پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا کردار

قیامِپاکستان کے ساتھ ہی آئین مرتب کرنا سب سے مشکل کام تھا کیونکہ آئین ایک ایساڈھانچہ ہے جو کسی بھی ریاست میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی اسکی ترقی اور استحکام میں سب سے نمایاں رکاوٹ بننے والے عناصر میں ہماری سیاسی جماعتیں شاید سب سے نمایاں نظر آتی ہیں۔پاکستان میں بننے والی سیاسی پارٹیاں سیاسی کلچر اور روایات سے بالکل ناآشنا تھی۔سیاسی جماعتیں جمہوری ریاست کا آئینہ دار ہوتی ہیں۔پاکستان کی ترقی،استحکام اور دستور سازی سے انکار ممکن نہیں۔ہر سیاسی نظام ایک سیاسی کلچر کے تحت کام کرتا ہے۔سیاسی نظام کی بآسانی ترسیل میں ہمیشہ سیاسی کلچر سے آشنائی ضروری ہے۔جب تک سیاسی نظام اور سیاسی کلچر کے درمیان ہم آہنگی ہیں پائی جائے گی اس وقت تک کسی بھی سیاسی نظام کو کامیاب نہیں قرار دیا جا سکتا مگر ہمارے ملک کی بد قسمتی ہے کہاسکو ایسی سیاسی جماعتوں کا عطیہ ملا جو سرے سے ہی سیاسی کلچر سے شناسائی نہیں رکھتی تھی اور کسی بھی ایسے ضابطے اور قاعدے سے واقف نہیں تھیں جو ملک میں سیاسی کلچر کا فروغ کرتا۔اور ہمارے سیاسی نظام کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتا۔

