ووٹ کی شرعی حیثیت

پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے 5سالہ دور حکومت میں اپنے وعدوں کے برعکس فیصلے کر کے عوام کو جمہوریت کے نام سے منحرف کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔روٹی کپڑااور مکان کا نعرہ لگا کر حکومت بنانے والی پاکستان پیپلزپارٹی نے عوام کے منہ سے نوالے تک چھینے ،جسموں سے کپڑوں کو اُتارا اور قبضہ مافیا کی سرپرستی کر کے عوام کو چھتوں سے محروم کیایوں روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ پورا ہوا ۔ عوام یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ بدترین آمریت بہترین جمہوریت سے بہتر ہے۔11مئی کو انتخابات ہونے والے ہیں بعض قوتوں نے عوام کے اندر ایک تاثر پھیلا دیا ہے کہ جمہوریت کفر ہے اور ووٹ دینا والا گناہ کا مرتکب ہو گا، لیکن میڈیا نے عوام میں شعور اجاگر کر کے اپنا فریضہ ادا کیا ،امید ہے کہ ان کی یہ کاوش رنگ لائے گے اور ٹرن آؤٹ قدرے بہتر ہو گا۔دوسری طرف علماء حق ایک بار پھر اکٹھے ہوئے اوران قوتوں کا مقابلہ کیا جو عوام کو اندھیروں میں رکھنا چاہتے ہیں۔علماء نے ان قوتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے عوام تک حق کا پیغام پہنچایا۔ اسی کڑی میں پاکستان علماء کونسل نے ایک فتوی ’’ووٹ کی شرعی حیثیت ‘‘کتابچے کی صورت میں جاری کیا جس میں امیدوار کو کیسا ہونا چاہیے، اور عورت کو ووٹ کا حق ہے ان اہم سوالوں کے جوابات دئیے گئے ۔جس قوم کے نوجوانوں میں جنون اور علماء میں شعور ہو تو اس قوم کو ترقی کے منازل طے کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔کالم میں جگہ کی کمی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کتابچے سے اہم اقتباس قارئین کے پیش نظر ہیں۔ صفحے نمبر ایک پر درج ہے مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس کی سیاست شریعت کے تابع ہو نہ کہ شریعت کے منافی ،اس بارے میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم اسلام اور سیاست حاضرہ میں لکھتے ہیں ’’سیاست اسلام میں کوئی شجرۂ ممنوعہ نہیں ہے ،بل کہ دین ہی کا ایک شعبہ ہے،لیکن ہم مسلمانوں کو یہ بات کسی وقت فراموش نہ کرنی چاہیے کہ ہماری سیاست غیر مسلموں کی سیاست سے بالکل مختلف ہونی چاہیے اسلام میں گوئبلز اور میکاؤلی کی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں جس میں جھوٹ اور مکرو فریب کی کھلی چھوٹ ہوتی ہے‘‘ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ٓصاحب رحمہ اﷲ ووٹ کے بارے میں جواہر الفقہ میں لکھتے ہیں ’’عام طور پر اس کو ایک ہار جیت کا کھیل اور خالص دیناوی دھندہ سمجھ کر ووٹ لیے اور دئیے جاتے ہیں۔،لکھے پڑھے دیندار اور مسلمانوں کو بھی اس طرف توجہ نہیں ہوتی کہ یہ کھیل صرف ہماری دنیا کے نفع نقصان اور آبادی یا بربادی تک نہیں رہتا بل کہ اس کے پیچھے کچھ اطاعت و معصیت اور گناہ و ثواب بھی ہے۔ جس کے اثرات اس دنیا کے بعد بھی یا ہمارے گلے ہارعذا ب جہنم بنیں گے یا بھر درجات جنت اور نجات آخرت کا سبب بنیں گے ۔تفسیر معارف القرآن، فقی مقالات جلد دوم میں درج ہے ووٹ ڈالنے کے مسئلہ کو ہر گز یوں نہ سمجھا جائے کہ یہ خالص دنیاکا مسئلہ ہے دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں یقین رکھئے کہ آخرت میں ایک شخص کو اﷲ کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اپنے دوسرے اعمال کے ساتھ اس عمل کا بھی جواب دینا ہے کہ اس نے اپنی اس شہادت کا استعمال کس حد تک دیانت داری کے ساتھ کیا ہے ۔ووٹ کی شرعی حیثیت کے بارے میں کذافی جواہر الفقہ میں درج ہے ہمار ووٹ تین حیثیتں رکھتا ہے،ایک شہادت،دوسر شفاعت اور تیسرا حقوق مشترکہ میں وکالت ،تینوں حیثیتوں میں کس طرح نیک صالح قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ثواب عظیم ہے اور اس کے ثمرات اس کو ملنے والے ہیں اسی طرح نااہل یا غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری شفاعت بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گے، اس لیے ہر مسلمان ووٹر پر فرض ہے کہ ووٹ دینے سے پہلے اس کی پوری تحقیق کر لے کہ جس کو ووٹ دے رہا ہے وہ کام کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں او دیانت دار ہے یا نہیں محض غفلت و بے پرواہی سے بلا وجہ ان عظیم گناہوں کا مرتکب نہ ہو۔حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں شرعی اعتبار سے ’’ووٹ‘‘ ایک شہادت ہے ،آپ جس شخص کو اپنا ووٹ دیتے ہیں گویا اس کے بارے میں یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص آپ کی نظر میں اسمبلی کی رکنیت یا حکومت کا اہل ہے ،اور آپ کے حلقہ انتخاب میں آپ کے نزدیک اس منصب کے لیے اس شخص سے زیادہ کوئی موزوں نہیں ہے،لہذاووٹ پر شرعی اعتبار سے وہ تمام احکام جاری ہیں جو شہادت پر جاری ہوتے ہیں ووٹ اور وکالت پراہل علم حضرات نے ووٹ کی ایک تیسری حیثیت وکالت اور نمائندگی کی بیان کی ہے چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں ووٹ کی ایک تیسری شرعی حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنی نمائندگی کے لے ولیل بناتا ہے،لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچاتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا ہے مگر یہاں ایسا نہیں کیوں کہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے اس لیے اگر کسی نااہل کو اپنی نمایندگی کے لیے ووٹ دے کر کامیا ب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر رہا۔قرآن کریم نے سچی شہادت کو واجب و لازم قرار دیا ہے۔ شہادت چھپانا گناہ ہے چنانچہ مسلمانوں پر لازم قرار دیا گیا ہے کہ سچی گواہی ضرور ادا کریں اس سے جان نہ چرائیں،آج کل انتخابات میں جو خرابیاں پیش آ رہی ہیں ان کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نیک اور دین دار حضرات عموماًووٹ دینے ہی سے گریز کرنے لگے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا عموماً ایسے افراد آتے ہیں جو چند ٹکوں میں خرید لیے جاتے ہیں یا وہ برداریوں اور قومیتوں کے تعصبات کا شکار ہوتے ہیں اس لیے جس حلقہ میں کوئی امیدوار صحیح اور قابل اور دیانت دار معلوم ہوا اسے ووٹ دینے سے گریز کرنا بھی شرعی جرم ہے (حیات ترمذی )حضرت مفتی محمدتقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں شرعی نقطہ نظر سے ووٹ کی حیثیت شہادت اور گواہی کی سی ہے اور جس طرح جھوٹی گواہی دینا حرام ہے اور ناجائزہے اسی طرح ضرورت کے موقع پر شہادت کو چھپانا بھی حرام ہے ،قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے ’’اور تم گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو شخص گواہی کو چھپائے اس کا دل گناہ گار ہے‘‘۔عورت کے ووٹ ڈالنے کے بارے میں حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اﷲ صاحب دہلوی کفایت المفتی مدلل میں تحریر فرماتے ہیں،اگر پولنگ اسٹیشن پر عورتوں کے لیے پردے کا انتظام ہو اور غیر محرم مرد منتظم نہ ہوں بل کہ پیپرز دینے لینے والی عورتیں کام کرتی ہوں تو عورت کو ووٹ دینے کے لیے جانا جائز ہے اور غیر محرم مرد ہوں تو عورتیں نہ جائیں بل کہ مطالبہ کریں کہ ان کے لیے زنانہ منتظم مقرر کیے جائیں،فتاوی بینات میں ہے ضرورت ہے کہ ووٹر اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کر کے اپنے ووٹ کو صحیح مصرف میں استعمال کریں ووٹ کی خرید و فروخت حرام اور ناجائز ہے کیوں کہ ووٹ ایک حق ہے او حق خرید و فروخت باطل و کالعدم ہے ۔اس فتوی کو جاری کر کے پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ محمد طاہر محمود اشرافی اورسیکٹریری جنرل صاحبزداہ زاہد محمود قاسمی مبارک باد کے مستحق ہیں ووٹ دینے کے معاملے پر شش و پنج کا شکار پاکستانی عوام پر ایک بڑا احسان کیاہے۔اب پاکستان کے عوام کو چاہیے کہ وہ 11مئی کو گھروں سے نکلے اور پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لیے سچی گواہی دے تاکہ جس مقصد کے لیے ہمارے بزرگوں نے پاکستان کو حاصل کرنے کے حصول کے لیے قربانیاں دی وہ پورا ہو سکے یہاں امن ہو خوشحالی ہو اور یہ سب آپ کے سچی گواہی(ووٹ )سے ممکن ہو سکتاہے۔

Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 54923 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More