’’ وطن عزیز کی ترقی ۔۔۔۔۔۔اور نفرتوں کا خاتمہ‘‘

ماں کی پہلی درسگاہ سے بچے کو جو سب سے پہلے سبق ملتا ہے اس میں بنیادی دینی معلومات سمیت اپنے وطن سے محبت و پیار کی باتیں سکھائی جاتی ہیں۔ اس حوالہ سے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ’’ دنیا میں ہر بچے کی پیدائش فطرت پرہوتی ہے (یعنی فطرتاً اسلام پر پیدا ہوتا ہے) اب اس کے والدین پر ہے کہ وہ اسے یہودی،عیسائی یا مجوسی بنائیں‘‘۔چند بنیادی معلومات تقریباً ہر بچہ اپنی ماں کی گود میں پلتے بڑھتے سیکھتا ہے جو اس کی جوانی تک اس کے دل و دماغ میں پختگی کے ساتھ راسخ ہو چکی ہوتی ہیں۔ بچہ جب تک ماں کی آغوش میں ہوتا ہے توفرمانبردار بھی ہوتا ہے اور محب وطن بھی، مگر یہی بچہ بڑا ہو کر معاشرے کے گرم سرد تھپیڑوں کا سامناکرنے کے بعد نہ تو فطرت پر قائم رہ پاتا ہے اور نہ ہی وہ جذبہ حب الوطنی اس میں موجود ہوتا ہے۔ نتیجتاً مختلف مذہبی و سیاسی طبقات میں بٹ جاتا ہے۔

وطن عزیز کا وجود دنیا کے نقشے پر ابھرا تو اس کا نشان دنیاکی نظر میں ایک سفید اور سبز ہلالی چاند تارے جیسے خوبصورت پرچم کی صورت میں دکھائی دیا۔ سفید رنگ ہمارے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کو ظاہر کرتا ہے اور سبز رنگ مسلمانوں کی عظمت کی نشاندہی کرتاہے۔ سفید اور سبز رنگ کے ملنے سے جو اس پرچم کی خوبصورتی بنتی ہے اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک رنگ بھی پرچم سے نکال دیا جائے تو اس کی خوبصورتی ختم ہو جائے گی۔ ایسے ہی اگر اس ملک سے اقلیتوں کو نکال دیا جائے تو ملک کا حسن بھی مانند پڑ جائے گا ۔ جدوجہد آزادی کے موقع پر ہم ایک قوم کی حیثیت سے اپنی آزادی حاصل کرنے کی جستجو میں تھے تو ساتھ میں ایک مسلماں کی حیثیت سے اپنے مذہب کے محافظ بھی۔ برصغیر میں آزادی کی تحریک میں دو قومی نظریہ کاوجود انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ برصغیر پر قابض انگریز کے تسلط اور پھر ہندو قوم کے ظلم و جبر سے مسلمانوں نے آزادی حاصل کرنے کا سوچا تو اسی لمحہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے حواریوں کو بھی خدشہ لاحق ہو گیا کہ سونے کی اس چڑیا برصغیر کو انہیں ایک نہ ایک دن چھوڑ کے تو جاناہی پڑے گا تو کیوں نہ کچھ ایسا کر کے جایا جائے کہ جو آج آزادی حاصل کرنے کا شور کر رہے ہیں کل کو وہ خود ہمیں اپنی غلامی میں دینے کو تیار ہوجائیں۔ تاج برطانیہ کے ہواریوں اور ہندو بنیا کی آپس کی چالوں نے برصغیر میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی سازشوں کے مقابلے کے لیئے دو قومی نظریہ نے ہی مسلمانوں کی رہنمائی کی تھی۔ علامہ اقبال کا ایک آزاد مملکت کا خواب اور پھر قائداعظم محمد علی جنا ح جیسی کرسماتی شخصیت کی قیادت میں آزاد ہونے کی جستجو اور سب کی ایک ہی آواز ’’پاکستان کا مطلب کیا لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ‘‘نے ایک ایساسماں باندھا کہ انہونی کو ہونی کر دکھایا جس کا کبھی کسی نے سوچا ہی نہ تھا۔ آزادی حاصل کر لینے کے بعد مملکت خداداد پاکستان میں جو ظلم ہم نے خود اپنے آپ پر کیا جس کے نتائج برآمد ہوئے جارہے ہیں وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال دیتا چلوں جس سے شاید اپنی بات آپ کو بہتر اندا ز میں سمجھا سکوں کہ جب کوئی فرد کہیں ملازمت حاصل کرتا ہے تو وہ شروع کے ایام اپنے کام میں لگن، وقت کی پابندی ، اپنے آپ کو اپنے بالا آفیسران کا بہترین انتخاب ظاہر کرنے کے لیے بھرپور شوق و جذبے سے کام کرتا ہے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ وہ خود صبح بروقت دفتر پہنچ جاتا ہے لیکن اس کے بالا ذمہ داران تاخیر سے بھی آتے ہیں اور دیانت داری سے بھی کام نہیں کرتے اور اس کی لگن اور دیانتداری کو پذیرائی نہیں ملتی تو وہ آغاز میں رشوت، کام چوری اور دیگر برائیوں میں حصہ دار نہیں بنا ۔ جب اس کے سامنے قانون قائدے کو توڑ کر جو جیسا چاہتا ہے ویسا کام کروا لیتا ہے تو یقیناًوہ شخص آہستہ آہستہ اپنے فرائض منصبی کو ادا کرنے میں کوتاہی کرتا چلا جائے گااور پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ کل تک جو اسے غلط لگتا تھا تو آج وہ خود اس پروگرام کا حصہ بن چکا ہو گا۔ اب تو سب اسے اچھا محسوس ہونے لگتا ہے۔یہی بات ہمارے سوچنے کی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہم ایک قوم تھے۔ اپنے وطن کے پاسباں تھے مگر رفتہ رفتہ ہم قوم سے ٹکڑوں میں بٹنے لگے ۔پہلے ہم ایک جسم کی مانند تھے کوئی سندھی، بلوچی، پنجابی اور پٹھان کی تفریق نہ تھی لیکن پھر کچھ ایسی کوتاہی ہم سے ہوئی کہ ہم ’’پاکستان کا مطلب کیا لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ‘‘ بھلا کر نفرت کی آگ میں جلنے لگے، ایک دوسرے کے خون کی پیاس میں اپنی آزادی کے دشمن بن بیٹھے ۔ کل جب ترکی میں پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت کا مسئلہ پیدا ہوا تھا تو ہم ہی وہ مسلمان تھے جنہوں نے برصغیر کے اندر تحریک خلافت کا آغاز کیا تھا لیکن وہی مسلمان گرہوں میں تقسیم ہو گئے ۔ دین کو صرف مساجد اور مدرسوں تک محدود کر دیا۔ دین تو تاریکی سے روشنی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ پہلے ہم اپنے دشمن بنے پھر مذہبی بنیادوں پر بٹتے چلے گئے اور پھر بھی چین نہ آیا تو سیاسی رواداری کو ایک دوسرے کے منہ پر مارتے ہوئے پوائنٹ سکورنگ شروع کر دی۔ ہم نے یہ بھی نہ سوچا کہ پنجاب ،سندھ، خیبرپختوخواہ اور بلوچستان کسی اور نہیں اسی ملک پاکستان کا حصہ ہیں۔ پاکستان کو تو ہمارے آباؤاجداد نے اپنے لہو سے آزاد کروایا تھا ہم نے تو صرف پاکستان کو بگاڑا ہے۔ اس ملک کی جڑیں ہم نے کھوکھلی کی ہیں۔ اللہ نے آزادی کی نعمت سے ہمیں نوازا ہے مگر ہم تو خود غلام بننے کو تیار ہیں۔ یاد رکھیے ! اللہ تعالی اپنی نعمت کا حساب ضرور لیتا ہے۔۔۔۔!! ہم ٹکڑوں میں یوں بٹ رہے ہیں کہ آگ کراچی میں لگی ہے تو لاہو ر والے اسے آگ کو اپنے سے ہزاروں کلومیٹر دور سمجھتے ہیں۔ کوئٹہ میں اگر افراتفری ہے تو پشاور والے اسے وہاں کا مقامی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ پشاور میں بسنے والا اگر گولی کا نشانہ بنتا ہے تو کراچی میں تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ پختونوں کا قبائلی مسئلہ ہے ۔الغز ض کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آگ کہیں بھی لگی ہو،لگی تو اس ملک میں ہے۔ اس آگ اور اندھی گولی سے متاثر اس ملک کے بسنے والے ہی ہو رہے ہیں۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختوخواہ کوئی ہندوستان میں تو واقع نہیں بلکہ اس پاک سرزمین کاہی علاقہ ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب یہ علاقے پاکستان کے ہیں تو ہم پاکستانی کیوں نہیں ہیں۔۔۔۔؟؟؟؟