پاکستان کا سیاسی پارٹیوں سے واسطہ پڑا جو شخصیت پرستی کے رجحان پر عمل پیرا تھیں جس سیاسی جماعت کی شخصیت مضبوط اور موثر اثرورسوخ رکھتی ہو وہ ملک کی کامیاب ترین جماعت بن جاتی ہے۔یہ شخصیت پرست عناصر پاکستان میں جمہوریت پر قدغن لگانے والوں میں نمایاں ہیں ان عناصر نے شخصیت پرستی کی آڑ میں اس ملک کبھی بھی جمہوریت کو کامیاب نہیں ہونے دیا کیونکہ ایسا کرنے سے انکا مخصوص طبقہ متاثر ہوتا ہے۔اس ملک کی سیاسی جماعتوں اپنے پنجے عوام کی رگوں میں اسطرح کاگاڑھے ہوئے ہیں کہ عوام اگر چاہیں بھی تو ان پنجوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے۔ہر پارٹی اور اسے تعلق رکھنے والے افراد کا اثرورسوخ اپنے علاقے میں اس قدر زیادہ ہے کہ عوام نے ان افراد کو آئیڈلائزڈ کرنا شروع کر دیا ہے۔اس بات کی پرواہ کئے بغیر کے آیا کہ وہ جس پارٹی کی حمایت کرنے جارہے ہیں۔وہ اس ملک کے مفاد کے لیے کتنی فائدہ مند ہیں۔اسکے علاوہ ملک میں ہونے والے تمام فیصلے میں ان شخصیات سے متاثر ہوتے ہیں مثلاًپاکستان میں ایسے مضبوط اور قدر آور شخصیات آئیں جو براہ راست پاکستان میں ہونے والے تمام چھو ٹے بڑے فیصلوں اور معاملات پر اپنا گہرا اثرورسوخ رکھتی ہیں۔مثلاً ذوالفقار علی بھٹو،صدر ایوب اور دیگر کئی،چنانچہ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ شخصیت پرستی ہمیشہ سے ہماری پارٹیوں کا خاصہ رہی ہیں ۔ہمارے سیاستدانوں کامزاج ہمیشہ سے ہی غیر جمہوری اور غیر آئینی رہا ہے۔سایستدان خود پے ہونے والی تنقید کو برداشت نہیں کر سکتے۔حکومت پر تنقید کو ریاست پر تنقید کا نام دےکر اسی ملک دشمنی قرار دیا جاتا ہے آج ہم جتنی بھی کامیاب ریاستیں کو دیکھتے ہیں تو اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہےکہ وہاں کے سیاستدانوں کی کامیابی کا راز انکا تحمل مزاج اور بردبار شخصیت کا ہونا ضروری ہے جو انکو عوام میں مقبول بناتی ہے۔مگر ہمارے ہاں سیاستدان اس خوبی سے نا آشنا ہیں ملک کی سیاست جمہوری روایات کے استحکام کی بجائے علاقہ پرستی اور لسانی اختلافات کی شکار ہو گئی ہے۔پاکستان کی سیاسی جماعتیں انتہائی غیر متحرک اور جامد کردار کی حامل ہیں ۔سایستدان جب بھی اپنے اوپر کڑا وقت دیکھتے ہیں تو اسی طرح متحرک ہو جاتے ہیں جیسے عوام کے لیے ہمدرد دل رکھتے ہیں۔مگر عام حالات میں سیاسی جماعتیں سوائےمنفی پروپیگنڈا کے اور دھرنوں کے کچھ نہیں کر پاتی۔سایستدان اس قدر غیر متحرک ہیں کہ انہیں اس چیز سے کوئی سروکار نہیں کہ ہمارے ملک میں تعلیم کا کیا مقام ہے۔معاشی حالات کس ڈگر پر چل رہے ہیں معاشرتی اور سماجی ترقی کے لیے انہیں کسی طرح کے اقدامات کرتے ہیں۔جو سیاسی جماعت جس علاقے سے کامیاب ہوتی ہے وہاں پر اپنے ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں باقی ملک کی کوئی پرواہ نہیں۔ہماری سیاسی جماعتوں کا رویہ ذاتی مفادات پر بنیاد رکھتا ہے۔ترقی پزیر ملکوں میں باصلاحیت اور بے لوث سیاسی قیادت کا زبردست فقدان ہے۔ایسا ہی مسئلہ ہمارے سیاسی نظام اور سیستدانوں کے ساتھ ہے۔ہمارے یہاں سیاسی جماعتوں کی پالیسیاں انتہائی خود غرض اور مفاد پرستی پر مبنی ہیں ہر کوئی آتا ہے اور ملک کو لوٹ کر چلاجاتا ہے۔سیاسی نظام کی کامیابی اس بات میں مضمر ہے کہ وہاں سے خود غرض،اور بد عنوان ،مفاد پرست اور کرپٹ قیادت کا خاتمہ کیا جائے۔اور اجتماعی مفاد چاہنے والے لوگوں کو بطورِ قائد سامنے لایا جائے۔بعض سیاسی جماعتیں آئے دن وفاداریاں تبدیل کرتیں ہیں۔ایسے میں یقیناًوہ عوامی اور ملکی مفاد کو نظر انداز کر کے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔سیاسی جماعتوں کا ملکی حالات میں بہت اہم کردار ہے۔اگر سیاسی جماعتیں غیر جانبدار ہو کر ملکی مفاد اور خوشحالی کے لیے کام کریں تو پاکستان جلد مستحکم ہو سکتا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں جاگیردارانہ سیاست اور نظام ایک سیاہ باب کی سی حیثیت رکھتا ہے۔مضبوط اور اثرو رسوخ رکھنے والی شخصیات اس نظامِ سیاست کو فروغ دے رہی ہیںآج پاکستان کو سیاسی کلچر کے بجائے وڈیرہ اور جاگیردارانہ کلچر کا رواج ہے۔ایسے علاقے جہاں وڈیرہ ازم اور جاگیردارانہ سیاست کا بول بالا ہےوہ ہمیشہ تعلیمی،سیاسی ،معاشرتی اور معاشی میدانوں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ ان جاگیرداروں اور وڈیروں کے زیرِ اثر ہمارا سیاسی کلچر ایک پسماندہ سیاسی کلچر ہے۔جس پر شخصیات کا اثر بہت جس تک غالب رہا ہے۔ہمارے ملک میں سیاسی تربیت کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔سیاسی جماعتوں کو قانونی حدود اور آئین کی بالادستی کو ملحوظِ خاطر رکھ کر کام کرنا چاہیے۔اسی صورت میں پاکستان ترقی کرےگا۔

bilqees fatima
About the Author: bilqees fatima Read More Articles by bilqees fatima: 5 Articles with 30493 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.