرما جاتے اور منہ موڑ لیتے ہیں۔ مگر چوہدری شجاعت کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ تمام تر برے حالات کے باوجود انہوں نے کسی حدتک مشرف کے حق میں ایسی بات کی ہے۔ جو موجودہ حالات میں جائز اور معتدل ہے۔ حق نمک بھی ادا ہوتا ہے ۔ چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے میں جلد بازی سنگین نتائج برآمد کر سکتی ہے۔ کیونکہ یہ صرف مشرف کی ذات کا مسئلہ نہیں۔ پینڈورا باکس کھل جائے گا۔ کسی ایک فرد یاادارے کی تذلیل خطرناک صورت اختیار کر سکتی ہے۔ ہمیں ماضی کے ہاتھوں یرغمال ہونے کی بجائے عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے آئندہ کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ چوہدری شجاعت ایک منجھے ہوئے باشعور اور انتہائی زیرک سیاستدان ہیں او ر اس وقت جب کہ ہر طرف سب نورے ہی نورے ہیں چوہدری کا مشورہ انتہائی مناسب ہے مگر کب تک۔

چوہدری شجاعت ، نواز شریف اور زرداری سمیت ہمارے نوے فیصد سیاست دان روایتی ہیں۔ وہی پرانا گھسا پٹا انداز۔ پرانی فرسودہ سوچ۔ یہ کبھی بھی تبدیلی کے پیامبر نہیں رہے۔ ان کے نزدیک تبدیلی یہی ہے کہ کل تمہارے باری تھی۔ آج میری ہے۔ مگر اب تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے گو عمران خان کی تحریک انصاف جو تبدیلی کی علامت تھی۔ کسی حد تک اپنا تشخص برقرار نہیں رکھ سکی اور جیت کے لالچ میں انہوں نے بہت سے روایتی سیاست دانوں کو بھی اکاموڈیٹ کیا ہے مگر اُس کے باوجود انتخابی نتائج شایدسیاستدانوں کی توقعات سے بہت مختلف ہوں۔ بہت سے روایتی سیاستدانوں کے لیے یہ الیکشن آخری ثابت ہوگا۔ جو روایتی سیاستدان اس الیکشن میں اپنا آپ بچا لیں گے وہ بھی شاید زیادہ عرصہ سیاسی طور پر زندہ نہ رہ سکیں۔ تبدیلی کو بہرحال آنا ہے اُسے کوئی روک نہیں سکتا۔

دو لوگ جو آپس میں بہت گہرے دوست اور اکٹھے ایک ہی محکمے میں کام کرتے تھے میرے واقف تھے۔ دونوں انتہائی کرپٹ تھے اور بہت بے ایمان ، بغیر رشوت دیئے اُن کے پاس سے گزرنا بھی عام آدمی کے لیے انتہائی محال تھا۔ اپنے رشوت کے معاملے میں بدنام محکمے میں بھی بد نام ترین سمجھے جاتے تھے۔ کافی عرصے بعد کچھ دن پہلے ایک شادی کی دعوت میں اُن میں سے ایک سے ملاقات ہوئی۔ بہت سنجیدہ اور معزز دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے خیریت پوچھی اور پھر اُس کے دوست کا حال پوچھا۔ اُس نے ایک لمبا سانس کھینچا اور کہنے لگا بس اللہ کا ولی ہے۔ ڈیڑھ سال پہلے ریٹائر ہونے پر اس نے حج کیا اور بس اُس کی حالت ہی بدل گئی۔ دنیا کے حوالے سے اللہ نے اُسے پہلے ہی ہر چیز دی ہوئی ہے۔ اب دین کی دولت سے بھی مالا مال ہے۔ عموماً حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر بیٹھا نظر آئے گا۔ لوگ اُس سے دعائیں کراتے ہیں۔ اُس کی دعا میں بھی بڑی برکت ہے ۔ میں نے ہنس کر پوچھا کہ جو کروڑوں اس نے دوران سروس لوگوں سے ناجائز لیے تھے۔ وہ بھی انہیں واپس کر دیئے ہوں گے۔ اس کے چہرے پر خفگی کے آثار نظر آئے اور کہنے لگا۔ پرانی باتیں کریدنے کا کیا فائدہ وہ حج کر کے آیا ہے اور تمہیں پتہ ہے حج کرنے والے کے گناہ اس طرح معاف ہو جاتے ہیں جیسے اُس نے ماں کے پیٹ سے جنم لیا ہو۔ میں نے سر ہلا دیا۔ مجھے اس فلسفے کا پہلے پتہ نہیں تھا۔ سوچتا ہوں کہ مشرف کو بھی حج کرلینا چاہیے اور پھر کسی مزار پر ڈیرے لگا کر اللہ کو یاد کرنا شروع کر دینا چاہیے۔ افسوس کہ حج بھی لوگ اب عبادت کے لیے نہیں اپنے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کرتے ہیں۔ مگر مشرف کے لیے بھی اب یہی باعزت انداز رہ گیا ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 452521 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More