پاکستان اسلام کا قلعہ اور کلمہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا لیکن پھر اس قلعہ میں اسلام کے نام پر دہشت گردی کیوں ہوتی ہے۔ سلامتی والے مذہب پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر ایسا رخ پیش کیا جا رہا ہے جس سے دور دور تک اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستان جب تقاضا کرتا ہے کہ یہ ملک کسی قسم کی سیاسی ،مذہبی ،لسانی،علاقائی اور برادری ازم جیسی افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا تو ہم غور کیوں نہیں کرتے؟ جب میں کہتا ہوں کہ میں پاکستانی ہوں آپ کہتے ہیں کہ آپ پاکستانی ہیں تو پھر ہم افراتفری کا شکار کیوں ہیں؟ ملک دہشت گردی کی چکی میں کیوں پستا چلا گیا ہے ؟ آج پاکستان کی معاشی شہ رگ لہولہان ہے اور گولیوں کی آواز اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہے تو یہ سب دیکھتے جانتے دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ اگر کسی سے اس کا حل پوچھا جائے تو حل کوئی نہیں بتلاتا بلکہ ایک دوسرے کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ جب اپنے دل و دماغ سے ان مسائل کا حل اور جواب مانگتا ہوں تو یہ دلِ ناتواں عجب جواب دیتا ہے کہ ’’جس دن پاکستان کے گلی کوچے اور بازار اذان کی آواز سنتے ہی نماز کی نیت سے بند ہونا شروع ہو جائیں گے اس دن سے ملک میں امن، راحت، بھائی چارے اور برکتوں کا نزول ہونا شروع ہو جائے گا اور تمام مسائل کا خاتمہ اور وسائل کی فراوانی ہمارا مقدر ہو گی ان شاء اللہ۔

Danial Shahab
About the Author: Danial Shahab Read More Articles by Danial Shahab: 18 Articles with 22201 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.